فلپائن میں روسی بحریہ کی آمد

فلپائن میں روسی بحریہ کی آمد
فلپائن میں روسی بحریہ کی آمد

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

خالقِ کائنات کے سامنے،کائنات کو تخلیق کرنے کی شائد غائت ہی یہ تھی کہ مختلف خطہ ہائے ارضی میں مختلف اقوام کے مابین مختلف انداز و اطوار کے جھگڑوں کے پینڈورہ باکس تیار رکھے جائیں اور پھر ان کو آہستہ آہستہ ’’حسبِ ضرورت‘‘ ایک ایک کرکے کھول دیا جایا کرے۔


زمانہ ء قبل از تاریخ سے لے کر آج تک نجانے کتنی ہزاریاں گزر چکی ہیں لیکن عالمی امن کی فاختہ کہیں کسی بھی دور میں نظر نہیں آتی۔ انفرادی اور خاندانی جھگڑوں سے بات جب اجتماعی تنازعات کی طرف بڑھی تو پہلے مختلف قبائل میں عداوتیں اور دشمنیاں پیدا کی گئیں جن کے ’’طفیل ‘‘ انسان قتل ہوتے رہے یا زخمی ہو کر موت سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ پھر قبیلوں سے اقوام ترتیب پائیں اور دیہات پھیل کر شہروں اور راجدھانیوں تک چلے گئے۔ یعنی قبائلی جھگڑوں نے علاقائی جنگوں کا روپ دھار لیا۔ پھر مرورِ ایام سے دنیا مہذب ہو گئی ہے۔ تہذیب و تمدن کی لمبی چوڑی تعریفات کی گئیں اور نتیجہ نکالا گیا کہ ساری دنیا ایک گاؤں ہے۔ انسان دنیا کے کسی بھی گوشے میں ہو، دوسرے انسان سے ہمکلام ہو سکتا ہے بشرطیکہ ایک دوسرے کی زبانیں معلوم ہوں۔ یوں بظاہر گلوبل ویلج کے تصور سے گلوبل امن کا تصور وابستہ نظر آنے لگا۔ لیکن دوسری طرف جنگ و جدال کا سکیل بھی قبائلی اور علاقائی سطح سے اوپر اٹھ کر عالمی جنگ کی سطح تک چلا گیا۔ ایک ہی صدی میں دو عالمی جنگوں کا صرف 20،21 برس کے وقفے سے برپا ہونا اس بات کا ثبوت تھا کہ گلوبل ویلج کا تصور، گلوبل جنگ کی شکل اختیار کر رہا ہے، لیکن دوسری گلوبل جنگ کے خاتمے پر ایک ایسی تباہ کن قوت ایجاد ہوئی جس کو دیکھ کر انسان کو خالقِ کائنات کی فرمودہ قیامت یاد آ گئی۔


کہا جانے لگا کہ بس اب قیامت قریب آ گئی ہے، لیکن ہوا یہ کہ اگلی جنگ جسے تیسری گلوبل وار کا نام دے سکتے تھے، اسے بیان کرنے والا کوئی مورخ صفحہء ہستی پر موجود نہ رہنے کی ’’نوید‘‘ دی گئی ۔ یہ تصور اور تاثر بھی غلط ثابت ہوا۔ دوسری گلوبل جنگ کے خاتمے کے صرف پانچ سال بعد ہی 1950ء میں کوریا کی جنگ شروع ہو گئی اور پھر کوریا سے لے کر آج عراق و شام و افغانستان کی جنگوں تک کو دیکھ لیجئے، ان کی تعداد درجنوں میں شمار کی جا سکتی ہے۔ لیکن انسان نے یہ کہہ کر دل کو تسلی دی کہ یہ گلوبل جنگیں تو نہیں ہیں، محض علاقائی تنازعے (Conflicts) ہیں۔ تاہم بعض مبصروں نے اس بات کو درست نہ مانا۔ ان کا استدلال تھا کہ یہ ’’گلوبل پراکسی وارز‘‘ ہیں اور یہ اس وقت تک جاری و ساری رہیں گی جب تک دو جوہری قوتوں کا آپس میں براہ راست تصادم نہیں ہوگا۔


پھر یہ ہوا کہ امریکہ نام کی ایک عالمی جوہری قوت نے اس نئے تاثر کو تقویت دینے کی کوشش شروع کی کہ صرف جوہری قوت کا حامل ہونا ہی شرط نہیں بلکہ روائتی جنگ کی اہلیت بھی اس کے ساتھ مشروط ہے۔ امریکہ کے پاس روائتی جنگ کی جو قوت اور سٹیمنا تھا اس کے سامنے روس اور چین نے جوہری قوت ہونے کے باوجود بھی دم مارنے کی جرات نہ کی ۔پھر ایک خاموش انقلاب آیا۔ کارکنانِ قضا و قدرنے روس میں ولاڈی میر پوٹن کو اور چین میں شی جنگ پن کو بھیج دیا۔ چنانچہ روس نے گزشتہ برس شام میں آکر امریکہ کی وہ تیز گام بینڈ ویگن روک دی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک عشرے میں پانچ ممالک کو نگل لیا تھا۔ افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور یمن کا سقوط دیکھ کر آخر روس کے پوٹن اور چین کے شی کو خیال آیا کہ ہرچہ بادا باد، امریکی گاڑی کو بریک لگنی چاہیے۔ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ واقعی وہ بریک لگ گئی ۔ اس کا آغاز 2014ء میں شام سے ہوا۔ دمشق اور بشارالاسد فال ہوتے ہوتے رہ گئے۔ حلب اور موصل میں داعش کی شکستوں نے بڑی حد تک مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدل دیا۔ اب یمن میں حوثی قبائل کی ایک نئی فوج تشکیل پا رہی ہے جو سعودی کولیشن ائر فورسز کو گراؤنڈ کرنے میں بہت جلد اپنا کردار ادا کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے۔


روس اور چین نے مشرق وسطیٰ میں امریکی اثر و رسوخ کی تیز رفتار گاڑی میں ڈنٹ ڈالنے کے بعد اب ایک اور خطے کا رخ کیا ہے جسے خطہ ء بحرالکاہل (Pacific Theatre) کہا جاتا ہے۔ ساؤتھ چائنا سمندر (Sea) کا ذکر تو قارئین نے کئی بار خبروں میں سنا اور پڑھا ہو گا۔ یہ سمندر، بحرالکاہل کے مغربی ساحل پر ایک نسبتاً چھوٹا سا قطعہ ء آب ہے جس پر چین اپنا حق جتلا تا ہے جبکہ امریکہ اسے بین الاقوامی سمندر کا نام دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اس خطہ ء آب پر صرف چین کی اجارہ داری نہیں، بلکہ ساری دنیا اس سے مستفید ہو سکتی ہے۔ اس سمندر میں چین نے نئے اور چھوٹے چھوٹے جزیروں کو دفاعی استحکامات سے لیس کر دیا ہے۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر سیر حاصل تبصرہ کرنے کی ضرورت ہے مگر اس کالم کا سکوپ مختلف ہے۔ میں قارئین کی توجہ اس خطہ بحرالکاہل کے ایک ایسے ملک کی طرف دلانا چاہتا ہوں جس کا نام فلپائن ہے، جس میں سینکڑوں چھوٹے بڑے جزیرے شامل ہیں، جس کا رقبہ تین لاکھ مربع کلومیٹر ہے، جس کی آبادی دس کروڑ نفوس سے زیادہ ہے اور جس میں 12فیصد مسلمان بستے ہیں۔ اس ملک میں مسلمانوں کی آبادی عیسائیوں کے بعد دوسری بڑی آبادی ہے۔(نقشہ دیکھئے)


اگلے روز روس کے دو بڑے بحری جنگی جہاز اسی فلپائن کی ایک بڑی بندرگاہ میں آکر لنگر انداز ہوئے ہیں۔ ان میں ایک طیارہ بردار ہے اور دوسرا آبدوز شکن وسائل سے لیس ہے۔یہی وہ علاقہ ہے جو کچھ عرصے سے چین اور امریکہ کے درمیان وجہ ء تنازعہ بنا ہوا ہے (امریکہ کے ساتھ اس کے دوسرے حواری یعنی مغربی یورپی ممالک، ویت نام اور بھارت بھی شامل ہیں)۔ چین کا ایک طیارہ بردار تو پہلے ہی ساؤتھ چائنا سمندر میں موجود ہے۔ اب روسی اور چینی طیارہ برداروں کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح روس نے شام میں آکر امریکہ (ناٹو)کو آنکھیں دکھائی تھیں، اسی طرح وہ اپنی بحریہ کو فلپائن میں لاکر امریکہ اور اس کے حواریوں کو پیغام یہ دینا چاہتا ہے کہ ہم تیسری گلوبل وار کے لئے تیار ہیں!


دو برس پہلے تک فلپائن کو بقول اپنے شیخ رشید کے، امریکہ کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی سمجھا جاتا تھا۔ فلپائن کی دفاعی افواج اور اس کی اکانومی پر امریکہ کی گرفت بہت مضبوط تھی۔ بعض لوگ تو اسے امریکہ کی 53ویں ریاست خیال کیا کرتے تھے اور جس طرح تائیوان، چین کی بغل میں بیٹھ کر امریکہ کا دم بھرتا ہے اور چین کا حریف ہے اس طرح فلپائن کو بھی اس علاقے میں دوسرا امریکی پٹھو سمجھا جاتا ہے۔ یورپ سے باہر ایشیا بھر میں اسرائیل، تائیوان اور فلپائن کوگویا امریکہ اور مغربی دنیا کی کالونیاں سمجھا جاتا ہے۔۔۔ لیکن حال میں فلپائن کے صدارتی انتخاب میں ایک ایسا شخص صدر منتخب ہوا ہے جو فلپائن کو امریکی حلقہ ء اثر سے باہر لانا چاہتا ہے۔ اس کا نام راڈری گو ڈوٹرٹی (Rodrigo Duterte) ہے۔ یہ شخص ایک شعلہ نوا مقرر ہے، انتہائی بے باک بلکہ منہ پھٹ ہے اور کسی امریکی اثر و رسوخ کو خاطر میں نہیں لاتا۔ امریکہ سے اس کی اَن بن منشیات (Drugs) کے معاملے پر ہوئی۔ ڈوٹرٹی اپنے ملک سے منشیات کا خاتمہ چاہتا ہے جبکہ امریکی مفادات مختلف ہیں۔۔۔ (اس موضوع پر انشاء اللہ پھر کبھی بات ہوگی۔)


گزشتہ اکتوبر میں صدر ڈوٹرٹی نے چین کا دورہ کیا تھا اور برملا اعلان کیا تھا کہ وہ روس اور چین سے نئے اور دیرپا روابط تشکیل کرنا چاہتا ہے۔پھر گزشتہ سال نومبر میں فلپائن کے وزیر دفاع نے ماسکو کا دورہ کیا اور اپنی افواج کے لئے روسی اسلحہ بارود، سازو سامان اور ٹریننگ کے موضوعات پر بات کی۔ مبصر کہہ رہے ہیں کہ امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈٹرمپ کے لئے فلپائن کا مسئلہ ایک بڑا سردرد ہوگا۔ فلپائن کی بحریہ اب روس اور چین سے مل کر اپنے پانیوں میں بحری مشقیں کرنے کا پروگرام بنا رہی ہے۔ دوسری طرف امریکہ نے بھارت کو اپنی مستقبل کی عالمی سٹرٹیجی میں ایک مضبوط گڑھ (Pivot) بنانے کی کوشش بھی کر رکھی ہے اور ویت نام وغیرہ نے بھی اس کا ساتھ دیا ہے لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ اس ’’گڑھ‘‘ کی بنیادیں لرزنے والی ہیں!


لگ رہا ہے کہ مستقبل قریب میں امریکہ کو نہ صرف مشرق وسطیٰ سے نکلنا پڑے گا بلکہ بحرالکاہل میں اس کے زیر تسلط جو سینکڑوں جزیرے ہیں اور جن کو اس نے مضبوط دفاعی / بحری مستقروں میں تبدیل کر رکھا ہے، ان پر بھی امریکی گرفت کمزور پڑنے والی ہے۔ جس طرح برطانیہ کو دوسری عالمی جنگ کے بعد اپنے نو آبادیوں سے رختِ سفر باندھ کر جزائر برطانیہ تک محدود ہونا پڑا تھا، اسی طرح امریکہ کو بھی بحرالکاہل اور مشرق وسطیٰ سے نکل کر اپنی ریاست ہائے متحدہ امریکہ تک محدود ہونا پڑے گا۔ اس وقت امریکہ کے پاس جو دس عدد عظیم طیارہ بردار بحری جنگی جہاز موجود ہیں، ان میں سے تقریباً نصف کو ڈی کمیشن کرنا پڑے گا اور خالقِ کائنات کا وہ فرمان پورا ہو کر رہے گا کہ ہم ایام کو ایک دوسرے پر پھیرتے رہتے ہیں۔ ممکن ہے ہماری زندگی میںیہ ’’پھیر‘‘ مکمل نہ ہو لیکن ہماری آئندہ نسل ضرور دیکھے گی کہ اس فرمانِ خداوندی کی تکمیل ہو رہی ہے۔


کالم کے شروع میں، عرض کیا گیا تھا کہ خدا خود مختلف اقوام و ممالک میں تنازعے پیدا کرکے ان کو آزماتا رہتا ہے۔ آج ہمیں معلوم ہو رہا ہے کہ یہ سلسلہ ء آزمائش ازل سے شروع ہے اور ابد تک باقی رہے گا۔ سوچتا ہوں کہ غالب نے شاعرانہ انداز میں جو استدلال کیا تھا کہ یہ اونچ نیچ، یہ نشیب و فراز، یہ بلندیاں اور پستیاں، یہ عروج و زوال اور یہ صعودو نزول ہمیشہ جاری رہتے ہیں تو وہ ظالم کتنا درست تھا:
آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیشِ نظر ہے آئینہ ء دائم نقاب میں

مزید :

کالم -