خوب گزرے گی، جو مل بیٹھیں گے؟

 خوب گزرے گی، جو مل بیٹھیں گے؟
 خوب گزرے گی، جو مل بیٹھیں گے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


موسم کی غیر یقینی صورت حال جاری  ہے۔ ابھی گزشتہ روز یہ احساس ہو رہا تھا کہ اب سردی اپنا جوبن دکھا چکی اور فضا میں جو خوشگوارکیفیت پیدا ہوئی، وہ اب برقرار رہے گی اور جلد ہی بہار کا لطف محسوس ہوگا کہ اب پھول کھلنے کا وقت آ ہی گیا اور حالیہ بارشوں کی وجہ سے پتے بھی دھل گئے۔ البتہ ہم بڑے شہر والوں کی یہ قسمت کہ بارش آئی۔ پتے دھل گئے، جونہی سلسلہ رکا، گرد اور دھواں پھر سے سبزے کو لپیٹ میں لے لیتا ہے۔آج صبح جب خبریں دیکھیں اور سنیں تو معلوم ہوا کہ ملک کے بیشتر شمالی اور وسطیٰ حصوں میں زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوئے۔ اس کا مرکز کوہ ہندوکش اور گہرائی 120کلومیٹر بتانے کے بعد یہ بھی بتا دیا گیا کہ زلزلے کی شدت ریکٹر سکیل پر 5.9ریکارڈ ہوئی، تاحال کسی نقصان کی تو اطلاع نہیں کہ معاملہ 5.9تک رہا، اگر یہ 6.00تک پہنچ جاتا یا زیادہ شدت ہوتی تو نقصان کی اطلاعات بھی ساتھ ہی نشر ہو جاتیں، اللہ سے خیریت کی دعا ہے۔ زلزلے کی اطلاع سے ایک بار پھر دل دہل گئے اور بے ساختہ استغفار کا ورد شروع ہو گیا کہ بالآخر اس زمین نے بھی تو ریزہ ریزہ ہونا ہے اور لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ قیامت تو آنا ہی ہے اور اس حوالے سے پیشگی اطلاع موجود ہے۔


موسم کی غیر یقینی جیسی صورت حال ملکی سیاست کی بھی ہے۔ خبر یہ ہے کہ قائد حزب اختلاف میاں محمد شہباز شریف نے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو ظہرانے پر مدعو کیا اور وہ اس دعوت میں گئے، جہاں دونوں بڑی جماعتوں کے رہنماؤں نے حالات حاضرہ کی روشنی میں تبادلہ خیال کیا، اب یہاں سے قیاس آرائیوں کے گھوڑے بھی دوڑ رہے ہیں اور یار لوگ مزے مزے کی خبریں پیش کرتے چلے جا رہے ہیں اور یہ سلسلہ رکنے والا نہیں، مزید چلتا رہے گا، حالانکہ اس ملاقات کو معمول کی سیاسی ملاقات بھی تصور کیا جا سکتا ہے، لیکن سٹیٹ بینک آف پاکستان کے بل کی سینٹ سے منظوری اور اس پر لے دے کی وجہ سے اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ یوں بھی لانگ مارچ کے حوالے سے پیپلزپارٹی کا اپنا پروگرام ہے، اسی ماہ کی 27تاریخ کو کراچی سے روانہ ہو کر اسلام آباد پہنچے گا جبکہ پی ڈی ایم کا فیصلہ 23مارچ کا ہے کہ اس روز پی ڈی ایم کی ریلی اسلام آباد پہنچے گی۔ ہر دو لانگ مارچ میں جو فرق ہے، وہ بھی دلچسپ ہے، مقصد جو بتایا جا رہا ہے، وہ موجودہ حکومت سے نجات ہے۔ لانگ مارچ پیپلزپارٹی کا ہو یا پی ڈی ایم کا، ہر دو کے حوالے سے یہی کہا جا رہا ہے کہ اس سے حکومت چلے جائے گی۔ اب یہ ایک قدرتی امر ہے کہ اگر مقصد ایک ہے تو پھر جدوجہد الگ الگ کیوں؟ اور گزشتہ روز کی ملاقات میں اس پر بھی بات ضرور ہوئی ہوگی۔ میری اطلاع یا سوچ کے مطابق دونوں رہنماؤں کے درمیان ایک مارچ کا فیصلہ تو نہیں ہو سکا، لیکن یہ یقینا طے پا گیا ہے کہ ایک دوسرے کی ٹانگ نہیں کھینچیں گے اور ایک مقصد کے لئے اپنی اپنی جدوجہد بھی جاری رکھیں گے۔ دونوں جماعتوں (پیپلزپارٹی + مسلم لیگ (ن)) کے درمیان قومی اسمبلی کی سطح پر تعاون کا سلسلہ جاری ہے، اسے سیاست کے دوسرے شعبوں تک لانا یا توسیع دینا ہی اس ملاقات کا مقصد تھا اور برف بھی پگھلی ہے جو حزب اختلاف کی آئندہ سیاست کے لئے مفید ہوگی۔


مجھے سابقہ ادوار یاد آ رہے ہیں، جب سیاسی جماعتیں ایسے ہی حالات سے دوچار رہیں، جنرل ایوب خان کے خلاف بھی تحریک مشترکہ نہیں تھی، سیاسی جماعتیں مل کر چل رہی تھیں تو ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی نوزائیدہ جماعت کے ساتھ احتجاج کا سلسلہ الگ سے شروع کر رکھا تھا اور اس وقت ان کے تھیلے میں (بقول، حریف سیاستدان حضرات) تاشقند کی بلی تھی، بہرحال جب ذوالفقار علی بھٹو گرفتار کر لئے گئے تو اصغر خان صاحب نے بڑھ کر تحریک کا پرچم تھام لیا تھا، اس کے باوجود ہر دو نے الگ الگ ہی تحریک جاری رکھی تھی، تاہم بعد کے ادوار میں صورت حال تبدیل بھی ہوتی رہی، جو سلسلہ  1965ء میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی حمائت کے حوالے سے شروع ہوا تھا اس میں توسیع ہوتی رہی تھی، نوابزادہ نصراللہ خان (مرحوم) کا یہ کریڈٹ ہے کہ انہوں نے کئی سیاسی اتحاد بنائے اور ایوب خان سے یحییٰ خان اور پھر ذوالفقار علی بھٹو سے جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف تک کے خلاف تحریکوں کا سلسلہ بنا، یہ میرا تجربہ ہے کہ ہر بار ہم جیسے ”باخبر“ رپورٹر بھی جھانسے میں آتے رہے اور اتحادی جماعتوں کے حوالے سے اختلافات کی خبریں چلاتے رہے، تاہم ہوتا یوں تھا کہ اچانک ہی نام کی تبدیلی کے بعد نیا اتحاد وجود میں آ جاتا اور حیرت انگیز طور پر حریف جماعتیں بھی اس کا حصہ ہوتیں، یہ نوابزادہ نصراللہ خان ہی کا کریڈٹ ہے کہ کوہالہ کے پل پر بھٹو کو پھانسی لگانے کا اعلان کرنے والے ایئرمارشل اصغر خان اسی بھٹو کی صاحبزادی کے ساتھ ضیاء الحق مخالف اتحاد میں اکھٹے ہوئے اور یہ بھی نوابزادہ مرحوم ہی کی کاوش تھی کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) بھی ایک سیاسی اتحاد میں ایک ہی پلیٹ فارم پر آ گئیں۔ آج کے اس دور میں اگر باباء اتحاد زندہ ہوتے تو اب تک اتحاد بھی بن چکا ہوتا اور جدوجہد کا رنگ بھی مختلف ہوتا۔


محترم مولانا فضل الرحمن نے اپنے مرحوم والد محترم مولانا مفتی محمود اور پھر ان کے بعد نہ صرف سیاست میں بہت وقت نوابزادہ نصراللہ خان کے ساتھ گزارا بلکہ حزب اختلاف کی جدوجہد میں  بھی شریک رہے کہ والد محترم کے بھی تو قائمقام ہیں اور نوابزادہ سے قربت بھی رہی، چنانچہ جب انہوں نے حکومت مخالف اتحاد کی کوشش کی اور پیپلزپارٹی نے ان کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر پی ڈی ایم بنا لی تو یہ بات عام تھی کہ مولانا مرحوم نوابزادہ نصراللہ کے نقش قدم پر ہیں، لیکن وہ بگڑتے معاملات سنبھال نہ پائے۔ شاید ان میں اتنا تحمل اور برداشت نہیں جو مرحوم نوابزادہ کی صفت تھی چنانچہ پیپلزپارٹی تب سے الگ ہے اور اب تک بات نہیں بن پائی۔ اب آگے دیکھئے کیا ہوتا ہے۔


بات کچھ تمہید طولانی والی ہو گئی، لیکن مجبوری ہے کہ اس کے بغیر میں شاید حالیہ اس اہم ملاقات کے مقصد سے آگاہ نہ کر پاتا، حالات نے ثابت کر دیا کہ شیخ رشید اور فواد چودھری کی بات درست اور نظر بظاہر حکومت کو کوئی خطرہ نہیں اور اپوزیشن جماعتیں خود اپنے عمل کی وجہ سے وہ کچھ نہیں کر سکیں، جس کی توقع ان کے حامی ان سے رکھتے ہیں، جبکہ سینیٹ اور اس سے پہلے قومی اسمبلی میں ہونے والی کارروائی سے یہ اندازہ ہوا کہ حکمران جماعت "Comfortable" ہے اور اسے کوئی خطرہ نہیں اور شاید اسی زعم میں اس کی طرف سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو ہدف بنا لیا گیا کہ دفاع سے حملہ بہتر ثابت ہوتا ہے۔ ابھی تک حکمران جماعت اپنے ہر مقصد میں کامیاب رہی اور مخالف جماعتیں دعوے کرکے بھی کچھ نہیں بگاڑ سکیں، لہٰذا اس پورے پس منظر میں اس ملاقات کا جائزہ لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے اور اب ہر دو جماعتوں کو یہ احساس ہو چکا ہو گا کہ اکیلے اکیلے مار لئے جائیں گے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ایک ہوتے ہوئے بھی یہ جماعتیں کوئی مشترکہ کارنامہ انجام نہیں دے سکیں۔ یقینا دونوں رہنماؤں نے اس کمی پر غور کیا ہوگا، یوں بھی دونوں کے نظریات ملتے جلتے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -