جو بھی کچھ ہے، محبت کا پھیلاؤ ہے!
فلسفہء محبت پر دل والوں کی مستند اور متفقہ اتھارٹی خلیل جبران نے اصولِ محبت بیان کرتے ہوئے کہا تھا: ’’جب آپ کسی سے محبت کرتے ہیں تو اسے کچھ نہیں دیتے، سوائے محبت کے اور اس کے بدلے میں کچھ نہیں لیتے، محبت کے سوا‘‘۔ اس اصولِ محبت پر جتنا بھی غور کیا جائے، اسے جس قدر آزمایا جائے، اس کی سچائی واضح ہوتی چلی جاتی ہے۔۔۔باشعور معاشرے اور ترقی یافتہ ممالک میں لوگوں کے باہمی حقوق و فرائض کے بارے میں آگہی اور تحفظ کے لئے رضا کار تنظیمیں فطری انداز میں تشکیل پا کر فعال اور متحرک رہتی ہیں، کیونکہ منفی اور باطل قوتیں، محبت دشمنی میں ہمیشہ پیش پیش رہتی ہیں۔ خوش قسمتی سے وطن عزیز میں بھی (ترقی پذیر ملک ہونے کے باوجود) لوگوں کے حقوق کی اہمیت اور تحفظ کے لئے کئی رضا کار تنظیمیں قابلِ فخر انداز میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ایسی تنظیمیں اور ادارے، انسانی حقوق کی دلالت اور وکالت کرتے ہوئے اپنے حصے کی شمعیں روشن کر رہی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں خلیل جبران کے پیش کردہ اصولِ محبت پر عملدرآمد ہو رہا ہے۔ ایسی ہی ایک تنظیم گزشتہ 35سال سے نہایت اعلیٰ اور شاندار روایات کے ساتھ بھرپور انداز میں کام کررہی ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء دور میں نامور قانون دان ایس ایم ظفر اور انسانی حقوق کے لئے ہر پلیٹ فارم سے نمایاں اور موثر آواز بلند کرنے والی بے حد قابل احترام خاتون رہنما محترمہ مہناز رفیع نے اپنے چند رفقاء سے مشورے کے بعد ’’ہیومن رائٹس سوسائٹی آف پاکستان‘‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی، جو مسلسل آگے بڑھتی ہوئی، اب ایک قابلِ فخر اور نہایت معتبر ادارہ بن چکی ہے۔
اپنے پروگرام کے مطابق ’’ہیومن رائٹس سوسائٹی‘‘ ہر سال چار شخصیات کو غیر معمولی خدمات انجام دینے پر خصوصی ایوارڈ سے نوازتی ہے، یعنی انسانی حقوق کے لئے تمام تر رکاوٹوں اور نامساعد حالات کے باوجود جدوجہد کرنے والوں کی لائق تحسین خدمات کا عوامی سطح پر اعتراف کیا جاتا ہے۔ ہیومن رائٹس سوسائٹی کی روایت ہے کہ دو شخصیات کو بعد از مرگ ایوارڈ دیا جاتا ہے، جبکہ بقیہ دو ایوارڈز کے لئے حیات شخصیات کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ ایک ایوارڈ کمیٹی مقررہ وقت پر چار شخصیات کو منتخب کرتی ہے۔ اس کمیٹی میں ریٹائرڈ جج صاحبان، سینئر وکلاء، معروف ماہرین تعلیم اور ممتاز سماجی شخصیات سمیت ہر اہم شعبے سے تعلق رکھنے والوں کو نمائندگی حاصل ہے، تاہم ایوارڈز کے لئے شخصیات کے انتخاب اور ان کی تقسیم کے لئے بیشتر کام جناب ایس ایم ظفر ،محترمہ مہناز رفیع، اے ایم شکوری، پروفیسر ہمایوں احسان، سید تنویر عباس تابش اور چودھری بشیر احمد سینئر ایڈووکیٹ انجام دیتے ہیں۔ جنہیں ایوارڈ دیا جاتا ہے، ان کے تعارف کے لئے بھی معروف شخصیات کو منتخب کیا جاتا ہے۔ 35ویں ایوارڈز کے لئے بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، اخوت فاؤنڈیشن کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر محمد امجد ثاقب، آرمی پبلک سکول پشاور کی پرنسپل محترمہ طاہرہ قاضی شہید اور سینئر صحافی سلیم شہزاد شہید کا چناؤ کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ بنیادی طور پر سیاستدان ہیں، انہیں عوامی وزیراعلیٰ کی حیثیت سے بہت زیادہ عزت دی جاتی ہے۔ بے حد سادہ طبیعت کے مالک ہیں ،نہایت دیانتدار اور فرض شناس شخصیت ہیں۔
ڈاکٹر محمد امجد ثاقب نے بہت چھوٹے پیمانے پر قرضِ حسنہ سکیم کا اجراء کیا تھا۔ ان کی نیک نیتی اور درویشانہ مزاجی رنگ لائی۔ آج وہ فخریہ کہتے ہیں کہ اب ان کا بجٹ 21ارب روپے سے بڑھ چکا ہے۔ قرضِ حسنہ کی واپسی ننانوے فیصد ہے۔ ہر سال لاکھوں ضرورت مندوں کو اللہ پر توکل کرکے قرضہ دیتے ہیں اور بڑی تعداد میں لوگ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اعلیٰ ملازمت حاصل کررہے یا پھر کاروبار کرکے اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں۔ محترم امجد ثاقب اپنے اس عظیم کارنامے پر جتنا فخر کریں، کم ہوگا۔ محترمہ طاہرہ قاضی شہید نے 16دسمبر 2014ء کو بزدل اور انتہائی قابلِ مذمت دہشت گردوں کے وار سے اپنے سکول کے بچوں کو بحفاظت باہر نکالتے ہوئے شہادت پائی۔ وہ اپنی جان بچا کر نکل سکتی تھیں، لیکن انہوں نے تاریخی اور یادگار، کارنامہ انجام دیا اور شہید ہوگئیں۔ عوامی اور حکومتی سطح پر محترمہ طاہرہ قاضی شہید کو نہایت اعلیٰ پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ ان کا ایوارڈ ان کی صاحبزادی عارفہ قاضی نے وصول کیا۔ وہ اس ایوارد کو وصول کرنے کے لئے پشاور سے خصوصی طور پر لاہور آئی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ امی جان نے سکول پرنسپل کے عہدے سے ایک سال بعد ریٹائر ہونا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے ہی انہیں شہادت کے مرتبے پر فائز کیا۔ گزشتہ ایک سال کے دوران ہمارے خاندان کی جتنی بھی پذیرائی ہوئی، اس سے ہمارا غم ہلکا ہوا ہے۔ہم خاندان کے لوگ آپس میں باتیں کرتے ہیں کہ امی جان نے کچھ عرصے بعد ریٹائر ہو جانا تھا۔ شہادت کا رتبہ اللہ کی طرف سے دراصل ان کی بہت بڑی پروموشن ہے،جس پر ساری قوم فخر کررہی ہے۔
بعدازمرگ، دوسرا ایوارڈ سینئر صحافی سلیم شہزاد کو دیا گیا۔ وطن عزیز میں شہید ہونے والے صحافیوں کی فہرست طویل ہے۔ سلیم شہزاد کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی سلمان غنی نے شعبہ صحافت میں سلیم شہزاد کے بیباک اور جرأت مندانہ کردار کو واضح کیا اور ان کے کارناموں کو ناقابلِ فراموش قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ سلم شہزاد شہید کی خدمات پر صرف صحافی برادری ہی نہیں، پوری قوم انہیں خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ یہ ایوارڈ سلیم شہزاد شہید کے ورثاء تک پہنچانے کے لئے سینئر کالم نگار اجمل نیازی نے وصول کیا۔ ہیومن رائٹس سوسائٹی کی طرف سے اعلیٰ اور شاندار خدمات پر ایک ایوارڈ محترم امجد ثاقب کو دیا گیا۔ انہوں نے اپنے ادارے ’’اخوت‘‘کے بارے میں گفتگو سے قبل جناب ایس ایم ظفر اور ان کے رفقاء کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ محبت، ایثار اور قربانی کی مثالیں قائم کرنے والوں کی پذیرائی کا سلسلہ نہایت باوقار انداز میں جاری ہے۔ حالات بعض اوقات بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں، لیکن حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ مایوس افق سے ’’روشنی‘‘ نکلتی دکھائی دیتی ہے۔ قوم، غربت سے نہیں، ناامیدی اور بے یقینی سے مرتی ہے۔ ہمیں ان لوگوں پر یقین رکھنا چاہیے، جو اپنی زندگی کا رخ خود متعین کرتے ہیں۔ ہمارا پیارا پاکستان ایک نعمت خداوندی ہے۔ نبی کریمﷺ نے ہمیں اپنی حیاتِ طیبہ کے ذریعے ہمیشہ زندہ رہنے والا نظام عطا فرمایا ہے۔ ہم انشاء اللہ اس کی بنیاد پر نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ اس مرتبہ ہم نے قرض حسنہ سکیم کے تحت اکیس ارب روپے لوگوں میں تقسیم کئے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمیں اس سکیم کے تحت ننانوے فیصد رقوم واپس مل رہی ہیں۔ بہت سے لوگ اپنے تجربات اور مشاہدات کے حوالے سے پاکستان کے بارے میں بہت سی باتیں کیا کرتے ہیں، مَیں پوچھتا ہوں کہ جس پاکستان کے لوگ محض ایک وعدے پر قرض لے کر از خود واپس کر دیتے ہیں، یہ کون سا پاکستان ہے؟ ڈاکٹر امجد ثاقب نے یقیناً اپنے سوال کے ذریعے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ۔۔۔’’ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی‘‘!
بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کو ایوارڈ دینے سے قبل تعارفی کلمات ادا کرتے ہوئے سید علی ظفر صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے یاد دلایا کہ عبدالمالک بلوچ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کا تعلق کسی سردار، وڈیرے، جاگیردار یا سرمایہ دار خاندان سے نہیں۔ وہ عوامی شخصیت ہیں۔ ایم بی بی ایس کے بعد انہوں نے آنکھوں کے ڈاکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ عوامی سطح پر خدمات انجام دیتے ہوئے سیاست میں اپنا مقام پیدا کیا اور جب انہیں بلوچستان کا وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ ہوا تو اس فیصلے کو ہر کسی نے سراہا۔ قابل اطمینان پہلو یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اڑھائی سال میں اپنی صلاحیتوں اور کوششوں سے صوبے کے حالات بہتر بنانے اور بلوچ عوام کو منفی اور پاکستان دشمن قوتوں کے ناپاک عزائم سے آگاہ کرنے کا فریضہ کامیابی سے ادا کیا۔ ایک سیاسی معاہدے کے تحت ڈاکٹر عبدالمالک کو وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے صرف اڑھائی سال ہی کام کرنے کا موقع ملا، اگر پانچ سال تک کام کرتے تو اُن کی کامیابیوں کا گراف مزید بلند ہوتا۔ علی ظفر ایڈووکیٹ نے ڈاکٹر صاحب کو یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ انسانی حقوق کی جدوجہد میں اُن کا ساتھ آئندہ بھی دیا جاتا رہے گا۔
ڈاکٹر عبدالمالک نہایت سادہ مزاج شخصیت ہیں۔ چہرے پر عموماً مسکراہٹ دکھائی دیتی ہے۔ ایوارڈ وصول کرنے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ بد عنوانی اور کرپشن کا ’’داغِ ندامت‘‘ قومی زندگی کے دامن سے دھل جائے تو بہت زیادہ کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ جب تک پاکستان کو فلاحی ریاست نہیں بنایا جائے گا، دہشت گردی، انتہا پسندی اور دیگر سنگین مسائل حل نہیں ہوں گے۔ صوبوں کو تاریخ میں بہت زیادہ حقوق مل چکے ہیں، اب صوبائی حکومتوں کو کارنامے انجام دینے چاہئیں۔ انسانی حقوق کے تحفظ کا کام پوری رفتار سے نہیں ہو رہا ، اس طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بہت خوبصورت گفتگو کی، خصوصاً کرپشن کے بارے میں ان کا تجربہ درست ہے۔ خود ان کی ذات ایک مثال ہے کہ انہوں نے کرپشن کی گنگا میں ہاتھ نہیں دھوئے۔ جب وہ وزارت اعلیٰ سے سبکدوش ہوئے تو وہ کسی بڑے بنگلے میں شفٹ ہونے کی بجائے فٹ پاتھ پر تھے۔ اللہ بھلا کرے، بلوچستان کے چیف جسٹس کا، جنہوں نے ان کے لئے فوری طور پر ایک گھر الاٹ کر دیا۔ اللہ کے خوف سے کرپشن نہ کرنے والوں کی اللہ تعالیٰ اسی طرح مدد کیا کرتا ہے۔
تقسیم ایوارڈز کی کارروائی ہو رہی تھی تو ہماری طرح بہت سے حاضرین کو جناب ایس ایم ظفر کی کمی شدت سے محسوس ہوئی۔ چند روز قبل ظفر صاحب موسم کی سختی کا شکار ہو گئے تھے۔ نمونیہ کی شکایت کے سبب انہیں سینے کی جکڑن اور سانس کی تکلیف پریشان کر رہی تھی ۔ڈاکٹروں نے انہیں تقریب میں شرکت سے روک دیا تھا۔ ادھر ظفر صاحب کے چاہنے والے انہیں یاد کر رہے تھے، اُدھر ظفر صاحب کھنچے چلے آئے۔ جب محترمہ مہناز رفیع حاضرین سے مخاطب تھیں تو اچانک وہیل چیئر پر ایس ایم ظفر کی آمد ہو گئی۔ خوشگوار حیرت کے ساتھ سبھی لوگ تالیاں بجاتے ہوئے کھڑے ہو گئے۔ بھرپور فطری انداز میں اپنے استقبال سے ظفر صاحب بھی خوش ہو گئے۔ ہماری ساتھ والی نشستوں پر ظفر صاحب کے چھوٹے صاحبزادے عاصم ظفر ، دیرینہ ساتھی چودھری بشیر احمد ایڈووکیٹ اور اے ایم شکوری نے دیگر افراد کے ساتھ جناب ایس ایم ظفر کو سہارا دے کر ان کی نشست پر بٹھایا۔ تمام توانائیاں جمع کر کے ظفر صاحب گویا ہوئے۔۔۔ ڈاکٹروں کے منع کرنے کے باوجود ہاتھ پر لگی ہوئی ڈرپ اتار کر میں چپکے سے آگیا ہوں۔ یہ دیکھئے ہاتھ پر ڈرپ لگانے کے لئے بریلا موجود ہے تقریب میں ڈاکٹر عبدالمالک، محترمہ طاہرہ قاضی شہید کی بیٹی عارفہ قاضی اور بہت سے معزز مہمان آئے ہوئے ہیں۔ ان سب کی محبت مجھے یہاں کھینچ لائی ہے، ورنہ میری موجودگی ضروری نہیں تھی، شخصیات کے بغیر بھی ادارے اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ انسانی حقوق کی پامالی صرف پاکستان میں ہی نہیں ہو رہی، دنیا بھر میں یہ نا انصافی اور ظلم ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ تو سپر پاور کے ہاتھ میں ہے، جیسے ہماری پارلیمینٹ ایک آدمی کے ہاتھ میں ہے۔ او آئی سی کا کیا ذکر کریں، مسئلہ کشمیر ہو یا کوئی دوسرا ایشو ہو، اس تنظیم کا بھی کوئی فائدہ نہیں ، امت ہی موجود نہیں۔ ہر جگہ ریاستی ادارے دہشت گردی کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق سے نا انصافی کی کوئی حد نہیں رہ گئی۔ لگتا ہے، منزل کی جانب ہمارا سفر اب تک صفر ہے۔ اس کے باوجود مجھے انسانیت پر مکمل یقین ہے کہ بالآخر انسانی جدوجہد کامیاب ہوگی۔
یاد رکھیں کہ جس طرح عبدالستار ایدھی اور بہادر لڑکی ملالہ ہر لحاظ سے نوبل پرائز کے لئے حقدار ہیں، اسی طرح ڈاکٹر امجد ثاقب اور ڈاکٹر عبدالمالک جیسی شخصیات اپنی ذات میں انجمن اور قول و فعل کے ساتھ انسانی حقوق کی جدوجہد میں بلندیوں پر ہیں۔ اسی لئے میں صورت حال سے مایوس ہرگز نہیں۔۔۔گفتگو کے دوران ایس ایم ظفر کھانسی کا دورہ بھی برداشت کرتے رہے۔ نہایت جذباتی گفتگو سے ہال میں بار بار تالیاں بجائی جاتی رہیں۔ سینے پر ہاتھ رکھ کر ظفر صاحب بار بار شکریہ ادا کرتے رہے، پھر وہیل چیئر منگوالی گئی۔ وہ سٹیج سے اُترے تو ہم نے آگے بڑھ کر ان سے ہاتھ ملایا۔ مسکراتے ہوئے بولے: ’’ممتاز صاحب! روزانہ آپ کے دعائیہ میسج ملتے ہیں۔ اللہ کرے گا،مَیں ان دعاؤں کے طفیل جلد ٹھیک ہو جاؤں گا، ہم نے انہیں تسلی دی کہ سب کی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ انشاء اللہ بہت جلد آپ صحت یاب ہو جائیں گے‘‘۔۔۔ ہوٹل کی لفٹ میں ظفر صاحب کو خدا حافظ کہہ کر ہم دوبارہ ہال میں آگئے۔ کارروائی جاری تھی۔ سید عاصم ظفر آجکل ہیومن رائٹس سوسائٹی کے چیف آرگنائزر کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اپنے والد گرامی کے لئے دعاؤں پر وہ سب کے ممنون تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ ظفر صاحب سے اور ظفر صاحب آپ سب لوگوں سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ خدا کرے، محبت کا یہ دریا بہتا رہے ۔۔۔ہمیں اس وقت امجد اسلام امجد کی غزل کا یہ مصرعہ بہت یاد آ رہا تھا:’’ جو بھی کچھ ہے،محبت کا پھیلاؤ ہے‘‘!