جان یا تاوان؟
عام دنوں کی طرح ایک عام سا دن تھا۔ سورج ڈھلا اور غروب ہوگیا۔ ساجد ملزسے انہی اوقات میں گھر لوٹا کرتا تھا۔ ا س نے گاڑی کا دروازہ کھولا، وہ لا علم تھا کہ چند گھڑیوں بعد آزمائش کا دروازہ کھلنے والا ہے۔ کچھ لمحوں بعد گاڑی عارف والہ روڈ پر ساہیوال شہر کی طرف رواں تھی۔ اچانک ایک گاڑی تیزی سے اس کی گاڑی کے برابر آئی، ترچھی ہوئی اور راستہ روک لیا۔ تین افراد مشکوک گاڑی میں سے برآمد ہوئے۔ ساجد کو زبرد ستی باہر نکالا، دھکم پیل کی اور مشکوک گاڑی میں منتقل کر لیا۔ ساجد کو نشہ آور مادے سے بے ہوش کر دیا گیا۔ ساجد کا بڑا بھائی کچھ تاخیر سے ملز سے روانہ ہوا، سڑک کنارے گاڑی کھڑی دیکھ کر رکا، موبائل فون گاڑی میں پایا اورساجد غائب۔ پولیس کو رپورٹ کر دی گئی۔ تین روز بعد اجنبی نمبر سے ساجد کے والد کو کال موصول ہوئی اور ساجد کے اغوا کی اطلاع دی گئی۔ بھاری رقم کا مطالبہ تھا، جو درمیانے درجے کے کاروباری کی استطاعت سے باہرتھا۔ موبائل نمبر کی تفصیلات سامنے آئیں، معلوم ہوا کہ نمبر افغا نستان کی کسی موبائل کمپنی سے خرید کردہ سم کا ہے اور پاکستان کی حدود میں طورخم بارڈر پراستعمال کیا جا رہاہے۔ کال کرنے والے نے اپنے آپ کو حاجی صاحب کے نام سے متعارف کروایا اوراغوا کنندگان کے لئے رقم کا مطالبہ کیا۔ پشتو لہجے میں ٹوٹی پھوٹی اردومیں گفتگو کا لب لباب یہ تھا: ''ہم نے ایک مہینہ محنت کیا، ہم بہت سارا لوگ ہے، اس سے کم رقم میں تو ہمارا محنت خراب ہوتا ہے، مزدوری نہیں بنتا“۔
ساجد کے والد کو تقریبا ہر روز کا ل وصول ہوتی۔ کبھی کبھار ساجد کی آواز سنوا دی جاتی۔ پولیس کی ہدایت کے مطابق ساجد کے والد وقت حاصل کرنے اور سودے بازی کی کوشش کرتے رہے۔ جب چند دن میں اغوا کنندگان کو مطلوبہ رقم کے حصول میں تاخیرورکاوٹ نظر آئی تو دھمکی دی گئی: "ہم آپ کو اس کا ہاتھ یا کان کاٹ کر بھیجے گا پھر آپ کو معلوم ہوئے گا ہم کیا کر سکتا ہے!" ساجد کے والد کو ذہنی صد مہ پہنچا، طبیعت نا سازہوئی، ہسپتال پہنچا دیاگیا۔ اگلی بارکال وصول ہوئی تو ساجد کے بھائی نے والد کے موبائل سے گفتگو کی اور دھمکی کے نتیجہ سے ہونے والے نقصان سے آگاہ کیا۔ اغوا کنند گان کو غالباً یہ احساس ہوا کہ اگر والد کی طبیعت بگڑ گئی تو رقم کے حصول میں مزید تاخیر ہو جائے گی۔ اب ان کا موقف قدرے لچکدارتھا۔
ساجد تنگ کمرے میں قید تھا۔ اسے حکم تھا کہ کمرے میں چہرہ دروازے کی بجائے دیوارکے رخ رکھنا ہے۔ ہاتھ پاو¿ں کو زنجیروں سے باندھ دیا جاتا۔ روزانہ ایک کپ چائے اورسورج بلند ھونے پرایک تندوری روٹی دی جاتی۔ اندازہ ہوتا ہے کہ اس کو آبادی کے قریب رکھا گیا تھا۔ معمولی سالن دیا جا تا۔ دن میں صرف ایک گلاس پانی فراہم کیا جاتا۔ صبح اند ھیرے میں اور رات اندھیرے میں محافظ اسے صحن میں موجود غسل خانے تک لے جاتے۔ محافظ نماز کی ادائیگی کا اہتمام کرتے۔ ساجد نے ان سے قرآن مجید طلب کیا انہوں نے فراہم کر دیا۔ ساجد عام زندگی میں کبھی کبھار تلاوت کر لیا کرتا تھا لیکن جتنی توجہ اور چاہت سے اب تلاوت کی ایسا عمر بھر میں نہ ہوا۔ ساجد کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اس نے قید خانہ میں آزادی کی قدر و قیمت کو محسوس کیا۔ اس کی آنکھوں میں اولاد کی تڑپ جاگی۔ دل میں والدین کی فرقت کی آگ بھڑکی۔ ذہن میں شریک حیات سے دوری نے انگارے بھر دئیے۔
یکا یک اس کہانی نے نیا موڑ لیا۔ ساجد کے دوست کے موبائل پر کال موصول ہوئی اور رابطہ خفیہ رکھنے کی استدعا کی گئی۔ رابطہ کرنے والوں کا کہنا تھا کہ ہم ساجد کے محافظ ہیں، آپ ہم سے معاملہ طے کریں بقیہ حصہ داروں سے ہم خود نمٹ لیں گے۔ اب ان کا مطالبہ قدرے کم تھا اور ان کا اصرار تھا کہ "مسلمانی بات کرےگا"۔ مفہوم یہ تھا کہ ہم قیدی آپ کے حوالے کریں گے، آپ رقم ہمارے حوالے کر دیں گے اور پولیس کو خبر نہ دی جائےگی۔ تین ہفتے گزر چکے تھے پولیس کی اخلاقی و سفارتی حمایت قابل قدر تھی، لیکن پولیس کے پاس مغوی کی بازیابی کے امکانات صفر تھے۔ آخرکارچند ملین میں معاہدہ طے پا گیا۔ ایک ضمانتی تلاش کیا گیا جس کو رقم اداکی گئی وہ اس بات کا ضامن تھا کہ پارسل(مغوی) وصول ہونے کے بعد محافظوں کو رقم کی ادائیگی کی جائے گی۔ پنجاب کے ایک بڑے شہر میں ساجد کو پہنچایا گیا اور اہل خانہ کے حوالے کر دیا گیا۔
ایف آئی آر کی کاپی اس وقت میرے سامنے میز پر دہری ہے۔ جس کا آغازان الفاظ سے ہوتا ہے:"ابتدائی اطلاعی رپورٹ نسبت جرم قابل دست اندازی پولیس رپورٹ شدہ زیر دفعہ۔۔۔" ساجد ذہنی طور پر اس قدر خوفزدہ ہو چکا ہے کہ کئی ماہ دوبارہ ملز کا رخ نہ کرسکا۔ جسمانی حالت برباد ہوگئی۔لاغرہوچکا۔ رنگت سیاح ہو گئی۔ کراچی میں بھتہ خوری کے قصے سنا کر تے تھے۔ راولپنڈی میں اغوا کی کہانیاں سنا کر تے تھے۔ یہ عفریت پنجاب کے وسط میں ساہیوال جیسے پرامن شہر میں پہنچ جائے گا سوچا نہ تھا۔ کاروباری طبقے اور حکومت کے مابین خلیج بڑھ رہی ہے۔ بجلی کی کمیابی اور زائد قیمت، ٹیکسوں کی بھرماراورمحکموں کے ناجائز تقاضے، بڑھتے ہوئے اخراجات اور پروڈکشن کی کمی، ان سب سے بڑھ کرانجانی ٹیلیفون کال کا خوف "جان دے گا یا تاوان دے گا؟"