بلوچستان میں سرکارداڑھی کے پیچھے پڑ گئی
’’جو شخص داڑھی رکھنا چاہتا ہے وہ رکھے اور جو شیو کرنا چاہتا ہے کرے مگر داڑھی کے ڈیزائن نہ بنائے جائیں کیونکہ یہ عمل توہین مذہب کے زمرے میں آتا ہے‘‘ یہ وہ باتیں ہیں جن کا ان دنوں بلوچستان میں ہر جگہچرچا ہورہا ہے۔ گزشتہ سال بھی اوراس سال بھی بعض اضلاع میں سرکاری طور پر حجاموں کو تنبیہ کی گئی تھی کہ وہ داڑھی کے جدیدانداز بنانے سے گریز کریں۔اس پر لوگ حیران ہوئے کہ سرکاری مشنری کو داڑھی کے ڈیزائن بنوانے پر اعتراض کیونکر ہے۔دالبندین کے اسسٹنٹ کمشنر نے اس ضمن میں ایک لیٹر جاری کیا تھا جس پر انہیں کافی تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا جس پر یہ آرڈر ختم کردیا گیا لیکن اپنے پیچھے یہ نشان چھوڑ گیا ہے کہ انہوں نے یہ قدم کیوں اٹھایا ۔اگر ان کا پہلا قدم ٹھیک تھا تو پھر یہ حکم واپس کیوں لیا گیا؟ کیا انہیں نہیں معلوم تھا کہ بلوچستان میں داڑھی کے ڈیزائن بہت پرانے وقتوں سے رکھے جارہے ہیں۔ بیشتر سرداروں نے داڑھی سجا کر رکھی ہوتی ہے ۔اکثر بلوچ سرداروں نے پگڑی کو سر پہ سجایا تو داڑھی کوبھی خوبصورت انداز سے سنوارا،یہ معمول اب بھی ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ فیشن ہر جگہ پہنچ ہی جاتا ہے اور روایات اور ثقافت پر اپنی چھاپ لگا دیتا ہیجیسا کہ داڑھی کا فیشن ہے۔ حجاموں نے داڑھی کو ترقی یافتہ دور میں شامل کر لیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ جب بلوچ قوم داڑھی پر ہاتھ رکھ کر کچھ بھی وعدہ کرتا تھا توپھر اس کو پورا کرنا لازم و ملزوم ہوتا تھا۔یہ پتھر پر کھینچی ہوئی لکیرہوتی۔ بلوچوں کو اپنی داڑھی بڑی عزیز ہے۔وہ آج بھی اسکی حرمت قائم رکھے ہوئے ہیں۔اپنی داڑھی کو بڑھانا اور سجانا ان کا مشغلہ بھی ہے۔
گزشتہ ہفتے صوبہ بلوچستان کے شہر گوادر کے علاقے اوڑماڑہ میں ڈیزائن والی داڑھیوں پر پابندی عائد کردی گئی تھی اور اعتراض اٹھایا گیا تھا کہ حجام داڑھیوں کے ڈیزائن بنانا چھوڑ دیں۔یہ سراسر اسلامی شریعت کی خلاف ورزی ہے اور اس عمل کو توہین مذہب کے زمرے میں آنا چاہیے۔ اوڑماڑہ کے بعد خاران میں بھی داڑھی کے ڈیزائن بنانے پر پابندی عائد کردی گئی ۔ اس حکم کی رو سے حجاموں کو تاکید کی گئی کہ وہ سادہ داڑھی بنائیں اور ڈیزائن نہ بنائیں ۔خلاف ورزی پر سخت جرمانہ عائد کیا جائے گا، جرمانے سے بچنے کیلئے حجاموں نے داڑھی بنانا ہی بند کر دیا ۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔