”تبدیلی“ کی تبدیلی
پاکستان کی تاریخ کی ناکام ترین ”تبدیلی“ حکومت محض ٹائم پاس کر رہی ہے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ RTS بٹھا کر من پسند نتائج کے ذریعہ ایک ایسی حکومت قائم کی گئی جو نہ صرف نا تجربہ کار تھی بلکہ انتہائی نا اہل اور نالائق بھی تھی۔ البتہ اس میں گذشتہ حکومتوں کے کچھ کرپٹ (مبینہ) لوگ ضرور شامل کئے تھے جو جنرل پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کی حکومتوں میں شامل تھے۔ گویا پی ٹی آئی حکومت میں دو طرح کے لوگ تھے، ایک وہ جو ماضی کی کرپٹ حکومتوں کا حصہ تھے اور دوسرے وہ جو بالکل نا تجربہ کار تھے لیکن گز گزلمبی زبانیں رکھتے تھے۔ اس ناکام تجربہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کی معیشت زمین بوس اور گوورننس زندہ درگور ہو چکی ہے۔ مجھے نہیں سمجھ آتی کہ تجربہ کرنے والوں نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ کرکٹ کا ایک کھلاڑی ملک کیسے چلائے گا۔ عمران خان نے اپنی ساری عمر کرکٹ کے میدانوں میں گذاری تھی یا پھر ریٹائرمنٹ کے بعد سڑکوں پر اپنی مرحومہ والدہ سے منسوب کئے گئے ہسپتال کا چندہ اکٹھا کرنے میں، عملی طور پر کسی دفتر میں بیٹھ کر کرسی میز پر کام کرنے کا انہیں ایک دن کا بھی تجربہ نہیں تھا۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ اگر کسی شخص نے ساری زندگی ایک گھنٹہ بھی کوئی دفتری کام نہ کیا ہو تو وہ دنیا کا پانچواں سب سے بڑا ملک چلا سکے، جس کی درجنوں وزارتیں اور ان کے ماتحت سینکڑوں ادارے ہوں۔ عمران خان کو لیڈر کے طور پر متعارف کرانے والوں نے صرف ان کا سٹارڈم دیکھا، ان کی قابلیت، تجربہ یا سیاسی سمجھ بوجھ کو صریحاً نظر انداز کر دیا گیا۔
عمران خان نے بھی فن تقریر پر محنت کی اور آہستہ آہستہ ان کا کرکٹ سٹار فین کلب ہی ان کی سیاسی بنیاد بنا۔ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) چونکہ زیادہ تر باہمی دست و گریباں رہتی تھیں اس لئے منصوبہ بندوں کے لئے ایک موقع بن گیا کہ عمران خان کو تیسری سیاسی قوت کے طور پر ابھارا جائے۔ شومئی قسمت سے اس دوران سوشل میڈیا بھی ایک طاقتور ہتھیار کے طور پر سامنے آچکا تھا اور دنیا دیکھ چکی تھی کہ 2008ء کے امریکی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار باراک اوبامہ نے سوشل میڈیا اورChange (تبدیلی) کے نعرہ کے کمبی نیشن سے میدان مار لیا ہے، چنانچہ یہی نسخہ پاکستان میں بھی آزمانے کا فیصلہ کیا گیا اور 2011ء میں باقاعدہ طور پر اس کا آغاز کر دیا گیا۔ اس دوران امریکہ ہی نہیں، بلکہ دنیا کے اور بہت سے ممالک میں بھی یہی کمبی نیشن (سوشل میڈیا اور تبدیلی کا نعرہ) کارگر رہا چنانچہ پاکستان میں بھی (2018) ء اس پر عمل درآمد کر دیا گیا۔
پاکستان کا دوسرے ان تمام ملکوں سے جہاں یہ نسخہ کامیاب ہوا، بنیادی فرق یہ تھا کہ ان ملکوں میں آنے والے حکمران ایسے لیڈر تھے، جن کی گرومنگ بھی سیاسی تھی اور پارٹیاں بھی سیاسی اور حکومتی طور پر تجربہ کار تھیں۔ صرف پاکستان میں محض سٹارڈم کی وجہ سے اتنا بڑا جوا کھیلا گیا۔ اب اس ناکام تجربہ کو ساڑھے تین سال گذر چکے ہیں اور نا تجربہ کاری اور نا اہلی کی وجہ سے اس حکومت نے ملک کی کشتی ایک ایسے بھنور میں پھنسا دی ہے، جس میں ملک نہ صرف اقتصادی، انتظامی، اخلاقی، سیاسی اور سماجی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے، بلکہ عوام کی اکثریت غربت، عدم تحفظ اور گوناگوں مسائل کا شکار ہے۔
پاکستان کے آئین کے مطابق حکومت کا دورانیہ پانچ سال ہے، لیکن آئین میں یہ کہیں نہیں لکھا ہے کہ اگر کوئی حکومت آ جائے تو پانچ سال پتھر پر لکیر ہیں۔
ایک نالائق اور نا اہل حکومت کو کسی بھی وقت آئینی طریقہ سے گھر بھیجا جا سکتا ہے اور وہ آئینی طریقہ تحریک عدم اعتماد ہے۔ موجودہ حکومت نصف درجن کے قریب اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے۔ اگر یہ بیساکھیاں نہ ہوں تو حکومت ایک منٹ میں دھڑام سے گر جائے۔ جس سیاسی، انتظامی اور اقتصادی تباہی کا ملک شکار ہے، اگر اتحادی پارٹیاں اب بھی اپنی بیساکھیاں حکومت کو دینے پر مصر ہیں تو تاریخ انہیں بھی اس تباہی میں برابر کا ذمہ دار ٹھہرائے گی۔ تاریخ کے کٹہرے میں صرف عمران خان نہیں کھڑے ہوں گے، بلکہ ان کے ساتھ قاف لیگ، ایم کیو ایم اور دیگر اتحادی بھی کھڑے ہوں گے۔ مورخ لکھے گا کہ وفاق میں دو وزارتوں یا صوبہ کی سپیکر شپ لے کر چودھری برادران نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں۔ اپوزیشن کو یکسو ہو کر عدم اعتماد کی تحریک لانی چاہئے، جس میں موجودہ حکومت کی اتحادی جماعتوں اور پی ٹی آئی کے اپنے ان اراکین کو ساتھ دینا چاہئے،جو ملک میں ہونے والی اس تباہی کو مزید برداشت نہیں کر سکتے۔ پنجاب کے حالات اور بھی زیادہ خراب ہیں اور اس کی ذمہ داری صرف وزیر اعلیٰ عثمان بزدار پر نہیں ڈالی جا سکتی، اپنی سپیکر شپ کے مزے اڑانے والے چودھری پرویز الٰہی بھی اس تباہی میں اتنے ہی ذمہ دار ہیں۔ دو وزارتیں اور ایک صوبائی اسمبلی کی سپیکر شپ کیا ملک سے زیادہ اہم ہیں؟
سارے ادارے نیب کی طرح ہز ماسٹرز وائس نہیں ہیں جو ساڑھے تین سال سے صرف یکطرفہ انتقامی کاروائی کررہی ہے۔ الیکشن کمیشن تمام تر دباؤ کے باوجود اپنا آزاد تشخص برقرار رکھے ہوئے ہے۔ آڈیٹر جنرل پاکستان نے بھی 100 ارب کے آڈٹ میں 40 ارب کے غبن کا بھاندہ پھوڑ دیا ہے۔ آئینی طور پر آزاد اور خود مختار یہ ادارے ہی ملک کو بچا رہے ہیں ورنہ اب تک ملک کی اینٹ سے اینٹ بج چکی ہوتی۔ موجودہ حکومتوں کی آئینی مدت میں ابھی 20 ماہ کا طویل عرصہ باقی رہتا ہے۔ ظاہر ہے ملک اب مزید غرق ہونے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
اب تو یہی بات پی ٹی آئی کے اپنے لیڈر بھی کر رہے ہیں جن میں پنجاب کے گورنر چوہدری سرور بھی شامل ہیں اور وہ اسی ضمن میں آج کل لندن میں متحرک بھی ہیں۔ تحریک عدم اعتماد اور قبل از وقت انتخابات آئینی اور جمہوری راستہ ہے اور ان تمام مسائل کا واحد حل نئے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہیں، جس میں تمام سیاسی پارٹیوں کو لیول پلینگ فیلڈ ملے اور جسے عوام منتخب کریں اسے حکومت بنانے دی جائے۔ ”تبدیلی“ کی تبدیلی اگر اب نہ ہوئی تو کہیں بہت دیر نہ ہو جائے۔