ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 58

ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 58
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 58

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

انذار اور قرآن

پروگرام سے قبل ایک دوست نے انذار کے حوالے سے میرانقطہ نظر جاننا چاہا۔ میں نے اپنا جو نقطہ نظر ان کے سامنے رکھا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ سورہ توبہ (122:9) میں اللہ تعالیٰ نے دین کے طالب علموں کو جب انذار کا منصب دیا ہے تو اس کی شرط یہ رکھی ہے کہ وہ تفقہ فی الدین یا دین میں گہری بصیرت حاصل کریں ۔اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے انذار بالقرآن کی وہ بات جو بعض دوسرے مقامات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کی ہے ، اس موقع پر بالکل حذف کر دی۔ اگر یہ شرط ہوتی تواس موقع پر لازماً بیان ہوجاتی ۔

میرے نزدیک قرآن کریم نے یہاں اپنا مدعا صاف بیان کر دیا ہے ۔دین طالب علموں کے لیے انذار کا ماخذ تفقہ فی الدین ہو گا۔اس میں یقینا سب سے بنیادی چیز قرآن مجید ہے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے پابندنہیں کیا کہ ایک داعی جب لب کھولے قرآن ہی کی کوئی آیات پڑ ھے اور پھر خاموش ہوکر بیٹھ جائے ۔اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں ۔اول یہ کہ دین کی دعوت کل انسانیت کے لیے ہے ۔ ہر شخص عربی نہیں سمجھتا نہ قرآن کو براہ راست سمجھ سکتا ہے ۔اسے ترجمہ پڑ ھنا ہو گا جو یقینا کسی انسان ہی نے کیا ہو گا۔ ترجمہ ، ترجمہ ہوتا ہے ، وہ خدائی کلام نہیں رہتا، اس میں انسانی فہم داخل ہوجاتا ہے ۔انذار بالقرآن کی شرط اسی لمحے ناقابل عمل ہوجاتی ہے ۔

ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 57 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

دوسری بات یہ ہے کہ انذار صرف آخرت میں خدا کے حضور پیشی کی بات سنا کر ختم نہیں ہوجاتا۔ بلکہ یہ بتانا پڑ تا ہے کہ کن چیزوں کے کرنے سے انسان خداکی پکڑ سے بچ سکتا ہے اور کن چیزوں سے اس کی رضا ملتی ہے ۔ اب ظاہر ہے کہ قرآن ہی نہیں پورا دین زیر بحث آجائے گا جس کا بیشتر عملی حصہ قرآن میں نہیں سنت میں ہے ۔پھر قرآن کی شرح و ضاحت بھی اسی کام کا لازمی جز ہے ۔ یہ سب چیزیں قرآن سے باہر کی ہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے جو شرط لگائی ہے وہ تفقہ فی الدین کی ہے جو ایک انتہائی معقول اور بہترین بات ہے۔

جہاں تک بعض دیگر بیانا ت کا تعلق ہے جن سے یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ انذار کا مطلب ہی یہ ہے کہ قرآن پڑ ھ کر سنادیا جائے تو ان کا ایک موقع محل ہے ۔ ان آیات کا تعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی قوم سے ہے ۔ قرآن مجید اس قوم کے لیے ایک پیغام ہی نہیں ایک فیصلہ کن حجت بھی تھا اور لاجواب کر دینے والا ایک معجزہ بھی۔ یہ انھی کے حالات، انھی کے پس منظر، انھی کی زبان اورانھی کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کے تناظر میں نازل ہورہا تھا۔ وہاں تو ہونا ہی یہ چاہیے تھا کہ قرآن سنا یا جاتا اور اسی کی بنیاد پر اپنا پیغام لوگوں کو پہنچایا جاتا ۔

تاہم اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ قرآن بعد کے لوگوں کے لیے اپنی معنویت کھوچکا ہے ۔ ابھی بھی قرآن ہی محورومرکز ہے ۔ تفقہ فی الدین میں پہلی چیز قرآن پر گہری نظر ہے ۔قرآن سے بے بہرہ رہ کر اور اس کی بنیاد سے ہٹ کر کسی بنیاد پر کوئی انذار نہیں ہو سکتا نہ کوئی دین بیان ہو سکتا ہے ۔ ہر تقریر اور ہر تحریر اسی کی بنیاد پر ہو گی۔ قرآن کا کوئی متبادل نہیں ۔ لیکن صرف قرآن کو ہاتھ میں لے کر اسے سننے سنانے کی شرط کی کوئی اساس، دین کے طالب علموں کے لیے تو یہ ادنیٰ طالب بالکل نہیں پاتا۔ہاں عام لوگوں کے لیے یہی محفوظ راستہ ہے کہ کبھی دو چار لوگوں کو مخاطب بھی کرنا ہوتو قرآن ہاتھ میں اٹھالیں اور اسے ہی سنائیں ۔

دین کی روح اور دین کاظاہر

پاکستانی کمیونٹی ہر جگہ ہی تاخیر سے پہنچنے کی عادی تھی، اس لیے پروگرام اپنے وقت پر شروع نہیں ہو سکا۔پہلے کچھ سوال جواب ہوئے اور پھر باقاعدہ گفتگوہوئی۔ آج کی گفتگو میں اس طالب علم نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ دین کے ہر حکم کا ایک ظاہر ہوتا ہے اور ایک اس کے اندر کارفرما روح ہوتی ہے ۔ امت کا عظیم المیہ یہ ہے کہ اس میں اول تو وہ احکام نیکی اور تقویٰ کا معیار بن گئے ہیں جو اصلاً مطلوب نہیں یا پھر ان کی وہ اہمیت نہیں جو دی جاتی ہے ۔ جو مطلوب احکام ہیں ان میں بھی روح کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا ہے ۔ پھر میں نے ایمان، نماز، روزہ، حج اور زکوۃ وغیرہ جیسے اہم اور بنیادی احکام کو لے کر ان کی روح کو واضح کیا۔

مثلاً ایمان کی روح یہ بیان کی ہے کہ قرآن مجید کے مطابق ایمان کی روح سچائی کو مان لینا ہے ۔ مشرکین مکہ کے لیے یہ سچ ایک خدا پر ایمان تھا اور آج کے مسلمانوں کے لیے یہ سچ اپنے فرقہ وارانہ تعصبات سے بلند ہوکر سچائی کو ماننا ہے ۔ ایمان کی یہ روح موجود نہیں تو ایمان کی حقیقت کو ہم نے نہیں پایا۔

الوداع سڈنی

پروگرام کے بعد بھی کچھ سوال و جواب ہوئے ۔ہم نے تنویر خان صاحب اور ان کے اہل خانہ کا شکریہ ادا کیا۔ پھر کامران مرزا صاحب کی گاڑ ی میں سڈنی روانہ ہوئے ۔ راستہ انتہائی خوبصورت اور دلکش مناظر سے پر تھا۔ راستے میں ایک جھیل ایسی آئی جو بقول عابد صاحب کے چالیس برس بعد بھری تھی۔کچھ دیر رک کر ہم نے یہاں کی خوبصورتی کو انجوائے کیا۔ گرچہ اس شدید ٹھنڈ میں ماحول کو بہت زیادہ انجوائے کرنے کی گنجائش نہ تھی۔

میں چونکہ دو دن سے صبح چار بجے ہی بیدار ہورہا تھا اور سونے میں کچھ تاخیر ہورہی تھی، پھر اگلے دن ہی صبح سویرے ایڈیلیڈ کی فلائٹ تھی، اس لیے آج جلدی سونا لازمی تھا۔ چنانچہ میں نے درخواست کی کہ مجھے راستے ہی میں ڈنر سے فارغ کر دیا جائے ۔ باقی لوگوں کا خیال تھا کہ اپنے اپنے گھر پہنچ کر کھانا کھایا جائے ۔ چنانچہ ایک جگہ ایک پٹرول پمپ پر مجھے سب وے برگر اور کافی کی شکل میں ڈنر کرادیا گیا۔ ڈھائی تین گھنٹے کے سفر کے بعد ہم سڈنی پہنچے ۔

صبح سویرے ایڈیلیڈ جانے کے لیے ہم وقت سے پہلے گھر سے نکلے ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ساڑ ھے سات بجے ذوالفقار صاحب کا درس قرآن تھا۔ یہ انھی لوگوں کا حوصلہ تھا کہ ہر اتوار کو چھٹی والے دن اپنی نیند خراب کر کے درس کے لیے ایک جگہ جمع ہوتے تھے ۔ اسی جذبے نے ماشاء اللہ ان کو ایک بہت اچھی ٹیم بنادیا تھا۔ ہمیں ائیر پورٹ لے جانے کے لیے المورد کے ممبر بلال صاحب تشریف لائے تھے ۔ یہ ارم بھابھی کے دیور تھے اور پاکستان ائیر فورس سے ریٹائر ہوکر یہاں آئے تھے ۔

ائیرپورٹ پر ذوالفقار صاحب کو الوداع کہا۔ یہاں فرخ صاحب مل گئے ۔وہ میرے ساتھ ایڈیلیڈ جا رہے تھے ۔مختلف مراحل سے گزر کر ہم ویٹنگ لاؤنج میں جابیٹھے ۔کچھ دیر میں جہاز اڑ ا تو سڈنی کا الوداعی منظر سامنے تھا۔اس شہر سے زیادہ میری نظر میں یہاں کے ان احباب کے چہرے تھے جو ایک ہفتہ ساتھ ساتھ رہے ۔

سچی بات یہ ہے کہ ملبورن کے دوستوں کی طرح سڈنی کے احباب نے بھی اپنی محبتوں کا اسیر کر لیا تھا۔ان آٹھ دس دنوں میں انھوں نے کبھی اجنبیت کا احساس نہیں ہونے دیا تھا ۔ذوالفقار صاحب نے ہرپہلو سے بہت خیال رکھا ۔دوسرے شہروں میں بھی وہ مسلسل رابطے میں رہے ۔ اللہ کریم ان سب احباب کے علم وعمل میں برکت عطافرمائے ۔

نیند کی نعمت

اس دفعہ سفر میں فرخ صاحب میرے ساتھ تھے ۔ان کے ساتھ ہونے کی وجہ سے یہ سفر بہت خوشگوار ہو گیا تھا۔انھوں نے دفتر سے چھٹیاں لے رکھیں تھیں اور پچھلی کئی دنوں سے میری وجہ سے مختلف پروگراموں میں مصروف رہے تھے ۔ و ولون گونگ کے سفر میں جب میں ان کے ساتھ گیا تھا تو کم نیند کی وجہ سے میں بہت اچھا محسوس نہیں کر رہا تھا۔ اس سفرمیں ان سے کم ہی بات ہو سکی تھی۔یہ بات میں نے فرخ صاحب کو بتا کر کہا کہ آپ پچھلے سفر کی وجہ سے مجھے بدمزاج مت سمجھیے گا۔

لائیو ٹی وی نشریات دیکھنے کے لیے ویب سائٹ پر ”لائیو ٹی وی “ کے آپشن یا یہاں کلک کریں۔

نیند اللہ تعالیٰ کی عجیب و غریب نعمت ہے ۔حیاتیاتی طور پر اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان کے تمام نظام اپنی توانائی بحال کرتے ہیں ۔ اعصاب، عضلات، ہڈیاں اور انسانی امیون سسٹم نیند کے بعد پوری طرح تروتازہ ہوجاتا ہے ۔نیند پوری نہ ہوتو انسان ذہنی، جسمانی، نفسیاتی غرض ہر اعتبار سے کمزور اور غیر فعال ہوتا چلا جاتا ہے ۔ اس لیے یہ کہا جاتا ہے کہ سب سے بڑ ا تشدد یہ ہے کہ کسی شخص کو نیند پوری نہ لینے دی جائے ۔اس پہلو سے نیند بہت بڑ ی نعمت ہے ۔

قرآن مجید نیند کو ایک دوسرے پہلو سے بھی زیر بحث لایا ہے ۔ یہ پہلو قیامت کے بعد زندگی کی تمثیل کا ہے ۔ ہم روزانہ سوتے ہیں تو یہ دراصل موت کی تمثیل ہوتی ہے ۔ سونے کے بعد ہم پوری دنیا سے بے خبر ہوجاتے ہیں ۔وقت گویا کہ معطل ہوجاتا ہے ۔ باہر کچھ بھی ہوتا رہے ہمیں کچھ خبر نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ ہماری آنکھ کھل جاتی ہے ۔

یہی ہماری موت کے وقت ہمارے ساتھ ہوجاتا ہے ۔ہم خارج کی دنیا سے کٹ جاتے ہیں ۔ وقت ہمارے لیے معطل ہوجاتا ہے ۔ پھر روزِقیامت ہم اسی طرح زندہ کیے جائیں گے جیسے سونے کے بعد دوبارہ بیدار ہوتے ہیں ۔بظاہر موت کے بعد زندگی کا معاملہ بہت بعید اور عجیب لگتا ہے ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کا تجربہ ہم روزانہ کر رہے ہیں ۔ بس غور نہیں کرتے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سونے اور جاگنے کی دعائیں اس چیز کا بڑ ا واضح بیان ہے کہ آپ کے لیے سونا اور جاگنا قیامت کی پیشی کا ایک زندہ تجربہ تھا۔ کاش ہم لوگ بھی اس احساس میں سونے جاگنے والے بن جائیں ۔

(جاری ہے, اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)