بعض چارپائیاں اس قدرچغل خور ہوتی ہیں کہ ذرا کروٹ بدلیں تو دوسری چارپائی والا ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھتا ہے( مشتاق احمد یوسفی کی مزاح سے بھرپور تحریر )

بعض چارپائیاں اس قدرچغل خور ہوتی ہیں کہ ذرا کروٹ بدلیں تو دوسری چارپائی والا ...
بعض چارپائیاں اس قدرچغل خور ہوتی ہیں کہ ذرا کروٹ بدلیں تو دوسری چارپائی والا ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھتا ہے( مشتاق احمد یوسفی کی مزاح سے بھرپور تحریر )

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جس زمانے میں وزن کرنےکی مشین ایجاد نہیں ہوئی تھی تو شائستہ عورتیں چوڑیوں کےتنگ ہونے اور مرد چارپائی کے بان کے دباؤ سےدوسرے کے وزن کا تخمینہ کرتےتھے۔ اس زمانےمیں چارپائی صرف میزان جسم ہی نہیں بلکہ معیار اعمال بھی تھی۔ نتیجہ یہ کہ جنازے کو کندھا دینے والے چارپائی کے وزن کی بنا ءپر مرحوم کے جنتی یا اس کے برعکس ہونےکا اعلان کرتے تھے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ہمارےہاں دبلے آدمی کی دنیا اور موٹےکی عقبےعام طور خراب ہوتی ہے۔ 
برصغیر میں چند علاقے ایسے بھی ہیں جہاں اگر چارپائی کو آسمان کی طرف پائینتی کرکےکھڑاکر دیا جائے تو ہمسائے تعزیت کو آنے لگتے ہیں۔ سوگ کی یہ علامت بہت پرانی ہے گوکہ دیگر علاقوں میں یہ عمودی (?) نہیں، افقی (-) ہوتی ہے۔ اب بھی گنجان محلوں میں عورتوں اسی عام فہم استعارے کا سہارا لے کر کو ستی سنائی دیں گی۔ ”الٰہی! تن تن کوڑھ ٹپکے۔ مچمچاتی ہوئی کھاٹ نکلے!“ دوسرا بھرپور جملہ بددعاہی نہیں بلکہ وقت ضرورت نہایت جامع ومانع سوانح عمری کا کام بھی دے سکتا ہے کیونکہ اس میں مرحومہ کی عمر، نامرادی، وزن اورڈیل ڈول کےمتعلق نہایت بلیغ اشارے ملتے ہیں۔ نیز اس بات کی سند ملتی ہےکہ راہی ملک عدم نے وہی کم خرچ بالانشین وسیلہ نقل وحمل اختیار کیا جس کی جانب میر اشارہ کر چکےہیں، 
تیری گلی سدا اےکشندہ عالم 
ہزاروں آتی ہوئی چارپائیاں دیکھیں 
قدرت نے اپنی رحمت سےصفائی کا کچھ ایسا انتظام رکھا ہےکہ ہر ایک چارپائی کو سال میں کم ازکم دومرتبہ کھولتے پانی سےدھارنےکی ضرورت پیش آتی ہے۔ جونفاست پسند حضرات جان لینےکا یہ طریقہ جائز نہیں سمجھتے وہ چارپائی کو الٹا کرکے چلچلاتی دھوپ میں ڈال دیتے ہیں۔ پھر دن بھر گھر والے کھٹمل اور محلے والے عبرت پکڑتےہیں۔ اہل نظر چارپائی کو چولوں میں رہنے والی مخلوق کی جسامت اور رنگت پر ہی سونے والوں کی صحت اور حسب نسب کا قیاس کرتے ہیں (واضح رہےکہ یورپ میں گھوڑوں اور کتوں کے سوا، کوئی کسی کا حسب نسب نہیں پوچھتا) الٹی چارپائی کو قرنطینہ کی علامت جان کر راہ گیر راستہ بدل دیں تو تعجب نہیں۔ حدیہ کہ فقیربھی ایسے گھروں کے سامنے صدا لگانا بند کر دیتے ہیں۔ 
چارپائی سے پراسرار آوازیں نکلتی ہیں، ان کا مرکز دریافت کرنا اتنا ہی دشوار ہے جتنا کہ برسات کی اندھیری رات میں کھوج لگانا کہ مینڈک کے ٹرانے کی آواز کدھر سے آئی یا کہ یہ تشخیص کرنا کہ آدھی رات کو بلبلاتے ہوئے شیرخوار بچے کے درد کہاں اٹھ رہا ہے۔ چرچراتی ہوئی چارپائی کو میں نہ گل نغمہ سمجھتا ہوں، نہ پردہ ساز اور نہ اپنی شکست کی آواز! درحقیقت یہ آواز چارپائی کااعلان صحت ہے کیونکہ اس کے ٹوٹتے ہی یہ بند ہو جاتی ہے۔ علاوہ ازیں ایک خودکار الام کی حیثیت سے یہ شب بیداری اور سحرخیزی میں مدد دیتی ہے۔ بعض چارپائیاں اس قدرچغل خور ہوتی ہیں کہ ذرا کروٹ بدلیں تو دوسری چارپائی والا کلمہ پڑھتا ہوا ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھتا ہے۔ اگر پاؤں بھی سکیڑیں تو کتے اتنے زور سے بھونکتے ہیں کہ چوکیدار تک جاگ اٹھتے ہیں۔ اس یہ فائدہ ضرور ہوتا ہےکہ لوگ رات بھر نہ صرف ایک دوسرے کی جان ومال بلکہ چال چلن کی بھی چوکیداری کرتے رہتےہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آپ ہی بتائیے کہ رات کو آنکھ کھلتے ہی نظر سب سے پہلے پاس والی چارپائی پر کیوں جاتی ہے۔ 

نوٹ : مشتاق احمد یوسفی کی تحریر " چارپائی اور کلچر " سے اقتباس