تحریر: صاحبزادہ پیر مختار احمد جمال تونسوی
دینِ اسلام کی ترویج واشاعت کے سلسلہ میں آپ ؒ کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیںیارانِ طریقت نے نہ صرف آپؓکو دل وجان سے چاہا بلکہ آپکی تعلیمات اور فرمودات کی روشنی میں اپنی زندگی کے شب وروز گزارتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم سے خود منصبِ ولائت پہ فائز ہوئے۔یہی وجہ کہ آج جب بھی کہیں ’’گیارہویں شریف‘‘کا لفظ سننے یا پڑھنے کو ملتا ہے توحضور سیدناغوثِ اعظمؒ کا اسمِ پاک ہمارے دل وزبان پر آجاتا اور سر عقیدت واحترام سے جھک جاتا ہے۔حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کا آستانہ ہو یا حضرت بابا فریدالدین گنجِ شکرکی خانقاہ۔۔۔پیر سید مہر علی شاہ گولڑہ شریف کا آستانہء عالیہ ہو یا حضرت خواجہ شمس الدین سیالویؒ کی درگاہ۔۔۔حضرت خواجہ قبلہء عالم نور محمد مہاروی چشتیاں شریف کا آستانہء پاک ہو یا حضرت خواجہ شاہ سلیمان تونسویؒ کی خانقاہ ۔۔۔حضرت صوفی برکت علی لدھیانویؒ کا درِدولت ہو یا ابومختار حضرت خواجہ صوفی جمال الدین تونسویؒ دیپال پورکی درگاہ شریف۔۔۔سائیں لالہ پاک کھریپڑشریف کا آستانہ ہو یا حضرت کرمانوالہ شریف کی خانقاہ،دنیا بھر کی تمام خانقاہوں پر گیارہویں شریف کی محافل بڑے اہتمام سے سجتی نظر آئیں گی اور ہر جگہ لنگر کا بڑا وسیع اہتمام وانتظام کیا جاتا ہے۔جہاں سفید پوش اور یارانِ طریقت کیساتھ ساتھ غرباء ومساکین افراد بھی اللہ تعالیٰ کے اس دیئے رزق سے اپنی بھوک مٹاتے ہیں۔
گیارہویں کے حوالہ سے حضرت شاہ عبدالعزیزؒ (ملفوظات عزیزی)میں فرماتے ہیں کہ
’’حضرت غوثِ اعظمؓ کے روضہ مبارک پر گیارہویں تاریخ کو بادشاہ وغیرہ شہر کے اکابر جمع ہوتے،نمازِ کے بعد مغرب تک کلام اللہ کی تلاوت کرتے اور حضرت غوثِ اعظمؓکی مدح اور تعریف میں منقبت پڑھتے،مغرب کے بعد سجادہ نشین درمیان میں تشریف فرما ہوتے اور ان کے گرد مریدین اور حلقہ بگوش بیٹھ کر ذکرِ جہر کرتے اسی حالت بعض پر وجدانی کیفیت طاری ہوجاتی۔اس کے بعد طعام شیرینی جو نیاز تیار کی ہوتی،تقسیم کی جاتی اور نمازِ عشاء پڑھ کر لوگ رخصت ہوجاتے۔‘‘
علامہ یافعیؒ قرۃالناظروخلاصۃالمفاخر میں فرماتے ہیں کہ ’’حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓہر سال ربیع الآخرکی گیارہ تاریخ کو رحمتِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نیاز دلوایاکرتے،یہ نیاز اتنی مقبول ہوئی کہ پھر آپؓ ہر ماہ کی گیارہ تاریخ کو بڑے اہتمام کیساتھ حضورِ اقدسﷺکی نیاز دلواتے آخر رفتہ رفتہ یہی نیاز خود حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کی نیاز قرار پائی۔‘‘
اس حوالہ سے ایک اور جگہ علامہ ابراہیم الدوربی لکھتے ہیں کہ ’’علامہ ابن تیمیہ دمشق (شام)سے درگاہ جیلانیہ میں نذرانے اور ہدیے،درس وتدریس اور(غوثیہ لنگر میں)کھانا کھلانے کیلئے ربیع الاول کی آخری تاریخوں میں بھیجا کرتے تھے اور یہ قافلہ تیس اونٹوں پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔
پیرانِ پیرحضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓالمعروف سیدنا غوثِ اعظمؓوہ عظیم ہستی اوربزرگ ہیں کہ جو کسی تعارف کی محتاج نہیں،آپؓ کی ولادت باسعادت یکم رمضان المبارک 470ھ کو قصبہ جیلان میں ہوئی۔آپؓ کی ولادت کی رات آپؓ کے والدِ محترم نے ایک خواب دیکھا کہ ’’حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے صحابہ کرامؓ اور اولیائے کرام کے ہمراہ ہمارے گھر تشریف فرما ہیں اور آپﷺ فرما رہے ہیں کہ ’’اے ابو صالح! مبارک ہو،تجھے اللہ تعالیٰ نے فرزند صالح عطا فرمایا ہے اور وہ میرے لیے بیٹے کی مانند ہے اور اولیاء میں اس کا بہت بلند مرتبہ ہے۔‘‘
اولیائے کاملین ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور کسی خوف وڈر یا مصلحت کو خاطر میں نہیں لاتے۔آپؓ کی سچائی کا ایک واقعہ جوبہت مشہور ہے کہ جب آپؓ جیلان سے ابتدائی تعلیم حاصل کر چکے تو آپؓ کی والدہ ماجدہ سیدہ ام الخیر فاطمہؒ نے آپؓ کو خصوصی تعلیم کیلئے بغداد شریف کے سفر پر روانہ کرتے وقت آپؓ کے لباس میں چالیس اشرفیاں سی دی تھیں اور ساتھ نصیحت فرمائی کہ بیٹا ہمیشہ سچ بولنا اور ہر معاملہ کی بنیاد راست بازی پر رکھنا۔ آپؓ کا قافلہ ہمدان تک تو خیریت سے پہنچ گیالیکن جب یہ قافلہ ہمدان سے ذرا آگے ترتنگ کے سنسان اور بیابان کوہستانی علاقے میں پہنچا تو ڈاکوؤں کے ایک گروہ نے اس قافلہ پر حملہ کردیااور لوگوں سے سب کچھ چھین لیا آپؓ ایک طرف کھڑے رہے ،ایک چھوٹا سا لڑکا ہونے کی بنا پر کسی ڈاکو نے آپؓ کو ہاتھ تک نہ لگایامگر جاتے جاتے ایک ڈاکو کی نظر آپؓ پر پڑی تو وہ قریب آیااور پوچھاکہ ’’اے لڑکے!تیرے پاس کیا ہے؟‘‘آپؓ نے بغیر کسی خوف وڈر کے برملا کہہ ڈالا کہ میرے پاس چالیس دینار ہیں ،ڈاکو بولا ،کہاں ہیں ؟آپؓ نے اسے بتایا کہ یہ میری عبا میں بغل کے نیچے سیئے ہوئے ہیں ،ڈاکو نے آپؓ کی اس صاف گوئی کو مذاق سمجھا اور آگے بڑھ گیاپھر ایک اور ڈاکو آیا اس نے بھی یہی گفتگو کی آپؓ نے جواب میں پھر وہی الفاظ دہرائے۔یہ دونوں ڈاکو آپؓ کو اپنے سردار احمد بدوی کے پاس لے گئے،سردار نے کہا ،اے لڑکے سچ سچ بتا کہ تیرے پاس کیا ہے؟آپؓ نے پوری دلیری اور صداقت کیساتھ پھر وہی جواب دیا۔سردار نے آپؓ کی عبا کو پھاڑا تو اس میں سے واقعی چالیس دینار برآمد ہوئے۔سردار نے انتہائی حیرت کے عالم میں آپؓ سے مخاطب ہوا اور کہا’’لڑکے تم کو معلوم ہے کہ ہم قزاق ہیں ،رہزن ہیں ،قتل وغارت ہمارا پیشہ ہے،پھر بھی تم کو ہم سے ذرا خوف نہ آیا۔‘‘آپؓ نے مسکراتے فرمایا کہ میری والدہ محترمہ نے گھر سے چلتے وقت مجھے یہ نصیحت فرمائی تھی کہ بیٹا ہمیشہ سچ بولنا،میں بھلا اپنی والدہ کی نصیحت کو کیسے فراموش کرسکتا تھااور وہ بھی صرف چالیس دینار کی خاطر!مسلمان کا عہد پکا ہوتا ہے ۔یہ محض الفاظ نہیں بلکہ حق وصداقت کے ترکش سے نکلے ہوئے وہ تیر تھے جو سردار احمد بدوی کے سینہ میں شدت سے پیوست ہوگئے۔اس پر رقت طاری ہوگئی اور اسکی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے یہ اشکِ ندامت اس قدر بہئے کہ دل کی سیاہی دھل گئی اور دل روشن ہوگیا،سرداربولا کہ آفرین ہے تم پر کہ تم نے اپنی ماں کی نصیحت کو گرہ میں باندھا اور اس پر عمل کیا اور افسوس ہے اپنے آپ پر کہ میں اپنے اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کا پاس نہیں کرتااور اپنے خالقِ حقیقی کی نصیحتوں کو فراموش کردیا۔،سردار کے ساتھیوں نے اشک ندامت اور عجزوانکساری کا یہ منظر دیکھا تو ان کے پتھر دل بھی پگھل گئے اور سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ’’سردار تُو رہزنی میں ہمارا قائد تھا اور اب توبہ میں بھی ہمارا پیشرو اور سردار ہے۔‘‘یہ آپؓ کے وجودِ مسعود کی برکت تھی کہ سب ڈاکوؤں نے توبہ کی ۔تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں وہ سب کے سب اولیاء وابدال کے درجے پر فائز ہوگئے تھے۔کیونکہ ربِ قدوس کی ذاتِ پاک تو اپنے بندوں کی بخشش اور مغفرت کے بہانے ڈھونڈتی ہے۔کہ کوئی آئے تو سہی میری بارگاہ میں جھکنے کیلئے!اس پر اپنی نوازشوں کی بارش نہ کر دوں تو کہنا۔
آیئے! اب ایک واقعہ آپؓ کے زمانہء طالب علمی کا لیتے ہیں کہ آپؓ کس قدر سخاوت اور صبر استقامت کا مظاہرہ فرماتے تھے’’ایک دفعہ آپؓ پر بھوک کا شدید غلبہ ہوا،یہاں تک کہ پیدل چلنے کی سکت نہ رہی،آخر بغداد کی ایک مسجد بیٹھ گئے،اتنے میں ایک ایرانی نوجوان گرما گرم روٹیاں اور بھنا ہوا گوشت لے کر مسجد میں آیا اور بیٹھ کر کھانے لگا۔اچانک آپؓ کی نظر اس پر پڑی لیکن شانِ غیرت غالب آئی اور استغفار پڑھ کر اپنا منہ پھیر لیا۔ایرانی نوجوان نے آپؓ کو کھانے میں شریک کرنا چاہا مگر آپؓ نے انکار کردیامگر جب اس نے بہت زیادہ اصرار کیا تو حضور غوثِ اعظمؓ نے مجبور ہوکر اس کی دعوت قبول فرمالی،لیکن لقمہ اٹھاتے ہی دل میں کچھ خیال پیدا ہوا اور اس نوجوان سے پوچھنے لگے کہ آپ کہا ں سے تشریف لائے ہیں ۔تو اس نوجوان نے جواب دیا کہ جیلان سے روزگار کے سلسلہ میں یہاں آیا ہوں،اس پر آپؓ نے فرمایا کہ میں بھی جیلان کا رہنے والا ہوں۔نوجوان نے پوچھا کہ آپؓ جیلان کے ایک نوجوان طالب علم عبدالقادر کو جانتے ہیں ،آپؓ نے فرمایا کہ میرا ہی نام عبدالقادر ہے۔یہ سن کر اس نوجوان کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور شرمندگی کے لہجے میں عرض کیا کہ معاف کیجئے گا کہ میں نے آپؓ کی امانت میں خیانت کی ہے۔ اس پرشیخ عبدالقادر جیلانیؓ نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے واقعہ دریافت کرنا چاہا تو وہ نوجوان بولاکہ’’میں روزگار کی تلاش میں جب جیلان سے بغداد روانہ ہوا تو آپؓ کی والدہ ماجدہ نے مجھے آپؓ کیلئے آٹھ دینار دیئے تھے ،بغداد پہنچ کر آپؓ کو کئی دن تلاش کیا اسی اثناء میں میرے پاس جو تھوڑی بہت رقم تھی وہ خرچ ہو گئی اور کہیں روزگار نہ ملاجب فاقہ کشی پر نوبت آئی تومیں نے آپؓ کی امانت میں سے ایک دینار خرچ کرکے اپنے کھانے پینے کا انتظام کیا ۔اصل میں یہ کھانا آپؓ ہی کے پیسوں سے خریدا گیا ہے۔‘‘سرکار غوثِ پاک نے آبدیدہ ہو کر ربِ قدوس کا شکر ادا کیا کہ اس نے شدید آزمائش کے طور پر آپؓ کو غیر کے آگے شرمندہ نہیں ہونے دیا۔اس کے بعدآپؓ نے اس ایرانی نوجوان کو دلاسا دیا اور اس نے سات دینار جو آپؓ کی خدمت میں پیش کیے تھے ،ان میں صرف جزوقلیل اپنے لیے رکھ لیے اور باقی رقم اس کو عطا فرمادی۔
آپؓ ابھی چھبیس برس ہی کے تھے کہ آپؓ نے علمِ قرات،علمِ تفسیر،علمِ فقہ،علمِ حدیث،علمِ ادب،علمِ کلام،علمِ لغت،علمِ نحو،علمِ عروض،علمِ مناظرہ اور دیگر علوم پر عبور حاصل کرلیا تھا۔آپؓ نے حصولِ علم کے سلسلہ میں بہت زیادہ اساتذہ کرام اور علماء وفضلاء سے استفادہ کیا،آپؓ نے جس کسی کیساتھ بھی علمی تشنگی بجھانے کیلئے چند لمحے گزارے اور کوئی بات سیکھی تو آپؓ اسے اپنے اساتذہ میں شمار کرتے اور ان کا ادب و احترام بجا لاتے تھے۔جب آپؓ نے اتنی چھوٹی سی عمر میں فتویٰ دینا شروع کیا تو علمائے ظاہر جنہیں اپنی تعلیم وعمل پر بڑا ناز تھا ،حسد کی آگ میں جلنے لگے۔اور ان کی صفوں میں ہلچل مچ گئی اور بالآخر علماء نے فتویٰ جاری کردیا کہ چھبیس سالہ نوجوان علمِ شریعت کی گہرائیوں کو نہیں سمجھ سکتا اور یہ اعتراض کیا کہ شیخ عبدالقادر جیلانیؓ نے فتویٰ جاری کرنے کی سند کہاں سے حاصل کی،جبکہ آپؓ کے اساتذہ زیادہ تر تو گوشہ نشین اور درویش تھے جنہیں شاہی دربار میں کوئی خاص تقرب نہیں تھا،اور یہ کہ شرعی مسائل کا حل پیش کرنا کوئی کارِ طفلاں نہیں ہے۔علمائے ظاہر کا یہی طرزِ عمل تھا کہ جس کی وجہ سے آپؓ دل گرفتہ ہو کر دشت نوردی اختیار کرتے۔لیکن جب آپؓ کے عقیدت مندوں نے آپؓ کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ حضوریہ لوگ اسی بات کو بہانہ بنالیں گے کہ یہ حقائق سے ناآشنا ہے اس لیے روپوشی اختیار کرتا ہے ،آپؓ نے فرمایاکہ میں اللہ وحدہ لاشریک کے علاوہ کبھی کسی سے نہیں ڈرتا۔
پھر آپؓ علماء کے اس اجتماع میں تشریف لے گئے جہاں انہوں نے آپؓ کو دعوت دی،ان کا مقصد تھا کہ شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کا امتحان لیا جائے،آپؓ سے پہلے وہ تمام علماء جو آپؓ سے خائف اور حسد کرتے تھے،انتہائی خوب صورت اور مہنگی ترین عبائیں زیبِ تن کیے آنکھوں میں علم وآگہی کا خمار لیے آپؓ کے لیے سراپاء انتظار تھے۔جبکہ آپؓ ایک معمولی سا لباس اپنے بدنِ اطہر پہ سجائے،جھکی نظروں میں وہاں پہنچے اور قدرے خاموشی کے بعد آپؓ نے فرمایا کہ میں اس قابل تو نہیں کہ کسی امتحان سے گزر سکوں ،اگر رسمِ دنیا یہی ٹھہری تو بسم اللہ !کہہ کر آپؓ نے ان امتحان لینے والے علماء کو غور سے دیکھا،بس یہی ایک نظرباکمال تھی کہ جو سب کا کام تمام کر گئی،دنیائے قلب بدل گئی ،ایک ہی نظر میں سب کی کایا پلٹ گئی تھی اور سب کے سب علماء سربہ گریبان ہو کر رہ گئے تھے وہ اس صورت میں بھلاآپؓ کا کیا امتحان لیتے ؟ان کے اپنے پاس کچھ نہ بچا تھا ۔کافی دیر خاموش بیٹھے رہنے کے بعد علماء کہنے لگے کہ سوال کیا کریں یوں لگتا کہ ہمارے ذہنوں سے سب کچھ رخصت ہوگیا ہے۔آپؓ نے فرمایا کہ پھر مجھے اجازت دیجئے۔وہ سبھی بولنے لگے کہ حضور ! خدارا ہم پر مہربانی اور شفقت فرمایئے ہم تو خالی مشکیزہ کی طرح ہو کر رہ گئے ہیں۔اس وقت چشمِ فلک وچشمِ عالم نے ایک عجیب منظر دیکھا کہ امتحان لینے والے خود امتحان سے دوچار ہوگئے اور اساتذہ خود ایک شاگرد سے بخشش و عطا کا سوال کرنے لگے،آپؓ نے ربِ قدوس کے جلال و کرم کا پردہ وا کرتے ہوئے فرمایاکہ’’میں شمشیربرہنہ اور سان چڑھتی ہوئی تلوار ہوں،میرا تیر نشانہ پر لگنے والا ہے ،میرا نیزا بے خطا ،میرا گھوڑا بے زین ہے،میں عشقِ خداوندی کی آگ ہوں،حال واحوال کا سلب کرنے والا ہوں،دریائے بیکراں اور راہنمائے وقت ہوں۔‘‘
یہ کلام حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ عالمِ جذب میں فرما رہے تھے کہ علماء بغداد بے ساختہ پکار اٹھے’’بے شک بے شک!ہمیں یقین آگیا ہے ہم پہلے آپؓ کو پہچانتے نہیں تھے ہماری کوتاہی پر در گزر فرمائیں اور سینہ صاف کرلیں۔‘‘تو اس پر آپؓ نے ارشاد فرمایا کہ پروردگارِ عالم نے میرا سینہ صاف کردیا ہے ۔تم خدا سے معافی مانگو،میرا علم دنیا سے نہیں بلکہ مجھے اللہ تعالیٰ عالم الغیب نے سکھایا ہے۔جس کا فرمانِ مقدس ہے کہ ’’واتیناہ علم الدنی اور ہم نے اسے علم لدنی عطا کیا۔‘‘(القرآن)
اے بے خبرو!اے دنیا سنوارنے والو!اپنی آخرت برباد نہ کرو۔میں نے معاف کردیا ہے ۔اللہ تمہیں معاف کردے کہ جس کے بغیر کوئی ٹھکانہ نہیں۔اس سے علماء کے ذہن سے تاریکی کے بادل چھٹ گئے اور وہ بیدار ہوگئے ۔جو آپؓ کے سخت مخالف تھے ،اب وہی آپؓ کی قدم بوسی کرنا اپنے لیے سعادت سمجھنے لگے۔
تصوف کے تمام سلاسل کی شان و عظمت اپنی جگہ بڑی باکمال ہے مگر سلسلہ قادریہ کی شان وعظمت اس حوالہ سے بڑی منفرد اور جدا گانہ ہے کہ اس کے بانی حضرت سید محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانیؓہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپؓ کا فرمانِ عالیشان ہے کہ’’ قدمی ھذا علیٰ رقبۃ کل ولی اللہ ،یعنی تمام اولیائے کرام کی گردنوں پر میرا قدم ہے۔‘‘عارف ربانی جنید ثانی ؒ حضرت پیر دستگیر شیخ میرؒ فرماتے ہیں کہ’’ اس کے مطلب یہ کہ میرا طریقہ سب طریقوں سے اعلیٰ ہے ،اور قدم سے مراد طریقہ ہے ،اور تمام اولیاء نے جو گردن جھکالی،اس سے مراد یہ ہے کہ تمام اولیاء نے اس امر کو تسلیم کرلیا ہے۔اور یہ اللہ تعالیٰ کی بے انتہا مہربانی ہے۔‘‘
آپؓ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا تمام عمر درس دیتے رہے نماز کی تاکید کرتے ہوئے تو آپؓ نے یہاں فرمادیا کہ ’’بے نمازی کی قبر مسلمانوں کے قبرستان میں نہ بناؤ۔‘‘کیونکہ مسلمان اور کافر کے فرق کو نماز ہی ظاہر کرتی ہے۔آپؓ کے وعظ وارشادات سننے کیلئے لوگ ہزاروں کی تعداد میں مجلس میں ہوا کرتے تھے۔اور آپؓ کے ارشادات کو قلمبند کرنے کیلئے چار چار سو دوات بھی شمار کی گئی ہیں۔اور آپؓ کی مجالس میں ستر ہزار تک لوگ شمار کیے گئے ہیں ۔اور آپؓ کے معتقدین ومریدین ایسے مواقع پر سوچا کرتے تھے کہ متلاشیانِ حق سرکار غوث اعظمؓ کے وعظ وارشادات سے کس طرح مستفیض ہونگے۔مگر آپؓ کا کمال تصرف اور کرامت تھی کہ مجلس میں شامل ہر بندہ کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے وہ غوثِ اعظم کے فرامینِ مقدس کو قریب سے سماعت کر رہے ہیں اور شیخ عبدالقادرؓ قریب ہی جلوہ فرما ہیں۔آپؓ ہمیشہ وجد وجذب اور استغراق والہام کے عالم میں وعظ فرماتے اور مجلس میں موجود تمام افراد اس طرح ہمہ تن گوش ہوتے کہ جیسے مر چکے ہوں اور بعض اوقات صرف سانسوں کی آواز سنی جاتی تھی۔جب آپؓ بیان ختم فرماتے تو اس طرح کہتے کہ ’’من قال فی الحال یعنی ہم قال سے حال میں آتے ہیں۔‘‘ تو سامعین ایک دم ہوش میں آتے اور گریہ زاری کرنے لگتے اور اکثر اوقات تو ایسا بھی دیکھنے میں آیا کہ وعظ کے اختتام پر کئی کئی جنازے اٹھے ۔آپؓ کے وعظ و تقاریرسے کئی کتابیں بھی لکھی گئیں ،جن میں یہ کتابیں زیادہ مشہور ہیں (۱)فتوح الغیب(۲)فتح الربانی(۳)رسالہ الغوثیہ۔
آپؓ سلاطین وقت اور حکمرانوں کی صحبت اختیار کرنے والے سرکاری ودرباری علماء ومشائخ عظام کو پسند نہ کرتے تھے اور ان کی سخت مذمت فرماتے تھے،ایک موقع پر آپؓ نے علماء ومشائخ کے ایسے گروہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ’’اے علم وعمل میں خیانت کرنے والو!تمہیں ان(سلاطین وحکام)سے کیا نسبت؟اے اللہ اور اس کے رسولؐ کے دشمنوں!اے بندگانِ کے حقوق غضب کرنے والو!تم کھلے ظلم اور کھلے نفاق میں مبتلا ہو۔۔۔اے عالمو!اے زاہدو!بادشاہوں اور سرداروں کیلئے کب تک منافق بن کر ان سے دنیا کا مال ومتاع اور شہوات ولذات لیتے رہو گے؟تم اور اس زمانے کے اکثر بادشاہ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے متعلق ظالم اور خائن بنے ہوئے ہو۔۔۔اے اللہ! منافقوں کی شوکت توڑ دے،ان کو ذلیل فرما،توبہ کی توفیق دے،ان ظالموں کا قلع قمع فرمااور ان کی اصلاح فرما یا زمین کو ان سے پاک کردے۔‘‘
آپؓ کے فیض کا یہ روحانی چشمہ قیامت تک جاری رہے گا جس سے متلاشیانِ حق اپنی پیاس بجھاتے رہیں گے۔اور فیض پاتے رہیں گے۔آپؓ نے اس دنیائے فانی سے 91برس کی عمر میں 11ربیع الثانی561ھ کو چ فرمایا۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں خرافات سے بچتے ہوئے آپؓ کی تعلیمات اور فرمودات کی روشنی میں زندگی کے شب وروز گزارنے کی توفیق وہمت عطا فرمائے۔تاکہ ہم اپنی زندگی کے اصل مقصد کو پاسکیں ۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔