کچھ یادیں کچھ باتیں   (4)

کچھ یادیں کچھ باتیں   (4)
کچھ یادیں کچھ باتیں   (4)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


آپ بھی سوچیں گے کہ ملک امیر محمد خان کا تذکرہ چھوڑ کر کہاں جا نکلا - معاف کیجئے گا! بتانا یہ مقصود ہے کہ بْرائی کو اگر کْچلا نہ جائے اور پھولنے پھلنے دیا جائے تو پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو ہمارے یہاں ہوا اور ہورہا ہے- بھوسہ جب بکھر جائے تو پھر اسے سمیٹنا ممکن نہیں رہتا۔
ملک امیر محمد خان جن کا کہا قانون کا درجہ رکھتا تھا، نے 1966 میں گورنری کو یہ محسوس کرتے ہوئے خیرباد کہا کہ وہ صدر کا اعتماد کھو رہے ہیں مگر  گھر جانے سے پہلے وہ روایتی رکھ رکھاؤ کا مظاہرہ کرتے ہوئے بذریعہ کار راولپنڈی آئے - صدر ایوب کے ساتھ ظہرانہ کیا اور خوشگوار ماحول میں کالا باغ روانہ ہوگئے-
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رْت ہی بدل گئی


نواب صاحب، ایوب خان کے وفادار، خیر خواہ اور واحد شخصیت تھے جنہوں نے صدر کو اْنکی فیملی کرپشن کے بارے میں بتایا جس پر ایوب خان نے کہا کہ ”کیا میرے بیٹوں کو اس ملک میں رہنے کا حق نہیں؟ ملک صاحب خاموش ہوگئے مگر بعد میں جھنجھلاہٹ میں یہ کہا کہ ایوب خان کے زوال میں تیزی کا ذمہ دار اْن کا اپنا بیٹا ہوگا۔ 
”ملک صاحب کنونشن مسلم لیگ سے بھی الگ تھلگ رہے اور یہ کہتے ہوئے بھی سْنے گئے کہ ایوب خان کے احمق مشاورین اْن کے زوال کے ذمہ دار ہیں“۔
مسلم لیگ کو سیاسی ضرورت کے تحت“کنونشن”کا لبادہ اوڑھا کر بنیادی جمہوریت کی فصل بوئی گئی اور صدارتی انتخاب کے لئے حقِ رائے دہی  80ہزار منتخب شدہ اراکین (40 ہزار مشرقی پاکستان اور 40 ہزار مغربی پاکستان) کو منتقل کر دیا گیا۔ اْس وقت ملک کی آبادی دس کروڑ تھی۔


 یاد آیا کہ ال جمیعتِ سرحد، پشاور کے ایڈیٹر، سید محمدحسن گیلانی مرحوم نے ایک مرتبہ جشنِ چترال کا ذکر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ایک تقریب کے دوران جب چند بچیاں روایتی رقص پیش کرنے کے لئے  سٹیج کے سامنے آئیں تو گورنر ملک امیر محمد خان نے فوراً پوچھا کہ یہ کیوں آئی ہیں؟ 
اْنہیں بتایا گیا کہ یہ آپ کو سلام کرنے کے لئے حاضر ہوئی ہیں - ملک صاحب نے فرمایا ”انہیں بتایا جائے کہ بیٹیاں باپ کے سامنے ناچا نہیں کرتیں“- اب کہاں ایسے کوہِ گراں؟(جاری ہے)

مزید :

رائے -کالم -