یوپی میں سماج وادی پارٹی اورکانگریس اتحاد سے بی جیپی کیلئے مشکلات

یوپی میں سماج وادی پارٹی اورکانگریس اتحاد سے بی جیپی کیلئے مشکلات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
 بھارت کی دو ریاستوں.....مشرقی پنجاب اور گوا..... میں ہفتے کو ووٹ ڈالے گئے، دونوں ریاستوں کا انتخابی عمل تو مکمل ہوگیا ہے، تاہم نتائج 11 مارچ کو آئیں گے۔ جب تین دوسری ریاستوں اتر پردیش (یوپی) اتراکھنڈا اور منی پور میں بھی انتخابات کا عمل مکمل ہوگا۔ اتر پردیش بھارت کی سب سے بڑی ریاست ہے جس کی اسمبلی 403 ارکان پر مشتمل ہے اور اس کی آبادی 22 کروڑ سے زائد ہے۔ لوک سبھا (پارلیمنٹ کا ایوان زیریں) میں سب سے زیادہ نشستیں بھی یو پی کی ہیں۔ بھارت کی حکمران جماعت یو پی کا انتخاب جیتنے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہی ہے، لیکن وزیر اعلیٰ اکھلیش یادیو نے کانگرس کے ساتھ اتحاد کرکے بی جے پی کی کامیابی مشکل بنا دی ہے۔ یو پی میں الیکشن سات مرحلوں میں ہوگا اور بریلی، مراد آباد، سہارن پور، آگرہ، علی گڑھ اور میرٹھ کی چھ ڈویژنوں میں انتخابات ہوں گے۔
اکھلیش یادیو اتر پردیش کے بیسویں وزیر اعلیٰ ہیں، ان کے والد ملائم سنگھ یادیو بھی وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں، اگرچہ باپ بیٹے کے درمیان ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر اختلافات خاصے سنگین ہوگئے تھے اور ملائم سنگھ نے بیٹے کو پارٹی صدارت سے ہٹا دیا تھا، تاہم اگلے ہی روز انہیں پارٹی نے صدر منتخب کرلیا۔ البتہ انہوں نے الیکشن سے پہلے اپنے اختلافات دور کر لئے ہیں۔ اکھلیش یادیو، پاکستانی پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف سے متاثر نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ریاست میں لیپ ٹاپ تقسیم کئے اور ترقیاتی منصوبے تیزی سے مکمل کرائے ہیں۔ اکھلیش یادیو سماج وادی پارٹی کے صدر ہیں۔ انہوں نے 15 مارچ 2012ء کو وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا تھا، اس وقت ان کی عمر 38 سال تھی، یہ عہدہ سنبھالنے والے وہ سب سے کم عمر شخص ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں اور ان کی بیوی ڈمپل یادیو بھی سیاستدان ہیں۔
پاکستان کی ہمسایہ ریاست مشرقی پنجاب اور ساحلی ریاست گوا میں ووٹنگ ہفتے کو مکمل ہوئی۔ پنجاب میں ووٹروں کا ٹرن آؤٹ 70 فیصد سے زائد رہا جبکہ گوا میں 83 فیصد نے ووٹ ڈالے، لیکن نتائج کے معاملے میں بھارت میں اس طروح کی بے صبری کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا جیسے پاکستان میں ہوتا ہے کہ الیکشن والے دن جب تک نتیجہ معلوم نہ کرلیں، پاکستانی سوتے نہیں ہیں۔ چند گھٹوں کے اندر اندر رجحان بھی واضح ہونا شرع ہو جاتا ہے اور پھر نصف شب کے بعد تو تصویر کافی حد تک صاف ہو جاتی ہے لیکن بھارت میں ایسا نہیں ہے وہاں لوک سبھا کے انتخابات بھی مرحلہ وار ہوتے ہیں اور یہ عمل پھیل کر کوئی ڈیڑھ ماہ تک محیط ہو جاتا ہے۔ جب پورے ملک میں پولنگ مکمل ہو جاتی ہے تو پھر گنتی شروع ہوتی ہے اور نتائج کا اعلان ہوتا ہے، ڈیڑھ ماہ تک الیکشن کا تمام ریکارڈ (اب بائیو میٹرک مشینیں) ایک جگہ جمع رہتا ہے اور لطف کی بات ہے کہ کسی جانب سے دھاندلی کی صدا نہیں اٹھتی، یہ بھی نہیں کہا جاتا کہ ریکارڈ میں رد و بدل کرلیا گیا ہے اور فلاں جماعت کو دھاندلی سے ہرا دیا گیا ہے۔ اس وقت بھی الیکشن حکمران جماعت کی حکومت کے دوران ہو رہے ہیں۔ کسی نگران وغیرہ کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور لطف کی بات ہے کہ پنجاب میں حکمران جماعت (اکالی دل) کی شکست کا خطرہ موجود ہے جو 2007ء سے برسر اقتدار چلی آرہی ہے۔ وزیر اعلیٰ پرکاش سنگھ بادل کا تعلق اکالی دل سے ہے جنہیں بی جے پی کی حمایت حاصل ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی الیکشن مہم کے دوران پنجاب میں آئے تھے تو کسانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے انہیں یہ ’’خوشخبری‘‘ سنائی تھی کہ بھارت سے دریائی پانی پاکستان نہیں جانے دیا جائے گا اور یہی پانی بھارتی کسانوں کو ملے گا، پنجاب چونکہ زرعی ریاست ہے، اس لئے کسانوں کو خوش کرنے کے لئے اس طرح کی بڑہانکنا ضروری تھا لیکن اس کے باوجود پنجاب میں اکالی دل اور بی جے پی کی مخلوط حکومت شکست کے خطرے سے دوچار ہے۔ بادل پہلے بھی کئی بار وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں اور وہاں یہ ریت چلی آرہی ہے کہ ایک یا دو الیکشن اکالی دل بی جے پی کی حمایت سے جیت جاتی ہے، اور پھر ایک یا دو الیکشن میں کامیابی کانگرس کے حصے میں آجاتی ہے، لیکن اب کی بار اگرچہ عام آدمی پارٹی نے بھی اپنی انٹری پنجاب میں ڈالی ہے لیکن اس کی جیت کے امکانات کم کم ہی ہیں، یہ پارٹی جس دھوم دھڑکے سے میدان سیاست میں داخل ہوئی تھی اور دہلی میں جس طرح حکومت کر رہی ہے اس کے اثرات باقی ریاستوں تک نہیں پہنچے، تاہم یہ کہا جاسکتا ہے وہ دہلی سے باہر بھی قدم رکھ رہی ہے۔ اب کی بار پنجاب میں تین فریق تھے، اکالی دل اور اس کی اتحادی بی جے پی، کانگرس اور عام آدمی پارٹی۔
پنجاب میں ووٹروں کی تعداد 2 کروڑ ہے جن میں سے 70 فیصد کاسٹ ہوئے، اسمبلی کی نشستیں 157 ہیں۔ پولنگ کا آغاز اطمینان بخش طریقے سے وقت پر ہوا تاہم بعض پولنگ سٹیشنوں پر بائیو میٹرک مشینوں کی خرابی کی وجہ سے پولنگ معمولی تاخیر سے شرع ہوئی۔
انتخابی جائزوں میں یہ امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ پنجاب میں بی جے پی ہار جائے گی۔ اترا کھنڈ میں انتخابات 15 فروری اور منی پور میں 4 سے 8 مارچ تک ہوں گے۔ اتر پردیش میں الیکشن 11 فروری سے شروع ہوں گے لیکن بڑی ریاست ہونے کی وجہ سے انتخابات سات مرحلوں میں ہوں گے۔
بھارتی الیکشن

مزید :

تجزیہ -