بہتر ہے یہی تلخیٔ ماضی کو بھلادے۔۔۔ میں تُجھ کو دعا دیتا ہوں، تومجھ کو دعا دے

بہتر ہے یہی تلخیٔ ماضی کو بھلادے
میں تُجھ کو دعا دیتا ہوں، تومجھ کو دعا دے
خاکسترِ جاں باعثِ صد رشکِ شرر ہے
یہ شعلۂ جاں ہے، اسے کُچھ اور ہوا دے
معیارِ عدالت ہے ترا گر یہی منصف
ناکردہ گناہوں کی مجھے اور سزا دے
ساقی ترے پیمانے میں گر مے نہیں باقی
تودردِ تہہِ جام ہی اب مجھ کو پلا دے
فرعون نے پھر قتل کی کر دی ہے منادی
اے ماں تو مجھے نِیل کے دریا میں بہا دے
میں زیست کے تپتے ہوۓ صحرا میں پڑا ہوں
زُلفوں کی گھنی چھاؤں میں اب مجھ کو سُلا دے
گر رنگِ وفا جعفری ہمرنگ نہیں ہے
تو خلوتِ جاں سے مجھے اپنی وہ اُٹھا دے
کلام : (اسلام آباد)