’’چراغ آخر شب‘‘
مجاہدِ ملت قاضی حسین احمدؒ ایک تاریخ ساز شخصیت تھے جو تاریخ کی کتابوں سے نکل کر ہمارے پاس آئے اور پھر ایک تاریخ بنا کر ہمیشہ کے لئے تاریخ کی کتابوں میں چلے گئے ۔ وہ جادۂ حق پر چلنے والے ایسے مسافر تھے کہ کانٹوں بھری راہوں کی صعوبتیں اور طویل مسافتیں بھی ان کے عزم سفر کو شکست نہ دے سکیں ۔ وہ ایک ہدی خوان تھے جو بھٹکتے قافلوں کو ہمیشہ نشان منزل دکھاتے رہے ۔ وہ ایک ایسے سالار کارواں تھے کہ جن کے نفس گرم کی تاثیرسے قافلہ ہمیشہ تیز قدم رہا ۔ وہ ایسے چراغ آخر شب تھے کہ جن کے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے ۔ بلاشبہ وہ ہمارے درمیان سعادت کی ایسی زندگی گزار کر گئے ہیں کہ جو حیات جاوداں کا عنوان بن جاتی ہے ۔
قاضی صاحب ، جرأتوں کے پیکر اور عزیمتوں کے کوہ گراں تھے ۔ وہ مینارۂ نور تھے ۔ وہ اتحاد امت کے نقیب تھے ۔ وہ داعئ انقلاب تھے ۔ وہ حاضرو موجود سے بیزار کرنے والے امام برحق تھے اور وہ راۂ جہاد پر گامزن ایک مجاہد کبیر تھے ۔ وہ محبت کرنے والی ایسی شخصیت تھے کہ جن کاپیغام محبت دور دور تک پہنچا ۔ آج جب کہ وہ ہم میں نہیں رہے تو ہر لکھنے والا قلم یہ لکھ رہاہے کہ ان کا سب سے زیادہ تعلق میرے ساتھ تھا۔ دوست تو لکھتے ہی ہیں ان کے تو نظریاتی مخالف بھی ان کے لئے رطب اللسان ہیں ۔ رفقاء تو ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہی ہیں ان کے لئے محبتوں کے پھول تو اغیار بھی نچھاور کررہے ہیں ۔ جنہوں نے ان کے پیغام انقلاب کو قبول نہیں بھی کیا ان تک بھی ان کی محبتوں کی خوشبو ضرور پہنچی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ ، اخبارات کے رنگین صفحات ہو ںیا اداریے ، کالم نگارہوں یا دانشور ، اینکر پرسنز ہوں یا نامو ر قلم کار ، سب ان کے لئے کلمات خیر کہہ اور لکھ رہے ہیں اور ہر ایک ان سے ذاتی تعلق کی گواہی دے رہاہے ۔ایسا ہی ایک تعلق ان کا میرے ساتھ بھی تھا لیکن یہ رفاقت کا نہیں تابعداری و اطاعت کا تعلق تھا اس لئے کہ میں ایک کارکن ہوں اور وہ ہمارے امیر اور اب سابق امیر تھے ۔ ہم ان کے خوشہ چیں تھے اور وہ ہمارے مربی و محسن تھے۔ اس دوران ان سے سینکڑوں ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے بے شمار خطابات سنے ، ان کے ساتھ متعدد بار سفر کا موقع ملا ۔ تربیت گاہوں میں ان کے انداز تربیت کا مشاہدہ کیا ان کے ہمراہ کئی تقاریب ، مجلسوں ، محفلوں ، کانفرنسوں میں شرکت کی ۔ ان کی قیادت میں جلسوں جلوسوں دھرنوں اور ریلیوں میں حصہ لیا ان کے پاس کئی مرتبہ ایسے وقت میں بھی حاضری دی کہ جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا ۔ ان سے حکایت غم آرزو اور حدیث ماتم دلبری کے قصے بھی سنے ۔وہ ایک سچے کھرے اور منافقت سے پاک انسان تھے ۔ یعنی ظاہر و باطن ایک ہے جو دل میں ہے وہ زبان پر ہے اور جو قول ہے وہی عمل بھی ہے۔
ابا جی ( مولانا گلزار احمد مظاہری مرحوم ) کی وجہ سے وہ ہم بہن بھائیوں کے ساتھ خصوصی شفقت و محبت کا تعلق رکھتے تھے ۔ ہمارے خاندان کی شادیوں میں شرکت فرمائی ، ہمارے اکثر بچوں بچیوں کے نکاح بھی انہوں نے پڑھائے ۔ ابا جی کے ساتھ اپنے خصوصی تعلق کا یہ کہہ کر اکثر اظہار کرتے کہ میں ان سے اپنے زمانۂ طالبعلمی سے آشنا تھا ۔ ایک بلند پایہ خطیب ، ایک نامور عالم دین، اتحاد امت کے ایک داعی اور نقیب اور اس وقت بھی ان کی اور جماعت اسلامی کے ایک انتھک محنتی ذمہ دار کی حیثیت سے جو شہرت تھی وہ مجھے ان کے جلسوں میں کشاں کشاں لے جاتی تھی ۔ متعدد بار محترم قاضی صاحب نے اظہار فرمایا کہ مولانا گلزار احمد مظاہری ایک زرخیز ذہن کے مالک تھے ۔ مرکزی مجلس شورٰی میں جب بات کرتے تو معاملات کی ان گہرائیوں کی نشاندھی کردیتے تھے جن تک عام ذہن نہیں پہنچ پاتے تھے ۔ وہ معاملہ فہم عالم دین تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں خطابت کے ساتھ حکمت ، معاملہ فہمی اور سیاسی بصیرت کی دولت سے بھی نوازا تھا۔
ابا جی کی نماز جنازہ بھی انہوں نے پڑھائی ۔ وہ تدفین تک موجود رہے ۔ قبر پر بھی دعا انہوں نے ہی کرائی ۔ اس موقع پر میں نے ان سے دریافت کیا کہ لوگ دوسرے دن کی اجتماعی دعا کے بارے میں پوچھ رہے ہیں تو انہوں نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں ۔ آپ درس قرآن اور اجتماعی دعا کا اعلان کر دیں ۔ اس موقع پر تعزیت کے لئے آنے والے اہم مہمانوں کا وہ خود خیر مقدم کرتے رہے ۔ جنرل ضیاء الحق دعا کے لئے منصورہ آئے تو محترم قاضی صاحب نے نہایت اچھے انداز میں ان سے ابا جی مرحوم کی علماکے اتحاد کے لئے کوششوں کا تذکرہ فرمایا ۔ ہماری اماں جی کا انتقال ہوا تو محترم قاضی صاحب کو اسی دن ایران جانا تھا ، اتنی مصروفیت کے باوجود وہ ہمارے گھر تشریف لائے ۔ ہم سب کو پرسا دیا اور ایئر پورٹ جانے سے پہلے کافی دیر تک تشریف فرما رہے ۔
بڑے لوگوں کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے سے چھوٹوں پر ہمیشہ شفیق و مہربان ہوتے ہیں اور ان کی کھل کر حوصلہ افزائی اور تعریف کرتے ہیں۔ قاضی صاحب دوسروں کی تعریف کرنے میں بڑے فراخ دل تھے ۔ 2003 ء میں میرا پی ایچ ڈی مکمل ہوا میں اس وقت ممبر قومی اسمبلی تھا اور جامعہ پنجاب کے کانوووکیشن میں اس وقت کے وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی کے ہاتھوں میں نے یہ سند وصول کی تھی ۔محترم قاضی صاحب میری اس کامیابی پر بے پناہ خوش تھے انہوں نے مبارکباد دی ، دعاؤں سے نوازا اور پھر اسمبلی کے ایوان میں متعدد ممبران اسمبلی کو بڑی محبت سے یہ خبر دیتے رہے کہ اب انہیں ڈاکٹر صاحب کہیں ، انہوں نے پی ایچ ڈی کر لی ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ کسی دوسرے بالخصوص اپنے کسی عزیز کی عزت افزائی انسان کی اپنی عظمت کی دلیل ہے ۔ میرا سفر نامۂ ترکی شائع ہوا تو میں کتاب لے کر ان کے پاس حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا کہ اس کی تقریب رونمائی کی صدارت آپ نے کرناہے ۔ انھوں نے اس دعوت کو قبول فرمالیا اور پھر صرف اس تقریب میں شرکت کے لئے پشاور سے تشریف لائے ۔ پروگرام الحمراء ہال نمبر 3 میں تھا جس میں پہنچنے کے لئے کم و بیش تیس سیڑھیاں چڑھنا پڑتی ہیں میں نے ان کے معاون عزیزم یاسر سے پوچھا کہ کیا قاضی صاحب کے لئے سیڑھیاں چڑھنا ممکن ہوگا اس نے بتایا کہ ان دنوں گھٹنوں کی تکلیف کی وجہ سے وہ سیڑھیاں چڑھنے سے اجتناب کرتے ہیں لیکن پھر قاضی صاحب تشریف لائے ۔ تقریب کی صدارت کی اور میری کتاب اور طرز تحریر کی کھل کر تعریف کی اور ترکی سے اپنے خاص تعلق کا اظہار فرمایا اور یہ نوید سنائی کہ انشاء اللہ سیکولر ترکی ایک مرتبہ پھر امت مسلمہ کے دلوں کی دھڑکن بنے گا اور خون صد ہزا ر انجم سے انشاء اللہ سخر ضرور طلوع ہو گی ۔
قاضی صاحب متعد دمرتبہ علما اکیڈمی تشریف لائے تربیتی کلاسوں کے شرکاء سے خطاب کیا ان میں اسناد تقسیم کیں اور ایسے ہر موقع پر اپنی تقریر میں ابا جی مرحوم کا تذکرہ خصوصی محبت سے کرتے رہے۔ تعمیر سیرت کالج کے سالانہ جلسہ ہائے تقسیم انعامات میں بھی تشریف لاتے رہے اور جب علما اکیڈمی کے زیراہتمام دار ارقم سکول منصورہ کا آغاز ہوا تو انہوں نے افتتاحی تقریب کو بھی اپنی خصوصی دعاؤں سے نوازا ۔
وہ یہ خواہش رکھتے تھے اور اس کے لئے انہوں نے بھر پور کوشش بھی کی کہ جماعت اسلامی کی دعوت اور پیغام معاشرے کے ہر طبقے تک پہنچے ، بالخصوص معاشرے کے پسے ہوئے اور محروم طبقات یہ سمجھنے لگیں کہ ان کے مسائل کا حل جاگیرداروں ، وڈیروں اور روایتی سیاستدانوں کے پاس نہیں بلکہ صرف اسلام اور دیانتدار قیادت کے پاس ہے ۔اس مقصد کے لئے انہو ں نے اپنے امیر بننے کے بعد 1988 ء میں ’’کاروانِ دعوت و محبت ‘‘کا اہتمام کیا ۔ یہ کارواں جس میں سینکڑوں گاڑیاں اور ہزاروں کارکن شامل تھے ، ملک کے ایک سرے سے دوسرے تک پہنچا ۔ یہ سینکڑوں میل کی مسافت تھکا دینے والا سفر تھا مسلسل بے آرامی تھی دن کو جلسے رات کو مساجد میں ڈیرے کم و بیش ایک ماہ تک کارواں رواں دواں رہا ۔ پاکستانی سیاست میں یہ منفرد تجربہ تھا ۔ کارواں کا نعرہ تھا ’’ دور ہٹو سرمایہ دارو پاکستان ہمارا ہے ‘‘۔ دو ر ہٹو جاگیردارو پاکستان ہمارا ہے ۔‘‘ سرمایہ داری و جاگیردار ی کے خلاف یہ ایک واضح احتجاج تھا ۔ ایک تواناآواز تھی چنانچہ پنجاب اور سندھ کے دیہاتوں میں ننگے پاؤں چلنے والے کتنے ہی کسان اور ہاری کارواں کے ہم رکاب رہے ۔ جماعت اسلامی کے کلچر میں ترانے اگرچہ پہلے بھی شامل تھے لیکن اس کارواں کے دوران افضال احمد اور سلیم ناز بریلوی مرحوم کے ترانوں نے ایک خاص فضا بنادی
یہ دیس جگمائے گا نورِ لا الہ سے
کفر تھر تھرائے گا نورِ لا الہ سے
قاضی صاحب پاکستان کی قومی سیاست میں کئی نئے تجربات کے بانی ہیں ۔ دھرنا ، ملین مارچ ، روڈ کارواں ۔ یہ سب اصطلاحیں ان کی دی ہوئی ہیں ۔ انہوں نے اپنی انتہائی متحرک زندگی میں کئی ریلیاں نکالیں ۔سینکڑوں جلسے کیے ۔ بیشمار جلوسوں کی قیادت کی ۔ ان گنت مظاہروں میں شریک ہوئے ۔ لاتعداد تربیت گاہوں ، شب بیداریوں ، افطار پارٹیوں اور فہم قرآن و سنت کلاسوں سے خطاب کیا ۔ شاید ہی پاکستان میں کوئی سیاسی لیڈر اتنا متحرک ہو کہ صبح کہیں شام کہیں دم بھر میں یہاں پل بھر میں وہاں ۔
قرآن پاک میں قاضی حسین صاحب جیسی پاکیزہ روحوں کے لئے ہی نفس مطمئنہ کی اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں ۔ ایسے پاکیزہ سیرت اہل ایمان جو جادہۂ حق پر گامزن رہے ، عزیمت و استقامت کا مظاہرہ کیا ، مشکلات و تکالیف برداشت کیں ، لمحہ لمحہ اطاعت ربانی میں گزارا اور پھر دنیا سے ایسے عالم میں رخصت ہوئے کہ وہ بھی اپنے خالق سے راضی اور ان کا خالق بھی ان سے راضی ۔۔۔
***