سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 49

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 49
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 49

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دونوں کہنیاں تکیوں پر ٹیک کر بیٹھ گئے،بڑے بڑے قاہربادشاہوں کی فوجوں میں ہلچل ڈال دینے والی آواز بلند ہوئی ۔
’’بوڑھے اور مسافر اسقف ہمارے دل نے ایسی خواہش کو بازیاب نہیں کیا جس کی تکمیل ہمارے حضور سے دست بستہ نہ گزری ہو۔ دنیانے کوئی نعمت ابھی تک ایسی پیدا نہیں کی جو ہمارے غلاموں کی دسترس سے دوررہ سکی ہو۔تا ہم ان بیمار آنکھوں نے ایک خواب ایسا بھی دیکھا تھا جس کی تعبیر نصیب نہ ہو سکی۔اس لئے اس کی تعبیر قضاوقدر کے حکم کی محتاج ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ قضا وقدر کے معاملات خاکی انسانوں کے کو تاہ ہاتھوں سے پرے ہیں۔

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 48 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سلطان تھوڑی دیر کیلئے خاموش ہو گئے ۔سارے دربار پر سناٹا چھاگیا۔سانسوں کی آوازیں اس کی سکوت میں مخل نہ ہو سکتی تھیں۔پھر اسی طرح خلا میں گھورتے ہوئے فرمایا۔
’’ہم نے چاہا تھا کہ مسجد اقصیٰ کے کلس ہمارے سامنے ہوں ۔محمدی پرچم کا مقدس سایہ ہمارا سرپر ہو،ہماراکفن ہمارے خون سے گل کار ہو چکا ہو۔ہم گھوڑے پر سوار سرخ تلوار علم کئے جنگِ سلطانی لڑ رہے ہوں۔اس گھڑی جس گھڑی ہمارا سپہ سالا ر ہمیں فتح کی بشارت دے ہم جان جان آفرین کو سپرد کر دیں اور شہید کہلائیں۔ ہوا یہ کہ بیمار کسانوں اور نامراد چرواہوں کی طرح اس بسترِ مرگ پر ایڑیاں رگڑتے ہوئے ہم موت کا انتظار کر رہے ہیں۔
معلوم نہیں ہوا کہ وہ کونسی خطا سر زد ہوئی جس کی پادا ش میں اس شخص کو یہ موت دی گئی جو چھبیس برس تک دشمن کی صفوں میں شہادت ڈھونڈ تا پھراہو۔‘‘
سلطان نے گردن گھمائی،اسقف کی مرغوب آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرشاہانہ جلال سے فرمایا ’’جس یورپ کے پانچ بادشاہوں کی لاکھوں تلواریں ہماری ایک خواہش کو پورا نہ کر سکیں اس کے ایک بوڑھے پادری سے ہم کیا مانگیں‘‘پھر کہا
’’نائب السلطنت ‘‘
’’دین پناہ‘‘
’’جب تک یہ سلطنت ایوبی کی حدود میں،میں ہمارے مہمان ہیں‘‘اور سلطان نے اپنا داہنا ہاتھ بڑھا دیا۔
رعب سلطانی سے بدحواس اسقف نے دونوں ہاتھوں سے دستِ مبارکہ کو تھام لیا۔گھٹنوں پر گر کر بوسہ دیا۔آنکھیں ملیں اور لزرتی ٹانگوں پر کھڑے ہو کر الٹے قدموں واپس ہونے لگا۔پھر تنفس کا حجم بڑھ گیا۔وہ تکان سے نڈھال ہونے لگا۔عادل دیوان شاہی کی طرف جھکے تو حکم ملا۔
’’تلوار ہمارے پہلو میں رکھ دواور تخلیہ کرو‘‘
شاہزادہ عزیز نے دونوں ہاتھوں سے تلوار اٹھاکر داہنے پہلو میں رکھ دی اورالٹے پیروں واپس چلے گئے۔چشم زردن میں تمام دروں کے مخملیں پر دے کھول گئے۔مشرقی محراب کا پردہ جب کھلنے لگا تو دست مبارک نے منع کر دیا۔خلوتِ شاہی مکمل ہو گئی ۔صدری کی جیب سے انھوں نے ایلینور کاخط نکالا۔گردن کا زاویہ بدل کر ہلکے زرد رنگ کے کاغذ کو اپنی آنکھوں کے سامنے کر لیا۔کمزور جسم کی آنکھوں پر میلی روشنی میں زور پڑا تو دھند لا گئیں۔الفاظ کی صورتیں بگڑ گئیں۔انھوں نے ایک ایک لفظ اپنی یاداشت کے سہارے پڑھ لیا۔کانپتے ہاتھوں سے خط کو اسکے طول سے موڑا۔تلوار کو بے نیام کیا۔کاغذ کی لمبی پتلی سی چٹ کو نیام میں ڈال کر تلوار نیام کر دی۔تالی بجانے کیلئے ہاتھ اٹھائے تو سامنے کا پردہ ہٹا کر ایلینیور آگئی۔سر سے پاؤں تک بے شکن سیاہ لباس میں ملبوس،ننگے سر اور ننگے پاؤں آئی اور صلیب بنا کر گھٹنوں پر گر گئی،سرخ بال سفید ہو گئے تھے۔نیلی آنکھیں بے نور ہو چکی تھیں۔چہرہ جھریوں سے لبریز تھا۔ہاتھوں کی سفید کھال نے گوشت کو چھوڑ دیا تھا۔وہ ارسوف کی پہاڑیوں پر مقیم اپنی بارگاہ میں بیٹھے صلیبیوں کی پیش قدمی کا انتظار کر رہے تھے۔قاضی بہارالدین قراولوں کے پرچے پڑھ رہے تھے اور وہ سامنے رکھے ہوئے نقشے پر دشمن کی نقل و حرکت کے نشانات دیکھ رہے تھے کہ سر پردۂ خاص کے دروازے پر کوئی بوڑھی عورت رونے لگی،فریادیں کرنے لگی جسے پہرے دار اسے روک رہے ہوں اور وہ حضوری کیلئے گڑگڑارہی ہو،وہ مظلوم بڑھانے کی آہ و فریاد سے بے قرار ہو گئے،حکم دیا کہ عورت کو سامنے لایا جائے،وہ میلاکچیلا سیاہ لباس پہنے تھی۔زخمی پیروں سے خون رس رہا تھا۔شانوں پرمیلے کچیلے سن کی موٹی پتلی رسیوں کی طرح بال جھول رہے تھے۔شدید سردی میں خشک پتے کی طرح کانپ رہی تھی اور آنسوؤں نے اس کے چہرے کو بھگودیاتھا۔وہ آتے ہی آتے تخت کے سامنے اوندھی گر پڑی اور رو رو کر رحم کی بھیک مانگنے لگی۔اشارہ کیا۔اسے موٹے کمبلوں میں لپیٹ دیا گیا۔انگیٹھیوں کے سامنے بیٹھا یا گیا۔اونٹ کے گرم گرم دودھ کا پیالہ پیش کیا گیا۔جب اس کے ہوش بجا ہو ئے تو اس نے عرض کیا۔
’’شہنشاہا ! میرا ایک بیٹا ہے ۔دس ہیں نہ پانچ،دو ہیں نہ چار۔وہ لو گوں کے بہلانے پھسلانے میںآ کر فوج میں بھرتی ہو گیااور طبقہ الداویہ کے سواروں کے ساتھ گرفتار ہو گیا۔‘‘
’’کہاں گرفتار ہوا؟‘‘
’’عکہ پر،شہنشاہ! عکہ پر گرفتارہو گیا۔۔۔دو برس ہو رہے ہیں کہ چپہ چپیہ کو نا کونا ڈھونڈتی پھر رہی ہوں! آہ القدس پر رحمت کے بادل کی طرح برسنے والے مجھ بڑھیا پر رحم کر۔عمر بھر دعائیں دوں گی‘‘
اس سے زیادہ وہ نہ سن سکا۔ناقابلِ بیان سردی میں اٹھ کھڑا ہوا۔فرغل پر طریوش پہن لیا اور تلوار اٹھا لی اور بڑھیا کو اپنے ساتھ لے کر خیمے سے نکلا۔امراء کو طلب کیا۔قیدیوں کو حاضر کئے جانے کا حکم دیا اور بڑھیا اپنے بیٹے کو دیکھتے ہی چیخ مار کر اس سے لپٹ گئی۔دونوں کو ایک دن مہمان رکھ کر جوڑے اور گھوڑے عطا کئے،سفر خرچ دے کر رخصت کیا۔
’’ہم کو اگر کسی عورت پر رشک آیا ہے تو یہی بڑھیاہے۔۔۔بادشاہوں کے بادشاہ‘‘
ایلینورنے تصوّر سے نکل کر ان کے کان میں جھک کر عرض کیا۔
انھوں نے تکلیف سے کراہ کر کروٹ لی۔
ایلنیور آہستہ آہستہ آئی اور دیوان کے سامنے دوزانو بیٹھ گئی۔
’’یوسف! اگر تمہاری تقدیر نے یاوری نہ کی ہوتی اور بادشاہوں کی بادشاہی نصیب نہ ہوئی ہوتی اور تم صلیبیوں کے ہاتھ غلام ہو گئے ہوتے اور رسیوں میں بندھے جانوروں کی طرح ہمارے حضور میں پیش کئے گئے ہوتے تو مسیح کی قسم ہم تمہارا ایسا استقبال کرتے کہ صدیوں تک تمہارا خاندان تمہارے نام پر فخرکرتا اور ہماری سخاوت کے افسانے سناتاتھا‘‘
’’ہم بیمار ہیں الینیور‘‘
’’بیمار؟تم تو کہا کرتے تھے کہ جب ہم جہاد کیلئے گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں تو مرض گردن سے اتر کر ہماری رکاب تھام لیتا ہے‘‘
’’اگر تم کہوتو رچرڈ کی رہائی کیلئے سفارت روانہ کر دیں‘‘
’’لیکن ایلینیور! ہمیں یقین ہے کہ ہماری سفارت سے پہلے ہماری بیماری کی خبر پہنچ جائے گی اور شکست خوردہ بادشاہ سفیروں کو گرفتارکر لے گااوراسلامیوں کی ہیبت کو نقصان پہنچے گا‘‘
’’اسلامیوں کی ذلت کے جھوٹے وہم پر ایک مجبوری بوڑھی عورت کے جوان قید بیٹے کی جان اور ابرو کو قربان کر دینے والے نائٹ،ایلنیور کا سلام لے‘‘
اور وہ پردہ اٹھا کر باہر نکل گئی۔(جاری ہے )

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 50 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں