امریکہ کی یاری، قوم پر بھاری
’’امریکہ کا جو یار ہے، غدار ہے غدار ہے‘‘۔۔۔والا نعرہ تو ہم سب بچپن ہی سے سنتے آئے ہیں۔ یہ نعرہ ہمیشہ مذہبی جماعتوں یا زیادہ سے زیادہ کبھی کبھار اپوزیشن والوں کی طرف سے لگتا رہا ہے، مگر اب وزیرخارجہ خواجہ آصف نے امریکہ کو یار مارکہہ کر اس نعرے کی یاد تازہ کر دی ہے۔ یہ بھی شاید امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کمال ہے کہ اس نے سارے پردے ہٹا دیئے ہیں، ورنہ تو امریکہ ہمیں دھمکی دیتا ضرور تھا، مگر اوپر اوپر سے ہماری پیٹھ بھی سہلاتا تھا۔ ٹرمپ نے تو سارے تکلفات ہی ختم کر دیئے ہیں اور اب پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے کے متحارب کھڑے ہیں۔ جب دانشور اور مبصرین ہمارے حکمرانوں کو سمجھاتے تھے کہ امریکہ کسی کا دوست نہیں تو وہ اسے نہیں مانتے تھے، بلکہ امریکی خوشنودی کے لئے ہر حد پار کر جاتے تھے۔ ایک ایسا ملک جس کی تاریخ خود غرضی سے بھری پڑی ہے اور جس کے بارے میں دنیا کے کسی ایک ملک کو بھی یقین نہیں کہ امریکہ اس کا دوست ہے،ہم اسے ستر سال تک اپنے سر پر بٹھائے اس کی ہر بات مانتے چلے گئے، جو ملک اپنے دیئے ہوئے پیسے کا حساب رکھتا ہو، وہ اچھا دوست کہاں ہو سکتا ہے، اور پھر جسے صرف اپنے ڈالرز یاد ہوں،اس ملک کی قربانیاں یاد نہ ہوں، وہ ایک سود خور بنیا تو ہو سکتا ہے، اچھا دوست نہیں۔ اگر پاکستان میں ’’امریکہ کا جو یار ہے، غدار ہے غدار ہے‘‘ کے نعرے لگتے رہے ہیں تو اس کی کوئی وجہ تو ہوگی۔ جو بصیرت ایک عام آدمی میں رہی ہے وہ ہمارے حکمرانوں اور جرنیلوں کو کیوں نصیب نہیں ہو سکی۔ پوری دنیا میں شاید پاکستان ہی وہ ملک ہے جو ہمیشہ امریکہ کے لئے گھر کی مرغی بنا رہا ہے، وگرنہ ہر کِسی ملک نے امریکہ کی کوئی بھی فرمائش اتنی آسانی سے پوری نہیں کی۔
پاک امریکہ تعلقات کی یہی جہت تھی جس کی وجہ سے امریکہ کو یہ ہمت ہوئی کہ نائن الیون کے بعد پاکستان کے صدر کو فون کرکے کہے کہ ’’یا ہماری بات مانو یا پھر تورا بورا بننے کے لئے تیار ہو جاؤ‘‘۔۔۔ آج پرویز مشرف اس کی توجیح پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس وقت اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ کیوں نہیں تھا؟ اس لئے کہ خود پرویز مشرف نے اقتدار پر غیر آئینی قبضہ جما رکھا تھا اور انہیں فکر تھی کہ اگر امریکہ کی بات نہ مانی تو اگلے دن گھر بھیج دیاجاؤں گا۔ آخر کچھ تو منوانا چاہیے تھا۔ اس طرح تو کوئی یتیم بھی اپنا گھر کسی کے سپرد نہیں کرتا، جس طرح پرویز مشرف نے ایک ٹیلی فون کال پر کیا۔ اب اس قسم کی تابعداری کو دیکھ کر امریکہ کا دماغ تو خراب ہونا ہی ہے۔ وہ آج بھی یہی چاہتا ہے کہ پاکستان اسی طرح سرِ تسلم خم کرے اور افغانستان کی جنگ میں کود پڑے۔ جب اسے انکار کا سامنا کرنا پڑا ہے تو ہر بدمعاش کی طرح اس کا دماغ بھی اُلٹ گیا ہے اور وہ دھمکیوں پر اتر آیا ہے۔ عادت جاتے جاتے جاتی ہے، ستر سال کی بگڑی ہوئی عادت کو ٹھیک کرنے میں ہمیں وقت لگے گا، لیکن اب یہ طے کر لینا چاہیے کہ امریکہ سے ہماری دوستی نہیں ہو سکتی۔ اس لئے نہیں کہ ہم دوست بننا نہیں چاہتے، بلکہ اس لئے کہ امریکہ کسی کا دوست بن ہی نہیں سکتا، اس نے ہر اس ملک کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے، جس نے اس سے دوستی کا دعویٰ کیا یا دوستی کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ آپ عراق، مصر، لیبیا اور اب سعودی عرب کا حال دیکھیں، سب اس کی دوستی کے ہاتھوں زخم خوردہ ہیں۔ وہ ایسے ممالک ڈھونڈتا ہے، جن کے ذریعے اپنے مفادات پورے کر سکے۔ آج اگر افغانستان کا مسئلہ نہ ہو تو امریکہ ہماری طرف دیکھے بھی نہ اور اس کی ساری توجہ بھارت کو علاقے کا چودھری بنانے پر مرکوز ہو جائے۔ وہ تو طالبان نے اس کی ناک میں دم کر رکھا ہے اور اس کی سپرپاوری کے سب کس بل نکال دیئے ہیں، جس کے باعث اسے پاکستان کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ وہ آج بھی ہمیں کرائے پر حاصل کرکے اپنے مقاصد کا ایندھن بنانا چاہتا ہے، مگر اب شاید اس کی دال نہیں گل رہی، کیونکہ پورا ملک امریکہ کے سامنے آکھڑا ہوا ہے۔
کسی نے سچ کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کا گوربا چوف ثابت ہوگا۔ فرق صرف یہ ہے کہ گوربا چوف نے روس کے ٹکڑے کر دیئے تھے۔ ٹرمپ امریکہ پر دنیا کے اعتماد کو کرچی کرچی کر رہا ہے۔ ایسے ممالک کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو امریکہ کی جعلی چودھراہٹ کو ماننے کے لئے تیار نہیں، اب پاکستان بھی ان میں شامل ہو گیا ہے۔ شاید اس لئے کہ سب کچھ کرنے کے باوجود امریکی دھمکیوں نے ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہر قسم کی قربانی دینے کے باوجود ڈونلڈٹرمپ کی بڑھک بازی ہمیں کسی صورت گوارا نہیں۔ابھی بہت سے لوگوں کو خوف محسوس ہو رہا ہے، ان کے خیال میں امریکہ سے بگاڑ کر ہم پاکستان کی سلامتی کے لئے ایک بڑا خطرہ مول لے رہے ہیں۔ حقیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ امریکہ نے قوم کو مزید متحد کر دیا ہے۔ یہ امریکہ ہی تھا جو ہمارے اندر دراڑیں ڈالتا تھا۔ ہمیں فرقوں، جماعتوں اور علاقوں میں تقسیم کرتا تھا۔ اب اس کے خلاف ہم سب متحد ہو گئے ہیں۔ اس کی ’’لڑاؤ اور مفاد حاصل کرو‘‘ والی پالیسی بھی بے نقاب ہو گئی ہے۔ ایک طرف سیاسی قیادت کو تھپکی دیتا اور دوسری طرف عسکری قیادت کی پیٹھ ٹھونکتا تھا۔ اب دونوں اس کے خلاف متحد ہیں۔ ٹرمپ کی دھمکی بجائے خود اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان اب امریکہ کی چراگاہ نہیں رہا، بات پہلے کی طرح چلتی رہتی اور ہم ڈومور کرتے رہتے تو شاہد یہ نوبت نہ آتی، مگر ہمارے بدلے ہوئے بیانیہ نے امریکہ کو حیران و پریشان کر دیا ہے۔یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ اتنی تیزی سے یکے بعد دیگرے ہمارے خلاف اقدامات اٹھا رہا ہے۔ اِدھر ڈونلڈٹرمپ نے ٹویٹ کیا ،اُدھر امریکی محکمہ خارجہ نے اقدامات اٹھانا شروع کر دیئے۔ امداد معطل کر دی اور مزید اقدامات کی وارننگ دے دی۔ شاید یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا کہ پاکستان کو دباؤ میں لایا جا سکے، لیکن ’’اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں‘‘ اس کا مثبت اثر ہوا۔ پاکستان پر شدید جارحانہ اثرات مرتب ہوئے اور امریکہ کو منہ توڑ جواب دیا گیا۔
امریکی تاریخ تو یہی رہی ہے کہ آگے سے سخت جواب آ جائے تو وہ جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بار وہ کیا کرتا ہے؟ مگر ایک بات طے ہے کہ اس کے اقدامات نے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں۔ ۔۔۔شہبازشریف نے بالکل درست کہا ہے کہ ہم نے ستر سال تک امریکہ سے دوستی نبھائی، مگر اب اس کے ساتھ نہیں چل سکتے، اب ہمیں آزادی کے ساتھ اپنے راستے کا تعین کرنا ہے۔ امریکہ کی پہلی حکمتِ عملی یہی ہوتی ہے کہ دوسرے ملک کو اپنا دست نگر رکھے۔ اس کی ایک سادہ سی مثال ایف 16طیاروں کا معاملہ ہے! امریکہ نے پیسے لینے کے باوجود ہمیں ایک عرصے تک یہ طیارے فراہم نہیں کئے تھے، پھر ان طیاروں کی دیکھ بھال کے لئے سپیئر پارٹس کے معاملے پر بھی اپنی اجارہ داری برقرار رکھی اور ان کی ٹیکنالوجی فراہم نہیں کی۔ اس کے ساتھ ہی امریکی بٹیرے کی کہانی تو تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ جب اس نے ہمیں اندھیرے میں رکھنے کے لئے ساتواں بیڑہ بھیجنے کی بات تو کی، مگراس وقت تک نہیں بھیجا، جب تک مشرقی پاکستان پر بھارت کا قبضہ نہیں ہو گیا۔ مجھے یاد ہے کہ جب نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا تو یہ باتیں کی گئی تھیں کہ جس طرح سوویت یونین کے لئے افغانستان قبرستان بن گیا تھا، اسی طرح امریکہ کے لئے قبرستان ثابت ہو گا۔
آج وہ ہمیں کیا دھمکیاں دے رہا ہے۔ ایک ہارا ہوا ملک بھلا کسی کو کیا دھمکی دے سکتا ہے؟ افغانستان میں اسے بُری طرح شکست ہو چکی ہے۔ سولہ سال بعد بھی وہ کابل سے باہر قدم نہیں جما سکا۔ وہ بھاری فوج اتارنے کے باوجود ہماری منتیں کرتا ہے کہ اس کا قبضہ مضبوط بنانے کے لئے اس کی مدد کریں۔ ہم نے انکار کیا ہے تو وہ ایک شکست خوردہ شخص کی طرح دھمکیوں پر اتر آیا ہے۔ ذرا سوچئے کہ امریکہ افغانستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا اور زخمی گیڈر کی طرح غرا رہا ہے، حالانکہ افغانستان میں مزاحمت کے لئے منظم فوج ہے اور نہ اسلحہ ہے، دوسری طرف پاکستان ہے، جس کی سات لاکھ انتہائی پروفیشنل اور جذبہء ایمانی سے معمور فوج ہے اور ہر طرح کا اسلحہ موجود ہے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ 20کروڑ عوام فوج کے پیچھے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑے ہیں۔ ایسے میں امریکہ صرف اپنی وہ امداد تو بند کر سکتا ہے، جو درحقیقت کبھی ہمارے کام نہیں آئی، لیکن کوئی حملہ کرنے کی جرات نہیں کر سکتا اور اب تو ہم نے ڈرون گرانے کا واضح پیغام بھی دے دیا ہے۔ آج ہمیں اگر احساس ہو گیا ہے کہ امریکہ کی یاری قوم پر بھاری ہے، تو بڑی اچھی بات ہے۔ خود کو دھوکے اور خوف میں رکھ کر کو ئی قوم کیسے پنپ سکتی ہے؟ امریکہ ایک خود غرض دوست نما دشمن ہے، وہ کبھی کسی ملک کا بے لوث دوست ثابت نہیں ہوا۔ وہ جھوٹے نائن الیون بنا کر ممالک پر قبضہ کرتا ہے، اس کی خوشحالی کی عمارت انسانوں کی کھوپڑیوں پر تعمیر ہوئی ہے۔ جدید دنیا میں اس نے لاکھوں افراد کا بالواسطہ یا بلاواسطہ قتل کرایا ہے۔ وہ ملکوں کو تباہ کرتا ہے، انہیں کھنڈر بنا دیتا ہے اور اس کے بعد ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے۔ ہم اس کے چنگل سے نکل آئے ہیں تو اس سے بڑی خوش قسمتی اور کوئی نہیں۔ توقع کی جانی چاہیے کہ ہماری سیاسی و عسکری قیادت نے امریکہ کو ’’نومور‘‘ کہنے کا جو جرات مندانہ فیصلہ کیا ہے، اس پر ثابت قدم رہے گی۔ جلد ہی قوم کا اتحاد امریکہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گا۔