افغان امریکہ امن معاہدہ سے پر تشدد ماحول کا خاتمہ ممکن

افغان امریکہ امن معاہدہ سے پر تشدد ماحول کا خاتمہ ممکن
 افغان امریکہ امن معاہدہ سے پر تشدد ماحول کا خاتمہ ممکن

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے طالبان سے امن معاہدے سے قبل قابل ثبوت سیز فائر کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان سے امن معاہدے کے قریب ہیں تاہم اتنے قریب ہونے کے باوجود یہ معاہدہ اس لئے نہیں ہورہا کہ طالبان اپنی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کررہے۔ ابھی مزید کرم کرنا باقی ہے تاکہ امن مذاکرات دوبارہ شروع کیے جاسکیں۔ افغانستان میں تشدد کا خاتمہ ہی امن معاہدے اور امریکی قوم کے انخلاء کی طرف رہنمائی کرسکتا ہے۔ہم امن معاہدے کیلئے مثبت پیش رفت اور معاہدہ طے پانے کے حوالے سے پر امید ہیں۔


اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افغان مذاکرات کو معطل کرنے کے اعلان کے بعداب پھر امریکی خواہش پر ہی مذاکراتی عمل کا دوبارہ آغاز ہوگیا ہے۔اس سلسلے میں حال ہی میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والا امن معاہدہ حتمی مرحلے میں داخل ہو گیا اور طالبان کونسل نے معاہدے پر دستخط کے لیے عارضی جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔


امن معاہدہ میں جنگ بندی اولین ترجیح ہے جب تک جنگ بندی نہیں ہوگی تو مذاکرات کیسے ہو سکتے ہیں۔ یہ جنگ بندی جنوری کے شروع میں نافذالعمل ہو گی۔ اس کے بعد ہی انٹرا افغان مذاکرات شروع ہو سکتے ہیں۔خوش آئند بات یہ ہے کہ طالبان بھی افغانستان میں عارضی جنگ بندی معاہدے پر رضامند ہو گئے ہیں۔ اس دوران امریکا کیساتھ امن معاہدے پر دستخط کا بھی امکان ہے۔ اصل میں امریکہ طالبان سے یہ یقین دہانی چاہتا ہے کہ امریکی افواج کی واپس کے بعد افغانستان میں دہشت گرد گروپس نہ ہی جنم لیں گے اور نہ ہی واپس آئیں گے۔ جنوبی ایشیائی خطے میں افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہوگی۔ دیکھا جائے تو امن مذاکرات کے چار اہم نکات ہیں جن میں جنگ بندی، افغان حکومت اور طالبا ن کے درمیان مذاکرات، امریکی فو ج کا انخلا اور افغان سرزمین کا دہشتگرد کارروائیوں کیلئے استعمال نہ ہونا شامل ہے۔


اس سلسلے میں ایک اور قدم بھی اٹھایا گیا ہے کہ امریکہ اور افغانستان میں قید طالبان اور کابل حکومت کے بعض قائدین کی رہائی عمل میں لائی گئی ہے۔ جیسے کہ حال ہی میں امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد نے اہم بیان میں کہا تھا کہ پاکستان نے افغان لیڈر ملا برادر عبدالغنی کو امریکا کی درخواست پر رہا کیا تھا تاکہ افغان امن مذاکرات کو تیز کرنے میں مدد مل سکے۔ دوحہ میں مذاکرات دو ہفتے جاری رہنے کا امکان ہے۔ مذاکرات کے آخری دور میں عارضی جنگ بندی کی تجویز امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے دی۔اس بات پر طالبان کا مطالبہ تھا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ہمارے زیرکنٹرول علاقے سے امریکہ اور دوسرے ممالک پر دہشت گردانہ حملے نہ ہوں، بدلے میں امریکہ اور اتحادی فوجی افغانستان سے مکمل انخلاء کو یقینی بنائیں گے۔


امریکا افغانستان میں 17 برسوں سے جاری جنگ میں بری طرح شکست کھانے کے بعد اب اس ملک سے دامن بچا کر باہر نکلنا چاہتا ہے جس کے لیے افغان طالبان کے ساتھ قطر میں مذاکرات کا عمل شروع کیا گیا تھا جس کے دوران فریقین نے افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا پراتفاق کیا تھا۔ امریکہ افغانستان میں طاقت کے استعمال سے وہ نتائج حاصل نہیں کر سکا جو چاہتا تھا۔ کیونکہ طاقت کے بے جا استعمال سے نہ تو اس کا اپنا تسلط قائم ہو سکا نہ افغان انتظامیہ کے قدم جم سکے اور نہ ہی وہ افغانستان جیسے پسماندہ ملک میں فتح کا اعلان کر سکا۔ پاکستان ہمیشہ سے یہ کہتا رہا ہے کہ اگر امریکہ افغانستان کے مسئلہ کا حل چاہتا ہے تو طاقت کے بجائے مفاہمتی عمل آگے بڑھائے۔ اتنے ڈالر، فوجی گنوا کر اب امریکہ کو ہوش آیا ہے کہ افغانستان میں امن ضروری ہے اور وہ صرف مذاکرات سے ممکن ہے، طاقت سے نہیں۔


مذاکرات کیلئے پاکستان کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ طالبان بھی پاکستان کو اپنا بڑ ا بھائی، نمائندہ جانتے ہیں۔ لہذا امریکہ نے پاکستان سے درخواست کی کہ افغانستان میں قیام امن کیلئے پاکستان اپنا کردار ادا کرے۔ پاکستان اس وقت اس پوزیشن میں ہے کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لا سکتا ہے لیکن اس کیلئے ضروری ہوگا کہ افغانستان میں کٹھ پتلی حکومتوں سے نجات ملے اور امریکی افواج کا انخلا کیا جائے کیونکہ طالبان کابل حکومت کو مذاکرات میں شریک نہیں کرنا چاہتے۔ وہ براہ راست امریکہ سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔


مذاکرات میں جنگ بندی اور چار نکات پر متفق ہونا بڑی بات ہے۔ ان میں سے ایک نقطہ براہ راست پاکستان سے متعلق ہے۔ کیونکہ پاکستان میں دہشت گردی ہمیشہ افغانستان سے آئی۔ چاہے اس سے پیچھے بھارتی را تھی یا افغانی این ڈی ایس بہرحال ہمارے ہاں ہونے والی دہشت گردی کی بڑی وارداتوں میں افغانستان کے ملوث ہونے کے ثبوت ملے جن کو افغان حکومت کے ساتھ شیئر بھی کیا گیا مگر اس پر کوئی مثبت ردعمل سامنے نہیں آیا۔ بھارت افغان سرزمین افغان حکمرانوں کے ذاتی مقاصد اور مفادات کی بجاآوری کے باعث پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال کرتا آیا ہے۔ اب اگر افغان امن عمل خوش اسلوبی سے منطقی انجام کو پہنچتا ہے تو بھارت کا افغانستان سے عمل دخل ختم ہونے کے باعث پاکستان مزید محفوظ ہو سکتا ہے۔


یہ طالبان اور افغان حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سرزمین دوسروں کے ہاں دہشت گردی کیلئے استعمال نہ ہونے دیں۔ غیر وں کو اپنی سرزمین پر راج نہ کرنے دیں۔ تاکہ ان کے یہاں بھی امن رہے اور خطہ بھی پرامن رہے۔ طالبان کیلئے ایسی یقین دہانی کرانا اور اس پر عمل کرنا بھی مشکل نہیں ہوگا۔ افغانستان میں داعش کچھ عرصہ سے سرگرم ہے جو طالبان کے بھی بالمقابل آنے کیلئے کوشاں ہے۔ دہشت گردوں کی بیخ کنی خود طالبان کے مفاد میں ہے۔ لہٰذا طالبان کیلئے اس حوالے سے یقین دلانا چنداں مشکل نہیں ہے۔


بالفرض امریکہ حالات جوں کے توں چھوڑ کر افغانستان سے نکل جاتا ہے جیسا کہ ماضی میں کیا تھا تو افغانستان میں ایک بار پھر خانہ جنگی کا دور دورہ ہوگا اور حکمرانوں کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ امریکہ اب ایسی غلطی نہیں دہرانا چاہتا۔لیکن امریکہ اور طالبان کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ افغان انتظامیہ بھارت کے مابین گٹھ جوڑ موجود ہے۔ دونوں امریکہ طالبان مذاکرات کی کامیابی سے نالاں اور انہیں سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن سازش کرینگے۔ادھر افغان حکومت کا بھی کہنا ہے کہ امریکی افواج کے انخلا سے ملکی سکیورٹی پر کوئی منفی اثرات نہیں پڑیں گے کیونکہ ملک کی سلامتی کی زیادہ تر ذمہ داریاں اب مقامی سکیورٹی دستے ہی سنبھالے ہوئے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -