مذاکرات نہ ہوسکے ، شام کی صورتحال مزید سنگین

مذاکرات نہ ہوسکے ، شام کی صورتحال مزید سنگین

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ : آفتاب احمد خان:

شام میں باغیوں کے ٹھکانوں پر روسی فضائیہ کے حملے جاری ہیں جبکہ داعش نے خودکش حملے کرکے حکومت کو مزید زچ کر دیا ہے۔ ادھر جنیوا میں اقوام متحدہ کے زیراہتمام صدر بشارالاسد اور ان کے مخالفین کے درمیان مذاکرات نہیں ہوسکے اور انہیں 25 فروری پر موخر کر دیا گیا ہے۔ اس طرح صورتحال مزید سنگین ہوگئی ہے، نہ مذاکرات ہو رہے ہیں اور نہ ہی لڑائی رک رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے سٹیفن ڈی سٹورا کا تو کہنا ہے کہ مذاکرات ناکام نہیں ہوئے بلکہ ملتوی کیے گئے ہیں۔ یہ موقف قابل قبول نہیں لگتا، کیونکہ دونوں فریق مذاکرات کو ناکام سمجھتے ہیں اور اس کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہرا رہے ہیں۔ شام کی حکومت اپنے مخالفین کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور اس نے باغیوں کے زیر قبضہ شہر ایپو جانے والی سپلائی لائن کاٹ دی ہے جبکہ فوج نے دو شہروں نوبول اور زہرا کا محاصرہ توڑ دیا ہے۔
دوسری طرف سٹیفن ڈی سٹورا فریقین کے نمائندوں کے جنیوا آجانے ہی کو کامیابی سمجھتے ہیں، ان کا یہ کہنا درست ہے کہ شام کی حکومت اور ان کے مخالفین، دونوں ہی سیاسی عمل شروع کرنے کے حق میں ہیں۔ اس طرح مذاکرات نہ ہوسکنے سے ملک کو مزید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے، مذاکرات کے لئے شامی حکومت کے نمائندے بشر جعفری نے مخالفین پر الزام لگایا کہ وہ غیر ملکی اشاروں پر کام کر رہے ہیں اور مذاکرات نہ ہوسکنے کے ذمہ دار وہی ہیں۔ اپوزیشن کی ہائی نیگوشیئیشن کمیٹی (ایچ این سی) کے چیف کوآرڈنیٹر ریاض حجاب نے حکومت پر شہریوں کو بمباری میں ہلاک کرنے اور انہیں بھوکے مارنے کے الزامات کے حوالے سے کہا کہ حکومت ہی مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ دار ہے اور جب تک زمینی صورتحال درست نہیں ہوتی وہ مذاکرات میں واپس نہیں آئیں گے۔
شامی حکومت اور اس کے مخالفین کے درمیان مذاکرات کو ہمیشہ سے مشکل سمجھا جاتا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ فریقین ابھی تک براہ راست گفت و شنید پر متفق نہیں ہوئے۔ جنیوا میں جو مذاکرات نہیں ہوسکے، وہ بالواسطہ ہونا تھے، فریقین کو ایک میز پر نہیں بیٹھنا تھا۔ ان مذاکرات کے لئے طریقہ یہ طے کیا گیا تھا شامی حکومت اور اس کے مخالفین کے نمائندے الگ الگ کمروں میں ہوں گے اور اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ان کمروں میں جاکر ان کا موقف سنیں گے اور یہ موقف ایک دوسرے کو پہنچائیں گے۔
یہ مذاکرات اس لیے نہ ہوسکے کیونکہ فریقین ایک ایجنڈے پر متفق نہیں ہوسکے۔ حکومت اپنے مخالفین سے تحریری ایجنڈا اور شرکاء کی فہرست مانگتی رہی جبکہ مخالفین کا مطالبہ تھا کہ حکومت پہلے شہروں کا محاصرہ ختم کرے اور ان کے کارکنوں کو رہا کرے۔ اقوام متحدہ نے یہ تو کہہ دیا ہے کہ اب مذاکرات 25 فروری کو ہوں گے، لیکن شامی فوج جس تیزی سے کارروائیاں کرکے باغیوں کے زیر قبضہ علاقے واپس لے رہی ہے، اس سے لگتا ہے کہ لڑائی میں تیزی آجائے گی، اس طرح مذاکرات کا انحصار زمینی صورتحال ہی پر ہوگا۔

مزید :

تجزیہ -