فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر352

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر352
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر352

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور میں چند بڑے فلم ساز ادارے تھے۔ ان کے اپنے سینما گھر تھے اور یہ فلموں کی تقسیم کاری کے فرائض بھی خود ہی سرانجام دیا کرتے تھے اس لئے یہ مالی اعتبار سے مضبوط و مستحکم تھے۔ لاہور فلمی مرکز بھی تھا اور فلموں کیلئے ایک نرسری کی حیثیت بھی رکھتا تھا۔ یہ شہر برّصغیر کے دوسرے شہروں کو ’’خام مال‘‘ یعنی فنکار‘ ہنر مند‘ موسیقار اور گلوکار فراہم کیا کرتا تھا۔ یہاں سے فلمی زندگی کا آ غاز کرنے والے فنکار کلکتہ اور بمبئی جا کر ممتاز اور اہم نام بن جایا کرتے تھے۔ ایک زمانے میں بمبئی اور کلکتہ کی فلمی صنعت پر پنجاب ہی کے لوگوں کا راج تھا۔
لاہور میں مصنّف‘ موسیقار‘ ہدایت کار اور کاریگر بھی موجود تھے جس کی وجہ سے اعلیٰ معیار کی فلمیں تخلیق کی جاتی تھیں۔ لاہور کی فلمیں پنجابی زبان میں بنائی جانے کے باوجود اپنے فن کاروں کی دلکشی‘ موسیقی کی کشش اور ہُنرمندی کے باعث سارے ہندوستان میں کامیابی سے ہم کنار ہوتی تھیں۔ پھر یہاں اردو فلمیں بھی بننی شروع ہو گئیں جو بہت معیاری تھیں لیکن قیام پاکستان کے بعد یہ صورتحال تبدیل ہو گئی۔ لاہور کے فلم ساز اور ہنر مندوں کی اکثریت ہندو تھی اور وہ تقسیم کے بعد لاہور سے ترک وطن کر گئے تھے۔ لاہور کے ممتاز فلم سٹوڈیوز فسادات کی نذر ہو کر جل چکے تھے۔ سرمایہ عنقا تھا۔ ان حالات میں محض فنکاروں اور چند ہنرمندوں کے بل بوتے پر فلمیں بنانا بہت مشکل کام تھا۔

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر351 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
قیام پاکستان کے بعد بمبئی کے ممتاز مسلمان فلم سازوں اور ہدایتکاروں نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ وہ اپنی سرگرمیاں پاکستان منتقل کرنا چاہتے تھے۔ ان میں محبوب خان اور اے آر کاردار جیسے کامیاب فلم ساز بھی شامل تھے۔ مگر ان لوگوں نے دیکھا کہ لاہور میں نگار خانے راکھ کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ ضروری سازوسامان کے علاوہ تربیت یافتہ اور کامیاب فنکار اور ہُنرمند بھی نہیں ہیں۔ سرمائے کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہے۔ ان حالات میں انہیں لاہور میں فلم سازی کا مستقبل بہت تاریک نظر آیا۔ وہ کراچی گئے تو وہاں بھی قیام پاکستان کے فوراً بعد افراتفری کا عالم تھا۔ سرمایہ تو لاہور کے مقابلے میں زیادہ تھا مگر سٹوڈیوز نام کی کوئی چیز موجود نہ تھی‘ نہ فنکار اور ہنرمند تھے۔ مختصر یہ کہ کراچی میں فلمی صنعت کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ان حالات میں ان لوگوں نے بمبئی میں فساد زدہ ماحول اور ہندوانہ تعصّب کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی کیونکہ ان کے خیال میں وہاں کم از کم فلم سازی تو ہو سکتی تھی۔
کراچی میں فلم سازی کے امکانات کے بارے میں ان کی رائے غلط بھی نہ تھی اور بعد ازاں یہ مشاہدہ بھی ہوا کہ قیام پاکستان کے بعد بھی کافی عرصے تک کراچی میں فلم سازی شروع نہ کی جا سکی حالانکہ وہاں سینما گھر موجود تھے۔ فلم تقسیم کار ادارے بھی تھے اور نت نئے خوبصورت اور شاندار سینما گھر بھی تعمیر کئے جا رہے تھے مگر یہ سب چیزیں بھارتی فلموں کے لئے مخصوص تھیں۔ بھارتی فلمیں اس زمانے میں کُھلے عام پاکستان آتی تھیں۔ فلم تقسیم کار اونے پونے ان کے حقوق خرید کر لاکھوں روپیہ کماتے تھے۔ سینما گھروں کی بھی موج تھی کیونکہ بمبئی کے ممتاز اور مقبول فن کاروں کی کامیاب فلمیں یہاں نمائش کیلئے پیش کی جاتی تھیں۔ یہ وہ حالات تھے جن کی بنا پر یہ طبقات بھارت سے بدستور فلموں کی درآمد کے حق میں تھے۔ پاکستان میں فلم سازی سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
ان حالات میں جبکہ اس ملک میں فلم بنانے ہی کے لالے پڑے ہوئے تھے‘ یہ کہاں ممکن تھا کہ کراچی میں نئے سرے سے فلمی صنعت کی بنیاد رکھنے کیلئے فلم اسٹوڈیوز تعمیر کئے جائیں۔ البتہ لاہور میں بنائی جانے والی فلموں کے لئے بیشتر سرمایہ کراچی ہی سے فراہم کیا جاتا تھا۔ کراچی کے فلم ڈسٹری بیوٹرز بھی لاہور کے تقسیم کاروں کے مقابلے میں زیادہ دولت مند اور باوسائل تھے۔ اس کے علاوہ بعض فلم سازوں نے انفرادی کوششوں سے بھی کراچی کے بعض سرمایہ کاروں سے فلم سازی کیلئے سرمایہ حاصل کیا لیکن بدقسمتی سے اس قسم کے بیشتر تجربات ناکام ہو گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جن لوگوں نے (چند کو چھوڑ کر) سرمایہ حاصل کیا تھا وہ فلم سازی کے رموز کا تجربہ نہیں رکھتے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب کراچی میں فلم سازی کا آغاز ہوا اور فلمی صنعت کا سنگ بنیاد رکھا گیا تو یہ سعادت کسی دولت مند سرمایہ دار یا بڑے تقسیم کار اور فلم ساز کے حصّے میں نہیں آئی تھی۔ اس کام کیلئے قرعۂ فال ایک ایسے شخص کے نام نکلا جو کوئی معروف شخص کبھی بھی نہیں تھا۔ نہ فنانسر تھا نہ فلم ساز و تقسیم کار تھا۔ یہ شخص بھی قیام پاکستان کے بعد اس ملک کی محبت میں بمبئی سے پاکستان آیا تھا اور کراچی میں قیام پذیر ہو گیا تھا۔ ان صاحب کا نام منوّر تھا۔ پورا نام تو خدا جانے کیا تھا مگر وہ اپنے حلقے میں منوّر چاچا کے نام سے مشہور تھے اور جگت چاچا تھے۔ بمبئی میں وہ باضابطہ طور پر فلمی صنعت سے وابستہ نہیں تھے لیکن فلم والوں سے ان کا میل جول اور دوستی کا رشتہ تھا۔
کراچی میں فلمی صنعت قائم کرنے کا خیال سب سے پہلے منوّر چاچا کو آیا تھا اور یہ سہرا ان ہی کے سر ہے۔ یہ اور بات ہے کہ آج پاکستان کی فلمی صنعت سے وابستہ لوگ اور خاص طور پر کراچی کی فلمی صنعت سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی اس حقیقت سے اور چاچا منوّر سے واقف نہیں ہیں۔ چاچا منوّر کی دلیل بہت ساد مگر موثر تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ بمبئی کی طرح کراچی بھی ایک صنعتی اور تجارتی شہر ہے۔ یہاں بھی سرمائے کی فراوانی ہے۔ بمبئی کے مانند یہاں بھی ساحل سمندر ہے، خوبصورت عمارتیں اور کشادہ سڑکیں ہیں۔ یہ بھی ایک کاسمپولیئن شہر ہے جہاں دنیا بھر سے سیّاح آتے ہیں۔ اس زمانے میں تو کراچی میں شراب خانے اور نائٹ کلب بھی تھے۔ اسی لئے مغربی سیّاح اس طرح کا رُخ کرتے تھے۔ کراچی کے ساحل پر سیاح خواتین اور مرد دھوپ میں پڑے اینڈتے رہتے تھے۔ اس کے بعد تاریخی مقامات دیکھنے کی غرض سے لاہور کا چکّر بھی لگا لیتے تھے۔
چاچا منوّر نے کہا ’’اگر یہ سب چیزیں کراچی میں بھی ہیں تو پھر یہاں فلمی صنعت کیوں نہیں ہے؟‘‘
جواب ملا ’’ اس لئے کہ یہاں فلم اسٹوڈیو تک نہیں ہے۔‘‘
بس پھر کیا تھا۔ چاچا منوّر کراچی میں فلمی نگار خانہ قائم کرنے کی کوشش میں لگے گئے۔ خود تو ان کے پاس سرمایہ تھا نہیں‘ انہوں نے اپنے ہی جیسے مہم جُو محبّ وطن دوستوں کو اکٹّھا کیا اور فلم اسٹوڈیو بنانے کی تیاریوں میں لگ گئے۔ ان کے ایک دوست ٹیلرماسٹر اے ایم قریشی تھے۔ ایک اور صاحب کا نام بخاری تھا۔ چاچا منوّر کی طرح ان دونوں کا بھی فلمی صنعت سے کوئی باقاعدہ اور باضابطہ تعلق نہیں تھا۔ بس ایک دُھن سوار تھی۔ انہوں نے گاندھی گارڈن کے سامنے ایک کھلا میدان فلم اسٹوڈیو تعمیر کرنے کے لئے حاصل کر لیا۔ یہاں باغ تھا جو برائے نام ہی تھا۔ سستا زمانہ تھا اس لئے زمین خریدنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئی۔ آج کل تو اس زمین کی قیمت کروڑوں میں ہے۔ اس جگہ اب یہ فلم اسٹوڈیو نہیں رہا۔ ایک نو منزلہ شاندار عمارت بن چکی ہے جو مسٹر حسین ڈی سلوا کی ملکیت ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعد میں مسٹر حسین ڈی سلوا نے بھی فلم سازی کے سلسلے میں سرمایہ کاری کی اور ایک فلم بنائی تھی جس کا نام ’’انتخاب‘‘ تھا۔ انتخاب کے ہدایت کار ہمایوں مرزا صاحب تھے۔ یہ ان کی بھی پہلی فلم تھی۔ ان دونوں کا ملاپ کچھ اس وجہ سے بھی ہو گیا تھا کہ حسین ڈی سلوا عمارتیں بناتے تھے اور ہمایوں مرزا ایک آرکیٹیکٹ تھے مگر فلمیں بنانے کا شوق رکھتے تھے۔ اس لئے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر فلمی صنعت سے وابستہ ہو گئے۔ ہمایوں مرزامرحوم نے پاکستان کے ممتاز فلم ساز اور ہدایت کار کی حیثیت سے ایک مخصوص مقام بنا لیا تھا۔(جاری ہے)

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر353پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں