بیاد قدرت اللہ چودھری: جانے والے تجھے روئے گا زمانہ برسوں!
دل کے دریا کو کسی روز اتر جانا ہے
اتنا بے سمت نہ چل لُوٹ کے گھر جانا ہے
امجد اسلام امجد کا یہ شعر ہر پیارے کی وفات پر بے طرح یاد آتا ہے تو قدرت اللہ چودھری کی وفات پر کیوں نہ آئے کہ مجھے ان سے پیارا اور کون ہو سکتا ہے؟ چودھری صاحب سے دوستی کی جو قابل فخر سعادت حاصل رہی، وہ برادرم ممتاز اقبال ملک کی رہین منت ہے۔ وہ لمحہ میری زندگی کا حاصل ہے جب ملک صاحب نے ان سے میرا تعارف کرایا اور وہ گھڑی مجھے رنج و الم کی علامت بنا گئی، جب پتہ چلا کہ قدرت اللہ چودھری بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اصل صدمہ یہ تھا کہ اذیت ناک مرض میں مبتلا تھا، جنازے میں بھی شرکت نہ کر سکا۔ گُردے میں انفیکشن نے بستر علالت سے باندھ رکھا تھا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کسی کو اس معذوری اور بے بسی سے دوچار نہ کرے۔
صحافت کا تختہ مشق بننے والا ہر شخص بار بار بے روزگار ضرور ہوتا ہے۔ الا ماشاء اللہ میں بھی بار بار اس حادثے سے دوچار ہوا۔ ایک بار چودھری صاحب کو پتہ چلا تو فون پر رابطہ کرکے میرے بارے میں استفسار کرنے کے فوراً بعد اپنے مخصوص انداز میں فرمایا: ”فوراً اسلام آباد پہنچ جاؤ۔ اپنا بوریا بستر ساتھ لے کر یہ ذہن بنا کر آ جاؤ کہ یہاں میرے ساتھ ملازمت کرنی ہے۔ (مرحوم ان دنوں روزنامہ ”پاکستان“ کے اسلام آباد ایڈیشن سے بطور ایگزیکٹو ایڈیٹر وابستہ تھے)…… مَیں نے حکم کی تعمیل کی۔ کئی ماہ ”پاکستان“ میں خدمات انجام دیں۔ چودھری صاحب نے صرف میری خاطر اسلام آباد ایڈیشن میں ”اداریہ“ نویس کی آسامی پیدا کر لی، حالانکہ صحافت سے وابستہ سب لوگ جانتے ہیں کہ کسی بھی روزنامہ کے مختلف ایڈیشنوں میں ایک ہی اداریہ شائع ہوتا ہے۔ چودھری صاحب کو اللہ تعالیٰ نے صحافت سے وابستگی کے دوران میں امانت، ذہانت اور قناعت ایسی جو خوبیاں عطا کی تھیں، ان کے نتیجے میں آپ کے مالکان آپ کی ہر بات مانتے تھے۔ اس وقت کے مالک اکبر بھٹی (مرحوم) کے ایک بااختیار نمائندہ نے آپ سے پوچھا: ”چودھری صاحب اداریہ تو مستقل طور پر لاہور سے لکھا جا رہا تھا، آپ نے یہاں (اسلام آباد میں) نئی آسامی پیدا کر لی؟ چودھری صاحب نے جواب دیا: ”آپ کل لاہور اور اسلام آباد ایڈیشنوں میں دونوں اداریئے غور سے دیکھیں۔ جب آپ کو اسلام آباد والا اداریہ واضح طور پر زیادہ پُر مغز نظر آیا تو آپ مطمئن ہو جائیں گے…… اس طرح ”پاکستان“ اسلام آباد کے ”مالکان“ مطمئن ہو گئے۔
مالکان ہوں یاکارکنان، ہر ایک کے اطمینان کا سامان چودھری صاحب کے پاس ہمہ وقت وافر مقدار میں موجود ہوتا تھا۔ جناب مجید نظامی، چودھری صاحب سے اکثر کہا کرتے یار! چودھری قدرت اللہ! تمہارے پاس ہر سوال کا گھڑ گھڑایا جواب موجود ہوتا ہے۔ چودھری صاحب کو ذات باریٰ تعالیٰ نے غیر معمولی علمی وفنی صلاحیتیں ودیعت فرما رکھی تھیں۔اس بناء پر مالکان، کارکنان، رفقائے کار، ٹریڈ یونین سے وابستہ ساتھی سب کے سب ایک دوسرے سے شیر و شکر اور چودھری صاحب کی محبت اور عشق میں مبتلا رہے ہیں۔ایک دوسرے کے کام آنے کی روایت، احبابِ قدرت اللہ میں قدرتِ الٰہی نے بدرجہ اتم عطا کر رکھی تھی۔ دوستوں میں غیر صحافیوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ مشترکہ دوستوں میں انسپکٹر جنرل پولیس طاہر عالم خان صاحب میرے، چودھری صاحب مرحوم اور جمیل قیصر و غیر ہم کے احباب میں شامل تھے۔ انہوں نے ایک موقع پر خواہش ظاہر کی کہ چودھری قدرت اللہ آپ کی بات کا انکار نہیں کریں گے، انہیں پاکستان سے روزنامہ ”دن“ میں بطور ایڈیٹر منتقل ہونے کو کہیں۔ ہمارے دور کے لوگ دوستوں کے فی الواقع دوست ہوا کرتے تھے اور اس قسم کی خواہش یا فرمائش پوری کرنے میں کوئی تامل روا نہیں رکھا کرتے تھے۔ میں نے چودھری صاحب سے گزارش کی تو انہوں نے حسب معمول بلا ادنیٰ تامل میری گزارش کو پذیرائی بخش دی۔ چودھری صاحب نے میری بے روزگاری کا علم ہونے پر اسلام آباد روزگار کی سعادت بخشی، اسی طرح میں نے اپنے ایک پولیس مین دوست کی خواہش پوری کرتے ہوئے چودھری صاحب کو ”دن“ کی ادارت کے چنگل میں پھنسا دیا۔ ایک بڑے آدمی کو اس طرح پھنسانا، مد مقابل کے چھوٹے پن کا افسوسناک مظاہرہ ہے، مگر چودھری قدرت اللہ نے کبھی اظہار تاسف کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
چودھری صاحب مرحوم کم و بیش نصف صدی تک صحافت سے منسلک رہے اور اس دوران مختلف میڈیا ہاؤسز میں اہم مناصب پر ذمہ داریاں انجام دیتے رہے۔ اہم قومی اخبارات میں بطور ایڈیٹر ان کی خدمات کو سراہا گیا۔ ہر شعبہ صحافت میں کامل دسترس رکھتے تھے۔ پریس کلب پنجاب یونین آف جرنلٹس اور جنگ ورکرز یونین ایسی صحافتی تنظیموں کے پلیٹ فارموں سے کارکن صحافیوں کے حقوق کے لئے بھی کوشاں رہے۔ قدرت اللہ چودھری 1948ء میں پیدا ہوئے۔ گورنمنٹکالج لاہور سے انگلش لٹریچر میں ماسٹرز کیا۔ اولڈ راوین کے طور پر ان کی خدمات ہر سطح پر اور ہر مکتب فکر میں تسلیم کی گئیں۔ صحافتی اور ادبی و سیاسی حلقوں میں غیر معمولی احترام کی نظر سے دیکھے گئے۔ چودھری قدرت اللہ نے صحافتی زندگی کا آغاز1966ء میں روزنامہ نوائے وقت سے کیا۔1981ء میں جب لاہور سے روزنامہ جنگ کی اشاعت شروع ہوئی تو وہ پہلے ہی اس سے منسلک ہو چکے تھے اور کئی سال تک مختلف عہدوں پر خدمات انجام دیتے رہے۔ مشرق پشاور سے بھی وابستہ رہے۔ 1998ء میں میری کاوش سے روزنامہ ”دن“ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ 2005ء میں روزنامہ پاکستان سے وابستہ ہو گئے اور کہا جا سکتا ہے کہ ”پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا“…… لاہور اور اسلام آباد سمیت دیگر اسٹیشنوں پر بطور گروپ ایگزیکٹو ایڈیٹر خدمات انجام دیتے رہے اور زندگی کے آخری لمحے تک اسی ادارے سے وابستہ رہے۔
چودھری قدرت اللہ کارکن صحافیوں کے لئے گرانقدر خدمات انجام دیتے رہے۔ اس حوالے سے مجھے ذاتی طور پر جو تجربہ ہوا، قارئین کے لئے یقینا بے حد دلچسپی کا موجب ثابت ہوگا۔ جنگ کی انتظامیہ کے ساتھ میرا طویل مقدمہ چلا جو بیس سال سے بھی زائد مدت کو محیط تھا۔ جنگ والوں نے مجھے بہت چاؤ سے اپنے پاس بلوایا۔ ”جنگ“ ایڈیشن کی کراچی سے لاہور ”درآمد“ سے پہلے میں روزنامہ ”وفاق“ کے ساتھ ساتھ جنگ کراچی کے نامہ نگار کی حیثیت سے خدمات انجام دینے لگا تھا۔ میں نے ”وفاق“ میں اس وقت مصر میں متعین سفیرِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے ہم سفر جناب احمد سعید کرمانی کی ایک ایکسکلیوسیو خبر شائع کر دی۔ خبر یہ تھی کہ احمد سعید کرمانی اچانک مصر سے لاہور ہائی کورٹ پہنچ گئے اور اپنی نوکری بچانے کے لئے فاضل عدالت عالیہ سے درخواست گزار ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار سنبھالنے کے باعث ان کی نوکری آنجہانی ہونے کو تھی۔ ”جنگ“ لاہور کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر نے قدرتی طور پر اس خبر کو بے حد سرایا اور میری بھی ستائش کی۔ اپنے مقامی چیف رپورٹر سے کہا: ”وفاق“ کے اس اسٹاف رپورٹر کو کسی بھی قیمت پر جنگ میں لے آؤ…… مگر بعد میں نہایت مضحکہ خیز عذر تراش کر مجھے راولپنڈی آفس تبدیل کر دیا۔ منصوبہ یہ تھا کہ راولپنڈی پہنچے گا تو وہاں سے کوئٹہ اور پھر لندن آفس بھجوا دیں گے۔ میں نے اپنے تبادلے کو عدالت میں چیلنج کر دیا۔ لیبرکورٹ نے تو فیصلہ میرے حق میں دے دیا، مگر اعلیٰ عدالت میں صورت حال برعکس رہی۔ 24سال تک مقدمہ چلا اور مجھے چلتا کر دیا گیا۔
اس مقدمے میں چودھری قدرت اللہ نے میری حمایت میں جو گواہی عدالت میں دی، وہ چودھری صاحب کی جرات و بہادری،ان کے کھرے پن اور کارکن ساتھیوں سے ایک سَچے اور سُچے ٹریڈ یونینسٹ کا بے مثل سلوک تھا۔ اس دور میں ٹریڈ یونین کے اکابر میں مقابلتاً خلوص، ہمدردی اور محبت کے جذبات زیادہ شدید تھے۔ ٹریڈ یونین محض ٹریڈ یونین کے لئے ہی نہیں کی جاتی تھی۔ چودھری قدرت اللہ نے تو اسے مقدس مشن کا درجہ دے رکھا تھا۔ محض مخالفت نہیں کی جاتی تھی۔ ایک مرحلے پر میر شکیل الرحمن اور چودھری قدرت اللہ کے درمیان کسی کارکن کے مسئلے پر شدید اختلافات پیدا ہوگئے۔ چودھری صاحب مرحوم، میر شکیل الرحمن کے ”مالکانہ“ طرز عمل کے آگے جھکنے کو تیار نہیں تھے۔ جھکنا ان کے ضمیر ہی میں شامل نہیں تھا۔ جمیل قیصر، جنگ یونین کے جنرل سیکرٹری اور میں سیکرٹری انفرمیشن تھا۔ اللہ جنت میں درجات بلند فرمائے جمیل صاحب نے مجھے ایک بے حد کارآمد مشورہ دیا۔ کہنے لگے: ”قربان انجم! میں شکیل صاحب کے مزاج کو جانتا ہوں۔ انہیں چودھری صاحب کے گھر جا کر ملاقات اور مصالحانہ کوشش پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ جمیل صاحب کی تجویز اور اس پر کامیاب عملدرآمد نے جو مستحسن نتیجہ برآمد کیا، اس کی مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ اس پُرسعید کاوش کی اصل روح یہ تھی کہ ہم چودھری قدرت اللہ کے دو نیاز مند ساتھیوں نے مرحوم و مغفور سے یہی کچھ سیکھا تھا۔
جناب مجیب الرحمن شامی اور جناب قدرت اللہ چودھری کے عظیم الشان تعلق خاطر کو اول الذکر کی زبانی ملاحظہ فرمائیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ملاحظہ فرمائیں کہ کبھی کوئی چیف ایڈیٹر اپنے ہی کارکن کی مدح میں اداریہ نہیں لکھتا۔