پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سفر وسیلہ ظفر اور راحت و اطمینان کا سبب ہوتا ہے لیکن میرا المیہ یہ ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک کا سفر مجھے رنجیدہ کردیتا ہے ، انہیں دیکھ کر مَیں سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ ان ممالک کے پاس ایسا کیا ہے جو ہمارے پاس نہیں ، ان ممالک میں سے اکثر کی نسبت ہمارے پاس وسائل زیادہ ہیں، کمی ہے تو صرف ترقی کے لئے جستجو کی جس نے ہمیں تاحال پسماندہ مقام پر کھڑا کررکھا ہے۔

بہرحال ’’پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘‘ کے مصداق پُرامید ہوں کہ ہمارا اچھا وقت بھی ضرور آئے گا۔ گذشتہ دنوں مَیں نے ملائشیا کا دورہ کیا، میرے ہمراہ 97رکنی وفد تھا۔ ملائشیا کی ترقی و خوشحالی دیکھ کر مجھے بے انتہارشک آیا اور اپنی پسماندگی پر افسوس ہوا۔

ملائشیا اسلامی دنیا کا وہ ملک ہے جس نے کامیابی کے زینے بڑی تیزی سے طے کئے ہیں۔ 2016ء کے اختتام تک اس کی برآمدات 165.3ارب ڈالر اور درآمدات 140.9ارب ڈالر تھیں۔ ملائیشیا آج ترقی کی جو منازل طے کررہا ہے، وہ سابق وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد کی انتہائی موثر معاشی پالیسیوں کی بدولت ہے۔

انہوں نے وزیراعظم کی حیثیت سے اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلے ملائشیا کے مسلمانوں کے باہمی اختلافات دور کرنے کے لئے کوششیں کیں جن کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔

انہوں نے یہ لازمی قرار دیا کہ جس غیر ملکی فرم کی تجارت پانچ ملین رنگٹ تک پھیل جائے گی، وہ اپنی فرم میں ملائشین مسلمان تاجر کو 30 فی صد کا حصّے دار بنائے گی، اُن کے اِس قدم نے توقع سے زیادہ بہتر نتائج دئیے۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے تعلیم و صحت کے لئے بجٹ میں اضافہ کردیا جس سے عوامی خوشحالی میں بھی اضافہ ہوا۔


بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پاکستان کا شمار کسی بھی حوالے سے ملائشیا کے بڑے ٹریڈ پارٹنرز میں نہیں ہوتا، چنانچہ ملائشیا میں قدم رکھتے ہی مَیں نے عزم کرلیا کہ تجارت اور معیشت کے میدان میں دونوں ممالک کے تعلقات مضبوط کرنے کے لئے جو بھی ممکن ہوا ضرور کروں گا۔ ملائشیا میں سب سے پہلی ملاقات پاکستانی ہائی کمشنر نفیس ذکریا سے ہوئی جو بڑے پْرخلوص اور وطن کی محبت سے لبریز شخصیت ہیں۔

اگرچہ اس دن قائد اعظم ڈے تھا جس کی وجہ سے ان کی مصروفیات کافی تھیں، مگر انہوں نے ہمیں بھرپور وقت دیا۔ مَیں نے انہیں تجویز دی کہ جس طرح دیگر ممالک کے سفارتخانوں نے اپنے ملک کی مصنوعات کو متعارف کرانے کے لئے ڈسپلے سنٹرز بنارکھے ہیں، اسی طرح ہمیں بھی بنانے چاہئیں، مَیں نے پاکستان میں قازقستان کے سفارتخانے کا دورہ کیا تھا تو اْس کے سفیر نے خود مجھے اپنے ڈسپلے سنٹر کا دورہ کرایا تھا۔

نفیس ذکریا نے میری تجویز سے نہ صرف بھرپور اتفاق کیا، بلکہ لاہور چیمبر سے مدد بھی طلب کی۔ انہوں نے کہا کہ لاہور چیمبر کے ممبران اپنی مصنوعات ڈسپلے کے لئے انہیں بھجوائیں جس کی رپورٹ پاکستانی دفتر خارجہ کو بھی بھیجی جائے، اس کے علاوہ لاہور چیمبر اور پھلوں و سبزیوں، فارماسیوٹیکل، آٹوپارٹس، کارپٹ اور کیمیکلز سمیت پاکستانی مصنوعات کی معیاری دستاویزی فلمیں انہیں بھیجی جائیں۔

مَیں نے انہیں مزید بتایا کہ بھارتی حکومت اپنے ایکسپورٹرز کو بھرپور سپورٹ کررہی ہے اور عالمی نمائشوں و میلوں میں حصہ لینے کے لئے اخراجات کا 80فیصد برداشت کرتی ہے۔

دوسری طرف ہماری ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے، اس ادارے کو پوری طرح فعال ہونا چاہیے۔ ہمارے اور پاکستانی ہائی کمشنر کے درمیان فری ٹریڈ ایگریمنٹ اور سی پیک سمیت دیگر بہت سے معاملات پر سیرحاصل تبادلہ خیال ہوا۔


ہائی کمشنر نے پاکستان سے ملائشیا کے لئے تجارتی وفود کی تعداد میں اضافے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ 2017ء میں صرف ایک وفد نے ملائشیا کا دورہ کیا ، جو وفود آئیں ان میں خالصتاً ایکسپورٹرز ہونے چاہئیں۔

سی پیک پر بات ہوئی تو مَیں نے کہا کہ اگرچہ یہ منصوبہ بہت بڑا اور خوش آئند ہے، مگر تمام پہلوؤں پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ ایک اور قابل ذکر بات یہ کہ ملائشیا میں ایک پھل دریان کو وہی درجہ حاصل ہے جو پاکستان میں آم کو۔ مجھے یہ پھل کھانے کا اتفاق ہواتو اس کے اور پاکستانی آم کے ذائقے میں وہی فرق پایا جو جاپان اور صومالیہ کی معیشتوں کے درمیان ہے۔

اس کے باوجود ملائشیا سے دریان نامی پھل چین سمیت کئی ممالک کو برآمد کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف ہمارا یہ حال ہے کہ یہاں سے پاکستانی آم اور چاول وغیرہ جو دیگر ممالک کو جاتے ہیں، وہاں ان پردوسرے ممالک کی برانڈنگ ہوتی ہے پھر یہ عالمی منڈی میں مہنگے داموں فروخت کردئیے جاتے ہیں یعنی مصنوعات ہماری اور فائدہ دوسرے ممالک اٹھارہے ہیں۔

ایسے تکلیف دہ مسئلے اور متعلقہ اتھارٹیز کی مجرمانہ خاموشی پاکستان کو بھاری معاشی نقصان پہنچا رہی ہے۔ہمیں اپنی تمام مصنوعات کی برانڈنگ خود کرنی چاہیے جس سے ملک کی برآمدات بڑھیں گی اور ملک کے لئے قیمتی زرمبادلہ زیادہ ہوگا۔

مزید :

رائے -کالم -