”شگون“ سے ”کانچ کا چراغ“ تک: ناصرہ زبیری!
لگ بھگ سترہ برس پہلے 1995ءمیں ناصرہ زبیری کا اولین شعری مجموعہ کلام”شگون“ کے نام سے شائع ہوا تھا، اس پر تفصیلی کالم لکھتے ہوئے مَیں نے اپنے ہی اخبار”پاکستان“ میں ناصرہ زبیری کو پروین شاکر کے بعد ہم ترین تازہ فکر شاعرہ قرار دیا تھا، میرے لئے طمانیت کا مقام ہے کہ سترہ برس بعد 2012ءمیں منفرد نقاد ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے بھی میری رائے کی تائید کی ہے،وہ ناصرہ زبیری کے تازہ ترین مجموعہ غزل ”کانچ کا چراغ“ کے فلیپ پر لکھتے ہیں:
”اچھی شاعری کا بنیادی منصب یہی ہے کہ نت نئے شعری اظہار کے لئے گنجائش بھی پیدا کرتی ہے۔میرا خیال ہے کہ پروین شاکر کے بعد ناصرہ زبیری نے اس صلاحیت کا سب سے زیادہ مظاہرہ کیا ہے“....!
ناصرہ زبیری کے پہلے مجموعے ”شگون“ کے پہلے اور دوسرے ایڈیشن کے فلیپ پر میری جو مختصر رائے درج کی گئی ہے وہ یوں ہے:
”ناصرہ زبیری خوبصورت غزل کہتی ہیں،عہد موجود کی غزل، جہاں انفرادی احساسات و تجربات اپنی پوری رعنائی اور توانائی کے ساتھ ملتے ہیں، ان کی غزلوں میں لطیف جذبوں کی پرچھائیاں بھی ہیں اور ہجرو وصال کی دھوپ چھاﺅں کے ساتھ ساتھ حیات و کائنات کے گھمبیر مسائل کا شعور و ادراک بھی!وہ اپنے خوبصورت تخیل اور نازک احساسات سے ایسے حسین پیکر تراشتی ہیں جو روح کی تمازت سے پگھل کر قاری کی رگوں میں لہو کی طرح دوڑنے لگتے ہیں۔ناصرہ زبیری شاعرہ ہیں اور بلاشبہ Talantedشاعرہ! واضح امکانات کی اس شاعرہ کو مَیں بہار کی تازہ ہوا کہوں گا کہ بقول احمد فراز:
خود آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے
ناصرہ زیدی کے پہلے مجموعہ کلام ”شگون“ میں غزلوں کے ساتھ ساتھ نظمیں بھی تھیں پھر بھی مَیں نے ان کی غزل کے حوالے سے بات کی تھی۔غزل کی خوبصورت شاعرہ۔ اس خوبصورتی کے چند نمونے:
کبھی وہ یاد آئے گاہے گاہے
کبھی بے ساختہ اکثر اچانک
اور نزدیک بدن ہوں گے یقینا اپنے
اور بڑھ جائے گی اب روح کی دوری شاید
....................
آس پاس پھیلی ہے تیرے لمس کی خوشبو
ہے یہیں کہیں اب بھی تُو یہاں سے جاکر بھی
....................
پھول، جگنو، رنگ، بادل، چاند، خوشبو، روشنی
تیرا لہجہ، تیری باتیں، تیری خُو ہے ہر طرف
یہ آرزو تھی کبھی چائے پیش کرتے ہوئے
تمہارے ہاتھ سے مَس میرا ہاتھ ہو جائے
کھِلوں میں شاخ پہ اپنے ہی رنگ میں اک دن
مرے وجود سے خوشبو تری جُدا بھی ہو!
........................
برسوں پہلے جب میرے مرحوم دوست، فلموں کے مقبول گیت نگار شاعر مسرور انور نے فخریہ اپنی ایک عزیز شاعرہ کا غائبانہ طَور پر مجھ سے تعارف کرایا تو اس وقت یہ ناصرہ زبیری نہیں،ناصرہ حمید تھیں اور لاہور کے اکثر انٹرکالجئیسٹ مشاعروں میں نمایاں تھیں۔مسرور انور ناصرہ حمید کے خالو تھے۔پھر یہ شہاب زبیری کی شریکِ زندگی بن کر ناصرہ زبیری ہوگئیں اور اپنا اولین مجموعہ کلام ”شگون“ کے نام سے شائع کرایا تو سارا مجموعہ حرف حرف لفظ لفظ دیکھنے کا اختیار مجھے سونپا۔سچی بات ہے ” شگون“ میں ان کے ہاں جذبوں کا وہی کنوار پن مجھے نظر آیا جو پروین شاکر کے اولین مجموعے ”خوشبو“ میں تھا۔
یہ پروین شاکر کے آخری دور کی ابھرتی ہوئی شاعرہ تھیں۔فیض و فرازسے متاثر تھیں تو اپنی خوبصورت ہمعصر، پروین شاکر کے لئے بھی اچھے جذبات رکھتی تھیں۔پروین شاکر کا اس دور کا ایک مشہور شعر ہے:
حُسن کے سمجھنے کو عمر چاہیے جاناں!
دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں
بہت آگے چل کر ناصرہ زبیری نے اپنے انداز کا منفرد شعر یوں کہا:
لپٹے ہیں جسم و رُوح سے اسرار سینکڑوں
کیسے بس ایک رات میں تم پر دلہن کھلے
احمد فراز کا ایک مشہور شعر ہے:
دشمنوں کا تو کوئی تیر نہ پہنچا مجھ تک
دیکھنا اب کے مرا دوست کماں کھینچتا ہے
اور اپنے انداز میں،اپنے خیال کو ناصرہ زبیری یوں عہد موجود میں بیان کرتی ہیں:
چلاﺅں تیر میں کیسے، کمان کیا کھینچوں
کہ ہوگیا ہے صفِ دشمناں میں تُو شامل
”شگون“ میں خیالات و جذبات کی آمد بے محابا تھی۔خیال و فکر کا نیا پن تھا اور روشِ عام کوبدلنے کا چلن بھی اگرچہ:
یہی کہ ایک پرانی روش کو بدلا تھا
اُٹھی ہیں ہم پہ زمانے کی انگلیاں کتنی
”شگون“ سے ”کانچ کا چراغ“ تک آتے آتے سترہ برس کا عرصہ ہے ۔اس عرصے میں فکر و خیال کی پختگی میں اضافہ ہوا، شعر کی بُنت میں ”کرافٹ“ کا عمل دخل بڑھا ہے اور فیض و فراز و پروین شاکر کے اسلوب سے زیادہ عہدِ رواں کے لیجنڈ شاعر ظفر اقبال کا اثر قبول کرنے کا زیادہ تاثر اُبھرا ہے۔مَیں نے بہرحال اس ساری صورت حال سے ہٹ کر ان اشعار کو اپنے قارئین کے لئے پیش کیا ہے جن میں حسن و عشق اور وارداتِ قلب و نظر کے مرحلے بھی ہیں کہ خود ”جذبہ عشق“ کے حوالے سے ناصرہ زبیری کا خیال یہ ہے :
اہلِ دل کے لئے فرما گئے صوفی شاعر
جذبہءعشق سبھی دین، دھرم سے بہتر
........................
چند شعر اور ”کانچ کا چراغ“ سے:
نگار و نقش بناﺅں نہ خال و خدلکھوں
مرے خیال کی حد سے وہ ماورا بھی تو ہو
نئے سرے سے شناسا بنیں مگر پہلے
تمام، ترکِ تعلق کا مرحلہ بھی تو ہو
........................
تری خالی نظر دیکھی تو جانا
بُھلاتے ہیں تعلق لوگ کیسے
........................
ایسے سمجھا رہے ہیں آپ ہمیں
جیسے چاہت ہمارے بس میں ہے
........................
ساحر لدھیانوی کا مشہور شعر ہے:
مَیں جسے پیار کا انداز سمجھ بیٹھا ہوں
وہ تبسم ، وہ تکلم تِری عادت ہی نہ ہو
اور ناصرہ زبیری کہتی ہیں:
ہم نے جسے سمجھا ہے تری خاص توجہ
وہ چشمِ عنایت ترا معمول ہو شاید
آخر میں ناصرہ زبیری کے دو شعر مزید:
مسئلہ پیش ہے جو عشق ہے کشمیر نہیں
حل نکل آئے گا ہم بیٹھ کے جب بھی سوچیں
........................
اور
تیری نظر سے جاگی ہوئی لو کے فیض سے
روشن ہے میری ذات میں اک کانچ کا چراغ