”ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کر میرے بچو اس ملک کو رکھنا سنبھال کر“ یہ نغمہ سن کر آج بھی بوڑھی رگوں میں خون کی گردش تیز ہو جاتی ہے

 ”ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کر میرے بچو اس ملک کو رکھنا سنبھال کر“ یہ ...
 ”ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کر میرے بچو اس ملک کو رکھنا سنبھال کر“ یہ نغمہ سن کر آج بھی بوڑھی رگوں میں خون کی گردش تیز ہو جاتی ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:72
بچوں کی کہانی موہنی حمید کی زبانی؛
ساتویں یا آٹھویں جماعت میں پہنچا تو ابا جی نے بچوں کا ماہانہ رسالہ”تعلیم و تربیت“ کا اجراء کرا دیا جو قریشی نیوز ایجنسی سے ہی ابا جی کے رسالے ”حکایت“ کے ساتھ آنے لگا تھا۔یوں مجھے کورس کی کتابوں کے علاوہ دوسری کتابیں پڑھنے کی عادت ہو گئی۔ اس زمانے میں مو ہنی حمید آپا روز شام کو چھ سوا چھ بجے ریڈیو پاکستان سے اپنی موہنی آواز میں بچوں کی کہانی سنایا کرتی تھیں جو میں بڑے شوق سے سنتا۔ اس کہانی کے بعد نغمہ بھی سنوایا جاتا تھا۔ ”آؤ بچو سیر کرائیں تم کو پاکستان کی“ اور ”ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کر میرے بچو اس ملک کو رکھنا سنبھال کر“ کا مجھے انتظار رہتا تھا۔یہ نغمے سن کر آج بھی میری بوڑھی رگوں میں خون کی گردش تیز ہو جاتی ہے۔میری بیگم کو بھی یہ نغمے بہت پسند ہیں اور میری ننھی سی پوتی امیرہ احمدجو ابھی ڈیڑھ برس کی ہے انہیں غور سے سنتی ہے۔خون کا اثر رنگ تو دکھاتا ہے۔
حکایت میگزین؛
میٹرک کے امتحان کے بعد اس دور کا ایک اور پسندیدہ ماہانہ میگزین حکایت(جوابا جی باقائدگی پڑھتے تھے۔) جس کے مدیر مرحوم عنایت اللہ تھے۔ اس میگزین کا بھی مجھے بے تحاشا انتظار رہتا تھا۔ اس میں قسط وارتاریخی کہانیاں ”داستان ایمان فروشوں کی،قافلے حجاز کے، خدا اور پجاری“ میرے دل میں اتر گئے تھے۔ اس کے علاوہ صابر حسین راجپوت کی شکار کی کہانیاں بھی لہو گرماتی تھیں۔ اور جرم و سزا کی دنیا سے احمد یار خاں کی کہانیاں جو بطور پویس افسر ان کی تفتیش سے گزریں جرائم کی دنیا، انسانی عقل کو دنگ کر دیتی تھی اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ جب کرکٹ کھیلنے لگا تو پھر پڑھنے کے لئے وقت کم ملتا اور پچپن کی یہ عادت چھوٹ ہی گئی اور اب سپورٹس میگزین ”سپورٹس ٹائم اور ”اخبار وطن“ کی طرف توجہ زیادہ ہو گئی تھی۔ اب بھی وقت ملے تو میں تاریخ اور آپ بیتی پڑھنا پسند کرتا ہوں اور عمر کے اس حصے میں اب قرآن کریم کی تفاسیر بھی مجھے بہت سکون دیتی ہیں۔
پی ٹی شوز؛ 
اس دور میں سکول میں اسمبلی میں ناخن، بال، جرابیں اور جو توں کی پالش بھی چیک کی جاتی تھی۔بڑھے ناخن، بڑھے بال، کالی جراب نہ پہننے اور گندے بوٹوں پر ایک وارننگ ملتی اور دوسری دفعہ دس منٹ کے لئے اسمبلی والی گراؤنڈ پر ہی مرغا بننا پڑتا تھا جو بڑی شرمندگی کی بات ہوتی تھی۔ سکول دیر سے پہنچنے کی سزا ہاتھ پر2 بید لگائے جاتے اور خاص طور سردی کے موسم میں یہ دو بید دن میں تارے دکھا دیتے تھے۔پی ٹی کا پریڈ جس دن ہوتا اس روز پی ٹی شوز پہننے ضروری تھے۔ سفید رنگ کے یہ شوز 2 قسم کے ہوتے۔ ایک ہلکی کوالٹی  کے جس کا سول بالکل پتلا سا ہوتا جبکہ دوسری قسم کے شوز کافی آرام دہ اور کچھ مہنگے تھے۔میں دوسری قسم کے جوتے ہی پہنتا کہ یہ پاؤں میں لگتے بھی سمارٹ تھے۔ہفتے میں 2دن ان کو سفید لیکوڈ پالش سے خود ہی پالش کرنا پڑتا تھاورنہ یہ آدھے سفید اور ادھے دھول مٹی کی وجہ سے گرے رنگ اختیار کر لیتے تھے۔پی ٹی پریڈ کے دوران مختلف مشقیں کرائی جاتی تھیں جو فٹ نس اور خود کو چاق و چوبند رکھنے والی ہی ہوتی تھیں۔ غلط ڈرل پر پی ٹی ماسٹر کا ڈنڈا برداشت کرنا پڑتا تھا۔ہاں کبھی کبھی فٹ بال کھیلنے کی بھی اجازت مل جاتی تھی۔ (جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -