مشاہد حسین سید کی واپسی
شکر ہے مشاہد حسین سید کی کوئی خیر خبر تو ملی، وگرنہ تو یہی لگتا تھا وہ گوشہ نشین ہوگئے ہیں، البتہ حیرت اس بات پر ہے کہ انہیں ملنے کی دعوت نواز شریف نے دی اور ذرائع کے مطابق سینیٹ کا ٹکٹ بھی دے دیا، جبکہ جاوید ہاشمی کو ملاقات کے لئے بلایا تو ضرور، مگر ان کی پارٹی میں شمولیت کا اعلان نہیں کیا اور ہنوز معاملہ لٹکا ہوا ہے، حتیٰ کہ قومی حلقہ 149 ملتان سے جاوید ہاشمی کو امیدوار بنانے کا اشارہ بھی نہیں دیا، جہاں مسلم لیگی امیدواروں نے دعوؤں کا جمعہ بازار لگا رکھا ہے، حتیٰ کہ گورنر رفیق رجوانہ بھی اپنے بیٹے آصف رفیق رجوانہ کو امیدوار بنانے کے لئے پورا زور لگا رہے ہیں۔ خیر یہ کمال تو مشاہد حسین سید کو آتا ہے کہ ہر ایک کو اپنے شیشے میں اتار لیتے ہیں۔
وہ جب نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں چار چار وزارتوں کے مزے لوٹ رہے تھے تو میری ان سے ملاقاتیں رہتی تھیں۔ پرویز مشرف کا دور آیا تو وہ مسلم لیگ (ق) میں شامل ہوئے اور پرویز مشرف کے بھی پنج پیاروں میں شامل ہوگئے۔ ان کا یہ ہنر ابھی تک برقرار ہے کہ انہوں نے تاحیات سینیٹر رہنا ہے اور اس کے لئے اسباب بھی پیدا کرلینے ہیں۔
وہ جب تک مسلم لیگ (ق) کی طرف سے سینیٹر رہے، انہوں نے مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے کی کبھی کوشش نہیں کی، اب ان کی مدت ختم ہورہی ہے اور مسلم لیگ (ق) کی طرف سے دوبارہ سینیٹر بننے کی کوئی امید نہیں، اس لئے انہوں نے نواز شریف کے بلاوے پر لبیک کہتے ہوئے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔
خبر جاری کرواتے ہوئے انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ اس میں یہ لائن ضرور شامل ہو کہ یہ ملاقات نواز شریف کی دعوت پر ہوئی۔ آخر سابق وزیر اطلاعات ہونے کا تجربہ بھی تو کام آنا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مشاہد حسین سید ایک صاف ستھرے آدمی ہیں۔ مَیں انہیں سیاستدان اس لئے نہیں کہوں گا کہ وہ کبھی عوامی سیاست سے اسمبلی میں نہیں آئے، وہ ایک ٹیکنو کریٹ ہیں، تاہم وہ کبھی ایسی سیاست کا حصہ نہیں بنے جس میں مشکلات یا مصائب کا سامنا کرنا پڑے، وہ ڈوبتی کشتی میں سے سب سے پہلے چھلانگ لگانے والے شخص ہیں۔
انہوں نے نواز شریف کو اس وقت خیر باد کہہ دیا تھا، جب وہ پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدام سے معزول ہوئے اور بعد ازاں اڈیالہ جیل، پھر بیرون ملک گئے۔
یہ نواز شریف کا ظرف ہے کہ انہوں نے پھر انہیں بلالیا ہے، یا پھر شاید یہ مشاہد حسین کی شخصیت کا سحر ہے کہ انہیں چھوڑی ہوئی جگہ واپس مل جاتی ہے۔
مشاہد حسین سید گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے مصداق جاتے جاتے یہ کہہ گئے کہ انہیں چودھری شجاعت حسین کی قیادت میں کام کرکے بہت مزا آیا۔
چاہئے تو یہ تھا کہ وہ اس اہم موقع پر کہ جب انتخابات قریب ہیں چودھری شجاعت حسین کے ساتھ کھڑے رہتے، اپنا سارا وزن ان کے پلڑے میں ڈالتے، مگر اس کی بجائے انہوں نے غالباً سینٹ کے ٹکٹ کو اہمیت دی اور سایہء شجاعت حسین سے نکل کر نواز شریف کی جھولی میں آ گرے۔
جن دنوں مخدوم جاوید ہاشمی کی نواز شریف سے ملاقات ہوئی تھی، اس کے بعد میری ان سے ملاقات ہوئی اور مَیں نے پوچھا کہ کیا قومی حلقہ 149 کی ٹکٹ کا معاملہ بھی زیر غور آیا تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے پہلے یہ بات نواز شریف نے کہی کہ 149 سے ہمارے امیدوار آپ ہی ہوں گے، لیکن مَیں نے انہیں جواب دیا کہ آج اس مقصد کے لئے آپ سے ملنے نہیں آیا ہوں۔ مَیں تو صرف اس لئے آیا ہوں کہ اپنی غیر مشروط وابستگی کا اظہار کر سکوں۔
اب اس بات سے ہی جاوید ہاشمی اور مشاہد حسین سید کی سیاسی سوچ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جاوید ہاشمی ایک پختہ کار سیاستدان ہیں، وہ اس وقت اسمبلی سے باہر آئے، جب ان کے ابھی چار سال پڑے تھے۔ مشاہد حسین سید اس وقت آئے ہیں، جب ان کے سینٹ میں چار دن رہ گئے ہیں اور انہیں اپنے اگلے چھ برسوں کی فکر پڑگئی ہے۔
مسلم لیگ (ق) کے رہنما کامل علی آغا نے کہا ہے کہ مشاہد حسین سید ایک عرصے سے پارٹی میں فعال نہیں تھے، اس لئے ان کے جانے سے پارٹی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بات تو ان کی بھی ٹھیک ہے، مشاہد حسین سید تو چودھری شجاعت حسین یا پرویز الٰہی کے ساتھ عرصہ ہوا کہیں دکھائی نہیں دیئے، اس دوران مسلم لیگ (ق) نے جتنے بھی احتجاج کئے، مشاہد حسین سید کہیں نظر نہیں آئے، حالانکہ وہ جنرل سیکرٹری بھی تھے، اس کا مطلب تو یہی ہے کہ وہ اپنا عرصہ پورا کررہے تھے۔ مَیں مشاہد حسین سید کا ایک زمانے میں بہت مداح رہا ہوں، اسلام آباد میں ان کے گھر جانا ہوتا تو ایک گہما گہمی کا سماں ہوتا، وزیر ہونے کے باوجود وہ لوگوں کی دسترس میں رہتے، کام بھی کراتے، مگر مجھے پہلا جھٹکا اس وقت لگا تھا جب مشاہد حسین معزولی کے فوراً بعد نواز شریف سے الگ ہوگئے۔
شاید وہ دباؤ میں آگئے اور مشکل صورت حال سے بچنے کے لئے انہوں نے ’’وعدہ معاف‘‘ گواہ بننے والی راہ اختیار کی، مَیں چونکہ انہیں ’’مسلم‘‘ کے دبنگ ایڈیٹر کے طور پر جانتا تھا، اس لئے مجھے یہ بات کچھ معیوب لگی۔ سچی بات ہے اس زمانے میں مجھے ملتان کے شیخ ظہور احمد اور مشاہد حسین سید میں کوئی فرق نظر نہ آیا، کیونکہ شیخ ظہور احمد نے بھی اگلے ہی روز پرویز مشرف کی حمایت میں اشتہار چھپوا کر نواز شریف کو برا بھلا کہا تھا، تاکہ اس کے ان تمام کاموں پر پردہ پڑا رہے جو اس نے نواز شریف کا مصاحبِ خاص ہونے کا تاثر دے کر کئے تھے۔ سیاست میں ثابت قدم رہنا سب سے بڑی خوبی ہے، اس میں سرد گرم موسم تو آتے ہی رہتے ہیں، سینیٹر پرویز رشید سے بے پناہ اختلافات کے باوجود مَیں انہیں اس لئے اعلیٰ مقام دیتا ہوں کہ وہ نواز شریف کے دورِ ابتلا میں بھی ثابت قدم رہے اِدھر اُدھر نہیں گئے۔
پیپلز پارٹی نے رضا ربانی کو دوبارہ اس لئے ٹکٹ دیا ہے کہ وہ ایک بہترین سینیٹر ہیں، شاید یہی سوچ کر نواز شریف نے مشاہد حسین سید کو بھی ٹکٹ جاری کردیا ہے۔
اگلی بار اگر مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آجاتی ہے تو ممکن ہے مشاہد حسین سید دوبارہ وزیر اطلاعات بھی بن جائیں، پاکستانی سیاست میں سب کچھ ممکن ہے۔ مشاہد حسین سید پر بزدلی کا الزام تو لگایا جاسکتا ہے، کرپشن کا نہیں، اگر بزدلی ایک سخت لفظ ہے تو اسے مصلحت پسندی میں تبدیل کرلیں، تاہم یہ پہلو ان کی شخصیت کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔
سیاست صرف اقتدار کا نام ہی نہیں، یہ بھی نہیں کہ آپ رکنِ اسمبلی یا سینیٹر ہی ہوں تو سیاست میں زندہ رہ سکتے ہیں۔ سیاست میں زندہ رہنے کے لئے اصولوں پر کاربند رہنا ضروری ہوتا ہے۔
ان کا یہ کہنا سر آنکھوں پر کہ ’’آئین و قانون کی بالادستی کے لئے وہ مسلم لیگ (ن) کا ہر اول دستہ ہوں گے، ملکی تعمیر و ترقی کے لئے نواز شریف نے جو تاریخی کامیابیاں حاصل کی ہیں، وہ قابل ستائش ہیں۔
ملکی سلامتی اور سالمیت جمہوریت کی بالا دستی سے وابستہ ہے، اور اس کے لئے مَیں نواز شریف کے ساتھ ہوں‘‘۔ چلیں جی مان لیتے ہیں ان کے ارادے پُرعزم اور نیک ہیں، وہ واقعی ایک خاص سوچ کے ساتھ مسلم لیگ (ن) میں واپس آئے ہیں، اللہ کرے وہ اس پر قائم رہیں۔ نواز شریف نے جو راہ اختیار کی ہوئی ہے، وہ خاصی پُر خطر ہے۔
میاں صاحب خود کہہ چکے ہیں کہ وہ کشتیاں جلا کر نکلے ہیں۔ آگے کیا ہوتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا، مگر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ کوئی آسان راستہ نہیں، نا اہلی ختم ہونے کا امکان نہیں اور نیب کیسز بھی آگے بڑھ رہے ہیں۔
حالات کیا رخ اختیا کرتے ہیں، اس کا شاید خود میاں صاحب کو بھی کوئی اندازہ نہیں۔ ایسے میں مشاہد حسین سید نے ان کا ہراول دستہ بننے کا اعلان کیا ہے، تو بڑی بات ہے۔
مجھے تو اس سارے عمل میں ایک ہی اچھا پہلو نظر آرہا ہے کہ مشاہد حسین سید کے آنے سے مسلم لیگ (ن) کا موقف زیادہ بہتر اور جچے تلے انداز میں سامنے آئے گا، اسے طلال چودھری، دانیال عزیز اور نہال ہاشمی نے جو نقصان پہنچایا ہے۔
اگر مشاہد حسین سید اس کا ازالہ کرنے میں کامیاب رہے تو اس دور ابتلا میں نواز شریف کی سب سے بڑی مدد ہوگی۔