زنگ آلود ڈبے ہر بڑے اسٹیشن پر کھڑے نظر آتے ہیں جن کو آوارہ اور نشئی لوگ شب بسری اور دیگر مقاصد کیلیے استعمال کر لیتے ہیں

مصنف:محمدسعیدجاوید
قسط:31
بعض پہاڑی علاقوں میں ریل کی پٹری کی چڑھائی منظور شدہ اوسط گریڈینٹ یعنی 2 یا 3فیصد سے کہیں زیادہ اور بعض حالات میں 10 فیصد تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ جس پر چڑھنا کسی عام ریل گاڑی کے بس کی بات نہیں ہوتی اور اس کے ہر دم پیچھے کی طرف پھسلنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ایسے موقعوں پر ریلوے لائن کے اس حصے پر خصوصی انتظام کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے 2روا یتی فولادی پٹریوں کے درمیان ایک تیسری مضبوط مگر دندانے دار پٹری بچھائی جاتی ہے۔ اور اس پر چلنے والی گاڑی بھی مختلف ہوتی ہے۔ گاڑی کے انجن اور ڈبوں کے نیچے لگے ہوئے آنکڑے ان دندانوں میں فٹ ہو جاتے ہیں جن کے لیے مضبوط گراریاں لگائی جاتی ہیں اور چڑھائی یا اترائی کے وقت یہ گراریاں گاڑی کو آگے یا پیچھے پھسلنے نہیں دیتیں۔
ایسی پٹری کو ریک لائن کہا جاتا ہے۔پاکستان میں تو ایسی پٹریاں نہیں ہیں لیکن ہندوستان اور بہت سے یورپی ممالک کے پہاڑی علاقوں میں یہ استعمال ہوتی ہیں۔ یہ لائن اس علاقے میں زیادہ کامیاب ہوتی ہے جہاں چھوٹے گیج کی گاڑیاں چلتی ہیں۔
کیچ لائن / کھڈے لائن
عموماً ہر اسٹیشن میں داخل ہونے سے ذرا پہلے مرکزی لائن سے خوامخواہ ایک لائن باہر کی طرف نکلتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ چلنا شروع ہو جاتی ہے۔ کچھ آگے جا کر یہ لائن یا تو لوپ لائن بن کر اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر جا نکلتی ہے یا تھوڑا اور باہر کی طرف ہو کر ایک ایسی اضافی لائن بناتی ہے جو آگے جا کر ریت میں دفن ہو جاتی ہے، یہاں بوقت ضرورت گاڑی کو ایک خاص تکنیکی عمل کی بدولت پٹری سے اتار دیا جاتا ہے یا یہ لائن کے آخری سرے پر بنائے گئے مضبوط بفرزسے ٹکرا کر رْک جاتی ہے۔ ان بفرز کے پیچھے بھی ریت، سیمنٹ اور فولاد کی رکاوٹ لگا دی جاتی ہے۔
حقیقت میں یہ لائن میدانی علاقوں میں بے قابو اور بھگوڑی گاڑی کو قابو میں رکھنے یا اسے پٹری سے نیچے اتارنے کے لیے استعمال ہوتی ہے تاکہ وہ کسی بڑے حادثے سے بچ جائے۔پاکستان میں اس لائن کا بہت ہی کم استعمال ہوا ہے جس کی وجہ سے یہ مرکزی لائن کے پہلو میں لیٹی ہوئی ایک مدقوق سی بیمار اور بیکار لائن کا تاثر دیتی ہے۔ لوگ اس کی موجودگی کو سنجیدہ نہیں لیتے بلکہ اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔پہاڑی علاقوں میں اگر کوئی گاڑی اس طرح منہ زوری دکھانے لگے تو اس کو کیچ سائیڈنگ لائن کے ذریعے اوپرپہاڑپر چڑھا دیا جاتا ہے جہاں اس کا سانس پھول جاتا ہے اور وہ ٹھہر جاتی ہے۔ یہ بھی محض ایک مفروضہ ہے۔
بڑے اسٹیشنوں پر ایک اور بھی ایسی ہی لائن ہوتی ہے جس کا بظاہر تو کوئی استعمال نہیں، وہاں صرف ایسی گاڑیاں یا خراب اور اضافی ڈبے بھیج دئیے جاتے ہیں جن کی فوری ضرورت نہیں ہوتی اور ان کو وہاں کچھ عرصے کیلیے روک کر آرام کروانا مقصود ہوتا ہے۔ اس کو سیدھی سادی پنجابی زبان میں کھڈے لائن کہتے ہیں۔
پاکستان میں اس لائن کا استعمال بھی قدرے احمقانہ اور نا مناسب ساہے کیونکہ جو ڈبے زیر استعمال نہیں ہوتے محکمے والے ان کو اس لائن پر کھڑا کرکے بھول جاتے ہیں۔ ایسے ہی زنگ آلود ڈبے تقریباً مرکزی لائن کے ہر بڑے اسٹیشن پر کھڑے نظر آتے ہیں جن کو پاکستانی ماحول کے مطابق آوارہ اور نشئی لوگ شب بسری اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال کر لیتے ہیں۔ کراچی چھاؤنی اسٹیشن پر تو ایسی ہی ایک لائن پر کھڑے کچھ متروک مسافر ڈبوں کو ریلوے کے عملے نے ایک مدت تک بطور دفتریا گھر بھی استعمال کیا تھا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔