تم وحشی ہو تم قاتل ہو!!!!
گزشتہ دنوں سیالکوٹ میں جو اندوہناک، دردناک واقعہ پیش آیا اس پر دل اتنا رنجیدہ تھا کہ باوجود چاہنے کہ میں کئی دن کچھ تحریر نا کرسکا.. میں نے اتنے دنوں میں نبی رحمت، سرور دو جہاں، خاتم الانبیاء، وجہ تخلیق کائنات کی سیرت اور ان کی تعلیمات میں سے ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی کہ کیا واقعی ان کے نام پر کسی ایسے غیر انسانی کام کی کوئی گنجائش نکل سکتی ہے کہ جو کوئی چاہے منہ اٹھا کر ان کے ناموس کو خطرہ قرار دے اور اس ضمن میں اپنے مذموم ارادے پورے کرلے تو میں حیران رہ گیا کہ ان کہ ساری زندگی تو سراپا رحمت و شفقت نظر آتی ہے. وہ تو فرماتے ہیں کہ
خبردار! جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اُس کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضا کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو بروز قیامت میں اس کی طرف سے (مسلمان کے خلاف) جھگڑوں گا.... کیا کسی میں اتنی ہمت ہے کہ وہ کل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہوا کر ان کی مدعیت میں پیش کیے جانے والے مقدمے کا سامنا کرسکے؟
کیا یہ لوگ ان کی تعلیمات سے اتنا بھی آشنا نہیں کہ وہ تو ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل قرار دیتے ہیں. کیا یہ جتھے بھول چکے ہیں کہ ان کی ریاست مدینہ میں بغیر کسی عدالتی کاروائی کے کسی کو کوئی بھی منہ اٹھا کر قتل نہیں کرسکتا خواہ اس نے کتنا بھی بڑا جرم کیا ہو. مگر افسوس کہ اس جتھے میں گرفتار لوگوں میں سے مجھے ایک بھی ایسا نظر نہیں آتا کہ جس کے دل میں واقعی محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک رتی بھی ہو، اگر ان کے دل محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آشنی سے ذرا سے بھی منور ہوتے تو یہ لوگ آقا دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی اس درجہ نافرمانی کرنے کا تصور بھی نا کرتے.
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاست مدینہ کے انتظام میں بین المذاہب ہم آہنگی کا اتنا زبردست انتظام فرمادیا تھا کہ وہ تادم قیامت ایک مثال ہے. سب سے پہلا تحریری آئین بنا کر اس میں دوسرے مذاہب کو ریاست کے ذریعے پورے پورے حقوق دے کر انہوں نے ثابت کیا کہ وہ رحمت اللعالمین ہیں. وہ انسانوں، پرندوں، مسلمانوں، غیرمسلموں نیز ہر مخلوق کے لیے صرف رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں.
یہی وجہ ہے کہ وہ گزر رہے ہوتے تو جانور بھی اپنے مالکوں کی طرف سے اپنے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستان بیان کردیتے اور اس غمخوار پیغمبر کو اپنا ہم درد و مسیحا پاتے...
ایک یہودی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسلمان کے خلاف مقدمہ لے کر آیا، وہ مسلمان چھاتی پھیلائے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا کہ میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیوا ہوں مقدمے کا فیصلہ میرے حق میں آئے گا لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ میرے پاک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے مقدمے کا فیصلہ یہودی کے حق میں دیا.
’ایک مسلمان نے اہل کتاب میں سے ایک آدمی کو قتل کر دیا، وہ مقدمہ نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں پیش ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا : میں غیر مسلم شہریوں کے حقوق ادا کرنے کا سب سے زیادہ ذمہ دار ہوں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے (بطورِ قصاص مسلمان قاتل کو قتل کیے جانے کا) حکم دیا اور اُسے قتل کر دیا گیا۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
’’کسی امن پسند غیر مسلم شہری کو دوسرے غیر مسلم افراد کے ظلم کے عوض کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مومن اس وقت تک اپنے دین کے بارے میں برابر کشادہ رہتا ہے (یعنی اس کے لیے اعمالِ صالحہ کرنا آسان اور توبہ قبول ہوتی رہتی ہے) جب تک ناحق خون نہ کرے (جہاں ناحق خون کیا تو اعمالِ صالحہ اور مغفرت کا دروازہ تنگ ہو جاتا ہے)-
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
مَنْ قَتَلَ مُعَاهِدًا فِي غَيْرِ کُنْهِهِ، حَرَّمَ اﷲُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ.
’’جو مسلمان کسی غیر مسلم شہری (معاہد) کو ناحق قتل کرے گا اللہ تعالیٰ اُس پر جنت حرام فرما دے گا۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
’’جس نے کسی غیر مسلم شہری (معاہد) کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک محسوس ہوتی ہے۔‘‘
یہی قوانین خلفاء راشدین کے دور خلافت میں بھی رائج رہے اور آج میں اسلامی قانون یہہ ہے. غیر مسلموں کا مال جان اور عزت و آبرو کی حفاظت اسی طرح ضروری ہے جس طرح کسی مسلمان کی. کوئی مسلمان کسی غیر مسلم کا کوئی بھی نقصان کرے گا تو سزا وہی ہے جو کسی مسلمان کا نقصان کرنے کی ہے. اسلامی شریعت میں تو کسی غیر مسلم کی شراب اور سور کو ضائع کرنے کی بھی اجازت نہیں جو کہ اسلام میں سخت حرام ہیں. اسلام ایک آفاقی مذہب ہے اس کا واضح اعلان ہے کہ "تمھارا دین تمہارے لیے ہمارا دین ہمارے لیے"
ایک دفعہ حضرت عمرو بن عاص والی مصر کے بیٹے نے ایک غیر مسلم کو ناحق سزا دی۔ خلیفۂ وقت امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جب اس کی شکایت ہوئی تو اُنہوں نے سرعام گورنر مصر کے بیٹے کو اس غیر مسلم مصری سے سزا دلوائی اور ساتھ ہی فرمایا :
متی استعبدتم الناس وقد ولدتهم امهاتهم احرارا.
’’تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام سمجھ لیا ہے حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا۔‘‘
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دوسرے ممالک سے غیر مسلم وفود آتے تھے تو آپ انہیں مسجد نبوی میں ٹھہراتے، خود ان کے لیے انتظامات کرتے، ان کی مہمان نوازی کرتے اور ان کو مسجد نبوی کے اندر انکے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت دیتے..
ایک غیرمسلم نےمسجد نبوی کےاندرپیشاب کردیا،صحابہ اکرام اس پرغصہ ہونےلگ گئے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نےصحابہ کرام کومنع فرمایااورپانی منگواکرخوداپنے دست مبارک سےمسجد کوصاف کیا....
اس حس اخلاق پر وہ غیر مسلم فورا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آگیا.
ایسے پھیلا تھا اسلام....
آخر میں حبیب جالب کی ایک نظم جو لگتا ہے کہ لکھی ہی سیالکوٹ کے واقعہ پر گئی تھی،
ناموس کے جھوٹے رکھوالو!
بے جرم ستم کرنے والو!
کیا سیرت نبوی جانتے ہو؟
کیا دین کو سمجھا ہے تم نے؟
کیا یاد بھی ہے پیغام نبی؟
کیا نبی کی بات بھی مانتے ہو؟
یوں جانیں لو، یوں ظلم کرو،
کیا یہ قرآن میں آیا تھا؟
اس رحمت عالم نے تم کو،
کیا یہ اسلام سکھایا تھا؟
لاشوں پہ پتھر برسانا،
کیا یہ ایمان کا حصہ ہے؟
الزام لگاؤ مار بھی دو؟
دامن سے مٹی جھاڑ بھی دو؟
مسلماں بھی کہلاؤ اور پھر،
ماؤں کی گود اجاڑ بھی دو؟
تم سے نہ کوئ سوال کرے؟
نہ ظلم کو جرم خیال کرے؟
اس دیس میں جو بھی جب چاہے،
لاشوں کو یوں پامال کرے؟
لیکن تم اتنا یاد رکھو،
وہ وقت بھی آخر آنا ہے!
ہے جس کے نام پہ ظلم کیا،
اس ذات کے آگے جانا ہے!
اس خون ناحق کو پھر وہ،
میزان حشر میں تولے گا!
وہ سرور عالم محسن جاں،
تم سے اتنا تو بولیں گے!
اے ظلم جبر کے متوالو،
تم حق کے نام پہ باطل ہو!
تم وحشی ہو تم قاتل ہو
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.