اپوزیشن کے خواب اور زمینی حالات

اپوزیشن کے خواب اور زمینی حالات
اپوزیشن کے خواب اور زمینی حالات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


لمحہئ موجود میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کی اضطراری حالت دیکھ کر ہمدم دیرینہ اور معروف شاعر شعیب بن عزیز کا ایک شعر یاد آ گیا ہے:
ہم نیند کے شوقین زیادہ نہیں لیکن
کچھ خواب نہ دیکھیں تو گزارا نہیں ہوتا
اپوزیشن بھی آج کل یہ خواب دیکھ رہی ہے کہ 13 دسمبر کے جلسے سے پہلے یا فوری بعد عمران خان استعفا دے کر گھر چلے جائیں گے۔ یہ پیش گوئی مسلم لیگ (ن) والے کچھ زیادہ ہی کر رہے ہیں جو کام پاکستان کی 73 سالہ تاریخ میں کبھی نہیں ہوا وہ اب کیسے ہو سکتا ہے، اس کا شاید ان کے پاس کوئی جواب نہیں، یہاں 126 دنوں کے دھرنے سے حکومت نہیں جاتی اپوزیشن والے ایک دن کے جلسے سے حکومت جانے کی تمنا لئے بیٹھے ہیں جس طرح شعیب بن عزیز نے اپنے شعر میں کہا ہے، اپوزیشن کا بھی آج کل سہانے خواب دیکھے بغیر گزارا نہیں ہوتا۔ لگتا ہے اب سیاست میں ڈرامائی کیفیات کی بڑی اہمیت ہو گئی ہے۔ جلسے اور جلوس بھی اس وقت تک کامیاب نہیں ہوتے جب تک سنسنی خیز پیش گوئیاں نہ کی جائیں پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کہتے تھے کہ حکومت دسمبر سے پہلے چلی جائے گی۔ آج دسمبر کا پہلا ہفتہ گزرنے کو آ گیا ہے مگر دور دور تک کوئی شائبہ دکھائی نہیں دیتا کہ عمران خان کہیں جا رہے ہیں۔


کسی کے مطالبے پر حکومت کی تبدیلی دو ہی صورتوں میں ممکن ہے کہ وزیر اعظم مستعفی ہو جائیں یا ماضی کی طرح چھڑی دکھا کر انہیں استعفا دینے پر مجبور کر دیا جائے۔ کیا موجودہ حالات میں یہ دونوں صورتیں ممکن نظر آتی ہیں حالت تو یہ ہے کہ چھڑی گھمانے والے پوری طرح وزیر اعظم کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں اور جہاں تک عمران خان کے اپنی مرضی سے مستعفی ہونے کا تعلق ہے تو اندھے کو بھی معلوم ہے کہ یہ خان کی نفسیات و مزاج کے خلاف ہے کہ وہ میدان چھوڑ دے۔ ایک عام آدمی بھی یہ بات سمجھتا ہے کہ فی الوقت حکومت گرنے کا جواز اس لئے بھی نظر نہیں آتا کہ متبادل نظام کوئی نہیں، اپوزیشن نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے۔ لیکن نظام تو پوری طرح چل رہا ہے۔ پارلیمانی اور حکومتی ادارے کام کر رہے ہیں اور کوئی ایسا رخنہ نہیں  جس کی وجہ سے نیا مینڈیٹ ضروری ہو گیا ہو۔ پھر عمران خان کو اپوزیشن کے مطالبے پر نکال کے اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ عمران خان اس پر احتجاج نہیں کریں گے۔  ایک منتخب وزیر اعظم کو نکال باہر کرنا جس کی عالمی سطح پر ساکھ بھی موجود ہو، ایک عجوبہ ہی کہلائے گا۔ اپوزیشن پانچ جلسے کر چکی ہے اور ہر جلسے سے پہلے یہی کہتی رہی ہے کہ جلسہ عوامی ریفرنڈم ثابت ہوگا اور حکومت بھاگ جائے گی، مگر سوائے ملتان میں جلسے کے، کہیں بھی ایسی صورتِ حال پیدا نہیں ہوئی جس سے یہ لگتا ہو کہ حکومت پریشان ہو گئی ہے۔
اب اپوزیشن نے لاہور کے جلسے سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں کہ وہ حکومت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا بالفرض اپوزیشن لاہور میں بہت بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، دوسرے لفظوں میں پورا لاہور بھی اس جلسے میں آجاتا ہے، تو دو چار گھنٹوں کے بعد سب اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں، حکومت وہیں کھڑی ہو گی۔ حکومت گرانے کے لئے بڑے جلسے ہی کافی نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اپوزیشن کی تحریک نے پورے ملک کا پہیہ جام کر دیا تھا۔ مگر حکومت ختم نہ ہوتی اگر ضیاء الحق غیر آئینی طریقے سے حکومت پر قبضہ نہ کرتے۔ آج کے حالات میں تو ایسا ناممکن ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اپوزیشن کی مدد کو آئیں اور حکومت کو گھر بھیج دیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اپوزیشن نے خود ہی ووٹ کو عزت دو کی مہم چلا رکھی ہے اسحاق ڈار اور نواز شریف بیرون ملک بیٹھ کر یہ واویلا کرتے نہیں تھکتے کہ فوج پاکستان میں جمہوریت کو چلنے نہیں دیتی کیا ان کے اس بیانیئے کے بعد فوجی قیادت یہ قدم اٹھا سکتی ہے کہ ماورائے آئین تبدیلی کرے اور عمران خان کو گھر بھیجے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اپوزیشن کے فوج مخالف بیانیئے نے الٹا عمران خان کی حکومت کو مضبوط کیا ہے۔

فرض کرتے ہیں پی ڈی ایم کی تحریک سے حکومت ختم ہو جاتی ہے حالانکہ یہ فرض کرنا بھی خاصا احمقانہ فعل نظر آتا ہے۔ اور نئے انتخابات کا 90 دنوں میں انعقاد ہوتا ہے، تو کیا ان انتخابات کے نتائج کو سب جماعتیں کھلے دل سے قبول کر لیں گی؟ بغیر انتخابی اصلاحات کے اگر انتخابات ہوتے ہیں تو پرنالہ وہیں رہے گا۔ حال ہی میں سب نے دیکھا کہ گلگت بلتستان کے انتخابی نتائج کو بھی تسلیم نہیں کیا گیا اور پر تشدد مظاہرے کرائے گئے۔ اگر یہ روایت ڈال دی گئی کہ مطلب کے نتائج نہ آئیں تو حکومت کو مدت پوری نہ کرنے دی جائے تو پھر چوہے بلی کے اس کھیل کو کون روکے گا۔ موجودہ حکومت کے خلاف تو پہلے دن سے عدم اعتماد کیا گیا اور تحریک کی بنیاد رکھ دی گئی۔ کوئی ثبوت دیا اور نہ انتخابی عذر داریاں دائر کی گئیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کئی محاذوں پر ناکام ثابت ہوئی، خاص طور پر معاشی شعبے میں اس کی کارکردگی ناقص رہی، مگر آئین میں تو ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ حکومت کی اگر کارکردگی بہتر نہ ہو تو اسے وقت سے پہلے ختم  کر دیا جائے۔ آئین میں تو ایک واضح طریقہ موجود ہے جس کے تحت حکومت ختم کی جا سکتی ہے اور وہ ہے تحریک عدم اعتماد کا طریقہ۔ حیرت ہے کہ اپوزیشن آج تک اس طرف نہیں آئی حالانکہ اس کے پاس اس کے لئے درکار اکثریت بھی موجود ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپوزیشن میں شامل جماعتیں یا تو سنجیدہ نہیں یا پھر ان میں اعتماد کی کمی ہے۔ اب یہ خبریں آئی ہیں کہ مسلم لیگ (ن) نے 13 دسمبر کو لاہور میں جلسے کے بعد پنجاب اسمبلی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے یہ بھی ایک مذاق ہے، کیونکہ حکومت آپ وزیر اعظم کی گرانا چاہتے ہیں مگر مستعفی صوبائی اسمبلی سے ہوں، خواب دیکھنا اور داؤ پیچ استعمال کرنا اپوزیشن کا حق ہے اب نتائج بھی اس کی مرضی سے نکلیں اس کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔

مزید :

رائے -کالم -