اندرونی جنگ کے سوشل اثرات

   اندرونی جنگ کے سوشل اثرات
   اندرونی جنگ کے سوشل اثرات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 آئے روز کوئی اینکر یا تجزیہ کار ایک جملہ بار بار بولتے ہیں کہ ملک میں جنگل کا قانون نافذ ہے، جس سے کم از کم میں تو اتفاق نہیں کرتی، کیونکہ جنگل کے قانون میں کوئی جانور اپنی نسل کے جانور کو نہیں کھاتا، کوئی طوفان آ جائے تو جنگل کے سارے جانور مل کر طوفان کا مقابلہ کرتے ہیں۔جنگل کے بادشاہ اور سب سے طاقتور جانور شیر کا جب پیٹ بھر جاتا ہے تو کسی اور جانور کو نہیں مارتا اور اس کا چھوڑا ہوا کھانا جنگل کے دوسرے چھوٹے جانور کھاتے ہیں یہ انسان ہی ہے، جو اپنی ہی نسل کو سب سے زیادہ مارتا ہے یہ انسان ہی ہے،جس کا پیٹ بھرتا ہی نہیں۔ پیٹ کی بھوک مٹ بھی جائے تو اس کی آنکھ کی بھوک نہیں مرتی  اور وہ ہر کسی کے حصے کا بھی خود جمع کرنے میں لگا رہتا ہے۔

ملک کے موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو خوف اور دہشت بھی سموگ کی طرح پھیل چکی ہے دوسری طرف عوام کی سوچ کئی حصوں میں بٹ چکی ہے، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہم شاید کبھی ایک قوم نہیں بن سکیں گے اور اشرافیہ کا ٹولہ ہماری اِسی تقسیم کو استعمال کر کے ہمیں ٹکڑیوں میں بانٹ کر حکومت کرتا رہے گا اور اپنے اس پیٹ کو بھرنے کی کوشش کرے گا جسے صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔پچھلے کئی ماہ سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جو کشمکش جاری ہے اس کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ یہ لڑائی سینکڑوں جانیں لے چکی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اپنے ہی لوگوں کے مرنے پر کچھ لوگ خوشیاں منا رہے ہیں،کچھ غم میں ہیں، کچھ غصے میں اور کچھ انتقام لینے کی باتیں کر رہے ہیں، جس سے ملک میں صرف سیاسی بگاڑ کے ساتھ ساتھ سماجی بگاڑ بھی پیدا ہو رہا ہے جس کے نتائج بہت خطرناک  ہو سکتے ہیں۔

سکیورٹی اداروں کی جانب سے عوام پر کئے گئے مظالم کے الزامات کا پہلا سماجی نتیجہ سامنے آ چکا  ہے جو بہت عجیب اور حیرت انگیز ہے۔ سننے میں آ رہا ہے کہ بڑی بڑی یونیورسٹیوں اور کالجوں کی طالبات سکیورٹی اداروں میں کام کرنے والے مردوں سے شادیاں کرنے سے باغی ہو رہی ہیں ان کا کہنا ہے کہ ظلم کرنے والوں سے شادی  نہیں کریں گی۔ان کے خیال میں طویل عرصے سے عوام پر ظلم ڈھانے والے مرد مستقل ظالم بن جاتے ہیں اور ان سے کوئی بعید نہیں کہ وہ ویسا ہی ظلم و ستم اپنے اہل خانہ اور خاص طور پر بیگمات پر بھی روا رکھ سکتے ہیں۔ جب ان لڑکیوں سے پوچھا گیا کہ پھر کیا آپ کبھی ایسے مرد سے شادی نہیں کریں گی تو انہوں نے کہا کہ ظلم کی رات بہت جلد ختم ہوجائے گی اور ساتھ ہی سارے ظالم بھی خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گے،ہر رات کی ایک صبح ضرور آتی ہے۔ایک طالبہ نے افتخار عارف کے چند شعر سنائے جو پیش ِ خدمت ہیں:

جاہ جلال، دام و رم اور کتنی دیر

ریگ رواں پر نقش قدم اور کتنی دیر

اب اور کتنی دیر یہ دہشت، یہ ڈر یہ خوف

گرد و غبار عہد ستم اور کتنی دیر

شام آ رہی ہے ڈوبتا سورج بتائے گا

تم کتنی دیر ہو اور ہم کتنی دیر

کہا جاتا ہے کہ لڑائی جیتنے کے لئے سب سے ضروری چیز صبر اور برداشت ہوتی ہے۔ کئی پہلوان شروع میں مار  کھا کر دوسرے کو تھکا دیتے ہیں اور پھرایک ہی جھٹکے میں دوسرے کو پٹخ کر جیت جاتے ہیں۔1980ء کی دہائی میں باکسر محمد علی کا طوطی بولتا تھا اُس نے اپنے سے کئی گنا طاقتور باکسروں کو دھول چٹا دی اور فتوحات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا۔کہا جاتا ہے کہ ہر مقابلہ جیتنے کے بعد وہ کئی کئی دن ہسپتال میں داخل رہتا، کیونکہ وہ مقابلے کے شروع میں مار کھاتا اور حریف کو تھکاتا رہتا وہ رِنگ میں جگہ بدلتارہتا اور دوسرے کو بھی اس تک پہنچنے کے لئے ضرورت سے زیادہ حرکت کرنا پڑتی،جس کی وجہ سے وہ اپنے پاؤں سے خود ہی اُکھڑ جاتا۔

اِس وقت ملک میں جو چوہے بلی کا کھیل چل رہاہے اس میں ابھی تک نہ بلی چوہے کا شکار کر سکی ہے نہ چوہا بلی سے ڈر رہا ہے، لیکن ان کی آپس کی بھاگ دوڑ میں نقصان پورے کھیت کا ہو رہا ہے۔کھیت کے رکھوالے بلی کو پچکارنے کی بجائے اسے ڈرانے کی کوشش کر رہے  ہیں۔ فارسی کا ایک محاورہ ہے کہ اگر آپ بلی کو نکلنے کا راستہ نہیں دیتے تو وہ آپ کے منہ پر حملہ کرتی ہے۔ان چند مثالوں کی روشنی میں موجودہ حکومت اور ان کے مخالفین کے درمیان جو چپقلش جاری ہے، موجودہ حکومت نے مخالفین کو بار بار احتجاج کے لئے مجبور کر کے انہیں احتجاج کا ماہر بنا دیا ہے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -