انصاف اور مساوات محض افسانہ طرازی ہے،یہ دنیا ہر لمحے ناانصافی کا شکار ہوتی رہتی ہے، آپ اپنے لیے خوشی یا ناخوشی کا انتخاب کرسکتے ہیں 

انصاف اور مساوات محض افسانہ طرازی ہے،یہ دنیا ہر لمحے ناانصافی کا شکار ہوتی ...
انصاف اور مساوات محض افسانہ طرازی ہے،یہ دنیا ہر لمحے ناانصافی کا شکار ہوتی رہتی ہے، آپ اپنے لیے خوشی یا ناخوشی کا انتخاب کرسکتے ہیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر 
ترجمہ:ریاض محمود انجم
 قسط:132
مساوات اور انصاف کا تصور: پھندا اورجال
”اگر اس دنیا میں اس قدر مساوات اور انصاف ہوتا کہ ہر چیز ایک دوسرے کے برابرہوتی تو پھر کوئی بھی جاندار ایک دن بھی زندہ نہ رہ سکتا۔ پرندوں کو کیڑے مکوڑے کھانے کی اجازت نہ ہوتی اور ہر ایک جاندار کا ذاتی مفاد محفوظ رہتا۔“
ہم ہر وقت اپنی زندگی میں انصاف کے طالب رہتے ہیں اور جب ہمیں یہ انصاف نہیں ملتا تو ہمیں غصے، پریشانی اورمایوسی کا احساس ہوتاہے۔ دراصل، جس طرح ہم انصاف کی تلاش میں رہتے ہیں تو اس طرح ہماری وہ کوشش بھی تعمیری اور مثبت ہوتی جس کے ذریعے ہم اپنی جوانی کے سرچشمے کی تلاش میں رہتے ہیں۔ انصاف کا کہیں وجود نہیں، نہ یہ پہلے کبھی موجود تھا اور نہ مستقبل میں موجود ہوگا۔ یہ دنیا انصاف کے لیے نہیں بنائی گئی ہے۔ چڑیاں، کیڑے مکوڑے کھاتی ہیں، یہ ان کی خوراک ہے۔ یہ کیڑے مکوڑوں کے ساتھ انصاف نہیں ہے۔ مکڑیاں، مکھیاں ہڑپ کر جاتی ہیں۔ یہ مکھیوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔ کتے، بلیاں کھا جاتے ہیں، بلی، چوہے کھاتی ہے، چوہے، جوئیں کھا جاتے ہیں ……اگر آپ مظاہر فطرت پر نظر دوڑائیں تو آپ کومعلوم ہو گا کہ اس کائنات میں کہیں انصاف نہیں ہے۔ بگولے، سیلاب، سمندری موجیں، طوفان، سب ناانصافیاں ہیں۔ انصاف اور مساوات محض افسانہ طرازی ہے۔ یہ دنیا اور اس کے مکین ہر لمحے ناانصافی کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ آپ اپنے لیے خوشی یا ناخوشی کا انتخاب کرسکتے ہیں لیکن اس کا تعلق اس دنیا میں موجود ناانصافی سے نہیں ہے۔
ناانصافی کا تصور، انسانیت اورکائنات کاکوئی قابل افسوس پہلو نہیں ہے بلکہ یہ پہلو بالکل صحیح اور درست ہے۔ مساوات اور انصاف محض ایک ایسا تصور ہے جس کی کوئی عملی شکل نہیں ہے۔ خاص طورپر اس وقت جب یہ تصور آپ کی کامیابیوں اور خوشیوں کے متعلق آپ کے انتخاب سے تعلق رکھتا ہو لیکن ہم میں سے اکثر افراد دوسروں کے ساتھ تعلق داری کے ضمن میں اسے اپنی وراثت سمجھتے ہیں مثلاً ”یہ انصاف نہیں ہے“، ”اگرمیں یہ کام نہیں کر سکتا تو آپ کو بھی یہ کام کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔“ اور ”کیا میں بھی تمہارے ساتھ بھی یہی کروں؟“ اس قسم کے فقرے ہم استعمال کرتے ہیں۔ ہم انصاف کی تلاش میں ہوتے ہیں اور اس کی عدم فراہمی کو اپنی ناخوشی کی وجہ قرا ردیتے ہیں۔ انصاف کا مطالبہ آپ کا ذہنی رویہ نہیں ہے۔ انصاف کا مطالبہ اس وقت آپ کی کمزوری اور خامی بن جاتا ہے جب آپ انصاف کی عدم فراہمی کے سبب اپنے آپ کو منفی جذبات کے ذریعے سزا دیتے ہیں۔ اس معاملے میں خودکو بے وقعت اورکم تر سمجھنے پر مبنی آپ کا رویہ اورطرزعمل، انصاف کے مطالبے پر مشتمل نہیں ہوتا بلکہ آپ کا یہ رویہ اورطرزعمل، غیرفعالیت اوربے عملی پر مشتمل ہوتا ہے جو انصاف کی عدم موجودگی کی حقیقت کانتیجہ ہو سکتا ہے۔
ہمارا معاشرہ، انصاف اور مساوات فراہم کرنے کایقین دلاتا ہے۔ سیاستدان اپنی انتخابی مہم میں عوام کے ساتھ انصاف کی فراہمی کا وعدہ کرتے اور سبزباغ دکھاتے ہیں۔ ”ہمیں سب کے لیے مساوات اور انصاف چاہیے“ لیکن دنوں بعد، مہینوں بعد، سالوں بعد اور صدیوں بعد بھی ناانصافیاں جاری رہتی ہے۔ غربت، جنگ، جرم، عصمت فروشی، قتل و غارت، ذاتی اور نجی طور پر نسل در نسل جاری رہتی ہے۔ مزیدبرآں اگر تاریخ انسانی کو مثال بنایا جائے تو یہ ناانصافی مسلسل جاری رہے گی۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -