تعلیم اور درس گاہ
وہ تمام باتیں، علوم اور فنون جو کوئی انسان اپنی زندگی میں سیکھتا ہے، تعلیم میں شمار ہوتی ہیں، تعلیم انسانی زندگی کی تشکیل میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے اور درس گاہ، اس سیکھنے کے عمل کو منظم بنانے کا بنیادی حصہ ہے، جبکہ اساتذہ کے بغیر کسی بھی درس گاہ کے وجود کا تصور ناممکن ہے، یعنی انسان کی زندگی میں اس کی پہلی درس گاہ، والدین کے بعد اساتذہ سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ہر دور میں کسی بھی ملک یاقوم کی ترقی کا انحصار اس کے اساتذہ پر ہوتا ہے، کیونکہ انسان کی سوچ اور کردار کی تشکیل میں بنیادی حصہ استاد ادا کرتا ہے۔ آج کے دور میں جو قوم بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہے، اس کی ترقی کا راز استاد کے احترام میں ہی پوشیدہ ہے۔عرصہ ¿ بعید کی بات نہیں، جب ہمارے ملک میں بھی اساتذہ کو امتیازی اہمیت حاصل تھی اور ان کی آراءکو خصوصی اہمیت دی جاتی تھی۔ یہ بات کچھ دہائی پہلے کی ہے، جب استاد صرف عزت اور قوم کی خدمت کی غرض سے علم پھیلانے کو اپنا مقصد سمجھتے تھے۔ اُس وقت اساتذہ کو صرف عزت و احترام کی چاہت ہوتی تھی اور ایک ایسی درس گاہ مہیا کی جاتی تھی، جو علم کے علاوہ، علم کے لئے لگن بھی سکھاتی تھی، اُس وقت اساتذہ تعلیم کی روشنی عام کرنے کو باعث ِ سکون فرض سمجھا کرتے تھے۔
ایسے سنہری دور کو گزرے ہوئے ابھی زیادہ مدت نہیں ہوئی، جبکہ آج کے حالیہ دور کے اساتذہ کی سوچ مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ اب تعلیم کے شعبے کو ایک پروفیشن سمجھا جاتا ہے۔ اُن کے انداز اور افکار بھی مکمل طور پر تبدیل ہو چکے ہیں۔ آج کے اساتذہ کا انداز ایسا ہے، جس میں تعلیم کو صرف اس حد تک ضروری سمجھا جاتا ہے کہ طالب علم، اس مقابلے کے دور میں اچھے نمبر حاصل کر سکے۔ تعلیم کا مقصد بھی مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے۔ پہلے تعلیم کا مقصد انسانی ذات کی بہتر تشکیل تھا، جبکہ آج کے دور میں یہ مقصد ایک اہم نوکری حاصل کرنے تک محدود ہو چکا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ایک اہم بات جس کا ذکر بڑھتا جا رہا ہے، یہ ہے کہ معاشرے میں اساتذہ کی عزت روز بروز گھٹتی جا رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ جو میری سمجھ میں آ سکی، وہ یہ ہے کہ اب ٹیچنگ کو ایک ذریعہ ¿ روزگار سمجھا جاتا ہے۔ اسے بھی ایک نوکری کی طرح ہی سمجھا جاتا ہے، جس کا مقصد معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں رہا۔ اس اندازِ سوچ میں پورے معاشرے کا عمل دخل ہے، کیونکہ اب لوگوں کی سوچ اپنی ذمہ داری سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے پر مرکوز ہو چکی ہے۔
شعبہ¿ تعلیم کے حوالے سے ایک اہم بات جو اب زبان زدِ عام و خاص ہے، یہ ہے کہ پاکستانی حکومت نے سکولوں میں بچوں پر سختی کرنے اور ڈنڈے کے استعمال پر پابندی عائد کر دی ہے، جن واقعات کو دیکھتے ہوئے یہ پابندی عائد کی گئی ہے، بے شک یہ ایک مثبت اقدام ہے، لیکن ایک بات جس کا ایک طالب علم کی حیثیت سے مَیں یہاں ذکر کرنا چاہوں گی، وہ یہ ہے کہ بے شک بچوں کو مارنا اور پیٹنا ایک پُرتشدد فعل ہے، مگر اس کا مقصد صرف یہی ہوتا ہے کہ بچے مکمل توجہ سے تعلیم حاصل کریں۔ ایک چھوٹا بچہ جواپنے اچھے اور بُرے میں تمیز کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، وہ کیسے تعلیم کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ ایسے وقت میں جب بچے پر تھوڑی سختی کی جاتی ہے، تو اس کا مقصد صرف بچے کی خوبیوں کو ابھارنا اور اُس کی صلاحیتوں کو تراشنا ہوتا ہے۔
یہی بچہ جب اپنی صلاحیتوں سے روشناس ہو جاتا ہے اور تعلیم کی اہمیت کو سمجھ لیتا ہے تو وہ خود ترقی کی راہ پر چل نکلتا ہے ۔اس بات کا یہ مقصد نہیں کہ اس پابندی سے تعلیم کے شعبے کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ بے شک ہر چیز کی بہتات ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے، اگر مقصد اچھا ہو تو راستہ بھی ہمیشہ اعتدال کا ہی اختیار کرنا چاہئے۔ تعلیم کے شعبے میں وقت کے ساتھ ساتھ نہایت تیزی سے تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں، لیکن ان تبدیلیوں میں بھی ایک اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنی مثبت روایات کو سلامت رکھیں۔ وقت کے ساتھ تبدیلی آنا، زندگی کی نشانی ہے، مگر کامیابی تب ہی ممکن ہو سکتی ہے، جب اچھی روایات کو بھی ساتھ رکھا جائے۔ اساتذہ کی اہمیت ہر زمانے میں برقرار رہے گی، اس لئے شعبہ¿ تعلیم کے حوالے سے فیصلے کرتے ہوئے خاص سوچ بچار ضروری ہے، کیونکہ تعلیم ہی وہ ذریعہ ہے، جس سے زمانے تشکیل پاتے ہیں۔