نیا سال آگیا۔اب کیا ہوگا؟
سیاسی اور غیر سیاسی پنڈت اب نئے سال کے پہلے اور دوسرے مہینے ،جنوری اور فروری میں حکومت کے خاتمے کی نوید سنا رہے ہیں۔باخبر حضرات کا دعویٰ ہے کہ جنوری کے دوسرے ہفتے سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی بنیاد پر شروع ہونے والی تحریک قصاص اپوزیشن جماعتوں کی حمایت کے ساتھ جب آگے بڑھے گی تو اس دوران ختم نبوت کی تحریک کے قائدین کی طرف سے رانا ثناء اللہ کے استعفے کے لیے دباؤ بڑھانے کا سلسلہ شروع کر دیا جائے گا۔جب جلسے جلوس آگے بڑھ کر دھرنوں میں تبدیل ہو نگے تو اس دوران اپوزیشن جماعتیں ایک بار پھر سر جوڑ کر بیٹھیں گی اور تمام اپوزیشن جماعتیں بیک وقت صوبائی اور قومی اسمبلی سے استعفے دے کرایک بڑا اپ سیٹ پیدا کر کے حکومت کے لیے مشکلات کھڑی کر دینگی۔جس کے نتیجہ میں سینٹ کے انتخابات کو روکنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی،اس حوالے سے پی ٹی آئی سمیت تمام اپوزیشن جماعتیں استعفوں کا کارڈ استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں۔لیکن پیپلز پارٹی ابھی تک اس آپشن کی مخالفت کر رہی ہے اگر پیپلز پارٹی استعفوں کی آپشن میں اپوزیشن جماعتوں کا ساتھ نہیں دیتی تو پھر یہ حکمت عملی دیگر بہت سی حکمت عملیوں کی طرح ناکام ہو سکتی ہے۔البتہ پیپلز پارٹی حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان بیلنس پاور ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری بیک وقت ن لیگی حکومت ،مشکلات میں گھرے نواز شریف اور استعفے دیکر موجودہ حکومت کو رخصت کرنے کی خواہش مند قوتوں سے بار گینگ کر رہے ہیں۔اطلاعات یہ ہیں کہ پیپلز پارٹی کے لیے ن لیگ نے بھی ایک پرکشش پیکج تیار کر کے پیغام رسانی کا عمل تیز کر دیا ہے جبکہ ن لیگ مخالف سیاسی و غیر سیاسی قوتوں نے بھی پیپلز پارٹی کے لیے کئی مراعات کی یقین دہانی کرادی ہے ۔ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق پیپلز پارٹی نے اجتماعی استعفوں کی تجویز کو رد کیا ہے پیپلز پارٹی کا خدشہ ہے کہ ایسا کرنے کی صورت میں عبوری حکومت کی تشکیل اورا لیکشن کا معاملہ کھٹائی میں پڑ سکتا ہے۔پیپلز پارٹی کا خدشہ اس لیے درست لگتا ہے اگر عبوری حکومت کی تشکیل سے قبل ہی اسملیاں تحلیل ہو جاتی ہیں تو عبوری حکومت کی تشکیل کا عمل مکمل کیسے ہوگا؟ آئینی طور پر عبوری سیٹ اپ حکومت اور اپوزیشن ملکر بنائے گی اگر اجتماعی استعفوں کے نتیجہ میں اسمبلیاں ختم ہو جاتی ہیں تو ملک میں ایک آئینی کرائسز پیدا ہوسکتا ہے، جس کے بعد عبوری سیٹ اپ بنانے کے لیے سپریم کورٹ یا پھر الیکشن کیشن کا کردار اہم ہو جائے گا۔اور اس طرح گیم سیاستدانوں کے ہاتھ سے نکل کر ایسے اداروں کے ہاتھ میں چلی جائے گی جن کو پہلے ہی سیاستدان شاکی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔جبکہ دوسری جانب عمران خان اور دیگر اپوزیشن جماعتیں کسی صورت یہ نہیں چاہتیں کہ عبوری سیٹ اپ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی ملی بھگت کے نتیجہ میں قائم ہو۔پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے قائدین کے مابین اس ایشو سمیت دیگر کئی معاملات پر خفیہ رابطے موجود ہیں۔
دونوں جماعتوں کا خیال ہے کہ اگر قبل از وقت اسمبلیاں ختم ہو گئیں تو عبوری حکومت کا معاملہ اگر سپریم کورٹ چلا جاتا ہے تو پھر جو غیر جانبدار عبوری سیٹ اپ ہوگا اسکی موجودگی میں انتخابابی نتائج کیاہونگے؟ اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ یہ عبوری حکو مت صرف 90دن کے لیے ہی ہوگی؟انجانے خوف اور کئی طرح کے خدشات کے ساتھ انتخابات کی جانب بڑھتی سیاسی جماعتوں کا اصل امتحان ابھی شروع ہوا ہے ۔جنوری اور فروری کے مہینوں کے دوران کئی پارٹیوں میں توڑ پھوڑ کا عمل شروع ہوگا۔مسلم لیگ ن جس کے قائدین ٖ فخریہ انداز میں یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ سخت ترین عدالتی فیصلوں اور اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ ن کو توڑا نہیں جا سکا اور نہ ہی ن لیگ میں کسی قسم کا فارورڈ بلاک بنایا جا سکا ہے تو اس حوالے سے میری اطلاع یہ ہے کہ ن لیگ کے ارکان کی ایک بڑی تعداد پارٹی چھوڑنے کے لیے بالکل تیار بیٹھی ہے۔ن لیگ کے مستقبل قریب میں پارٹی چھوڑنے کے خواہش مند ارکان نے جنوری فروری کا وقت طے کر رکھا ہے۔تا کہ انکے حلقوں میں جاری ترقیاتی منصوبے مکمل ہو سکیں۔اتنی دیر میں ملکی سیاست کا منظر نامہ بھی واضع ہو جائے گا۔یعنی ن لیگ کے ٹوٹنے کا وقت جنوری کا آخر اور فروری کا وسط ہو سکتا ہے ۔جب حکومت کے خلاف ماڈل ٹاؤن کا احتجاج اور ختم نبوت کااحتجاج دھرنوں کی شکل اختیار کر چکا ہوگا، میاں نوازشریف کے خلاف مقدمات بھی کافی آگے بڑھ چکے ہونگے یہ وہ وقت ہوگا جب ن لیگ کے ارکان کی ایک بڑی تعداد مسلم لیگ ق ،پی ٹی آئی،اور آصف علی زرداری کی پارٹی کا رخ کرے گی،اور ن لیگ کے ارکان کو جب ختم نبوت کے نام پر پارٹی چھوڑنے کا مضبوط جواز بھی مل چکا ہو تو پھر ایسے حالات میں ن لیگ کے ٹوٹنے کی تھیوری میں کافی صداقت لگتی ہے ۔جنوری فروری میں ختم نبوت کامعاملہ ایک بار پھر اٹھے گا تو ان حالات میں ن لیگ کا جو رکن پارٹی چھوڑے گا وہ نہ صرف ہیرو کہلوائے گا بلکہ ان کے حلقوں میں انکے مذہبی ووٹ میں بھی اضافے کا واضع امکان ہے۔عائشہ گلالئی کے ایشو پر الیکشن کمشن پہلے ہی ارکان اسمبلی کو پارٹی وفاداری تبدیل کرنے کے عمل کو قانونی قرار دے چکا ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ ان حالات میں اگر2018ء کے الیکشن ہوتے ہیں تو پھر کیانقشہ ہوگا؟ مجوزہ ملکی سیاسی منظر نامہ کچھ اس طرح ہوسکتا ہے۔وفاق میں پی ٹی آئی،حکومت بنائے گی ہوسکتاہے عمران خان زیادہ اکثریت نہ لینے کی وجہ سے پیپلز پارٹی ،ق لیگ ،وغیرہ کو ملا کر ایک مخلوط حکومت کی تشکیل دینے پر مجبور ہو جائیں۔سندھ بدستور پیپلز پارٹی کے پاس رہے گا کراچی اربن سے پی ٹی آئی اور پی ایس پی کا اتحاد ایک بڑی قوت کے ساتھ سامنے آئے گا۔بلوچستان میں پی ٹی آئی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی،آزاد کشمیر میں بھی اسی پارٹی کی حکومت بنے گی جو مرکز میں حکومت میں ہوگی۔کے پی کے میں پی ٹی آئی ایک بار پھر حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ن لیگ کا مضبوط قلعہ پنجاب ہے جس پر جنوری فروری کے دوران سلطان محمود غزنوی کی طرح لگ بھگ 17 سے زیادہ حملے ہونگے۔اور نتیجًہ ن لیگ کے قلعہ کی دیواروں میں کافی بڑے بڑے سوراخ ہو جائیں گے۔اور پنجاب کی تعمیر اور ترقی کے سابقہ ریکارڈ اور خدمات کو سامنے رکھتے ہوئے چودھری برادران کو اہم رول دیئے جانے کا قوی امکان ہے۔چودھری بر ادران جوپنجاب کے ایک فطری لیڈر ہیں پنجاب میں مونس الہٰی کا اہم رول ہوگا ماضی میں انکی کردار کشی کی گئی جو ناکام ہوگئی ،وہ باعزت بری ہو گئے 2018ء کے انتخابات کے بعدبھی ان کو پی ٹی آئی اورپیپلز پارٹی بھی سپورٹ کرے گی ۔مونس الہٰی میں پنجاب کی قیادت کرنے کی تمام صلاحیتیں موجود ہیں۔ان کا 2018ء کے انتخابات میں پنجاب پر خصوصی فوکس ہوگا ان کے حمایت یافتہ ممبران کی بڑی تعداد انتخابات جیت سکتی ہے ۔