بھارت کے مسلمانوں کی حالتِ زار:کیوں اور کیسے؟

بھارت کے مسلمانوں کی حالتِ زار:کیوں اور کیسے؟
بھارت کے مسلمانوں کی حالتِ زار:کیوں اور کیسے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

1947ئ میں برِصغیر کی آبادی قریباً 40 کروڑ تھی، جس میں 10کروڑ مسلمان تھے جو زیادہ تر مشرقی بنگال (اَب بنگلہ دیش) اور موجودہ پاکستان کے خطّے میں اکثریت رکھتے تھے۔ یہی اکثریت تقسیم ہند کی بنیاد بنی۔ برِصغیر کی تقسیم کے بعد، وہ مسلمان جو بھارت کے دوسرے صوبوں میں اقلیت کی صورت میں رہتے تھے، اُن کی تعداد تقسیم سے پہلے 3 کروڑ کے قریب تھی۔

یہ اقلیتی مسلمان زیادہ تر بھارت کے تمام صوبوں میں بکھرے ہوئے تھے۔ البتہ اِن کی تعداد یو۔پی بہار ، مدھیہ پردیش، دھلی ، راجستھان، حیدرآباد (دکن)، کیرالہ، آسام، کرناٹک اور مہاراشٹر کے صوبہ جات میں مقابلتاً نمایاں تھی۔ برطانوی راج میں انگریزوں کی ایڈمنسٹریٹو پالیسی یہ تھی کہ جن صوبوں میں ہندو زیادہ ہوتے تھے ،وہاں مسلمان اعلیٰ افسران کو تعینات کیا جاتا تھا اور جہاں مسلمان اکثریت میں ہوتے تھے، وہاں ہندو اور سکھ بطور کلکٹر اور کمشنر مقرر کئے جاتے تھے

دراصل تُرک اور مغل بادشاہوں کے زمانے میں بھی عام مسلمان کبھی خوشحال نہیں رہے تھے اور نہ ہی وہ اسلام کی بنیادی تعلیم سے آگاہی رکھتے تھے۔ بہت بڑی اکثریت اَن پڑھ تھی۔ وجہ یہ تھی کہ برِصغیر کا 90 فیصد مسلمان ہندو معاشرے کی نچلی جاتیوں سے تعلق رکھتا تھا۔ اگرچہ حکمران مسلمان تھے، لیکن اُنہوں نے نو مسلم غریب آبادی کی ترقی اور بہبود کے لئے خصوصی اِقدامات کبھی نہیں کئے۔

بعد کی صدیوں میں جس طرح انگریزی سامراج اپنے ساتھ اپنا چرچ بھی لایا اور مقامی لوگوں کو مسیحی مذہب میں داخل ہونے کے لئے سہولتیں دیں، ترغیبات دیں، اُن کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا، اُن کی معاشی Uplift کی، مغلوں اور تُرک سلطانوں نے نو مسلموں کے لئے کچھ بھی نہیں کیا تھا۔
برِصغیر کے نو مسلموں کی طبقاتی خصلتیں ویسی ہی رہیں جو اُن کی اسلام قبول کرنے سے پہلے تھیں۔مجہول، قسمت پر شاکر، توہم پرست، اپنی سماجی بہتری کے لئے جد و جہد سے عاری، اُوپر کے طبقے کی خوشامد اور حکم بجا آوری، غیرت اور عزتِ نفس کی غلط تاویل، جذباتیت اور خود ترسی میں مبتلا ، لالچی انسانوں کا جمِ غفیر جو دین کو سمجھے بغیر مسلمان تو ہو گیا، لیکن صحیح معنوں میں مسلمان نہ بن سکا۔

یہ طبقہ برِصغیر کے دیہاتوں اور اُس دَور کے بڑے شہروں کے مضافات میں سکونت رکھتا تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد یہ کچرا مسلمان ،زیادہ تر ہندوستان میں ہی رہ گیا۔پڑھے لکھے اور پروفیشنل مسلمان ہندوستان کے ہر صوبے سے ہجرت کر کے پاکستان آ گئے، کیونکہ اُس وقت پاکستان کو اِن کی ضرورت تھی۔ ہنر مند اور کاریگر مسلمانوں نے یو۔پی بہار، راجستھان اور دہلی سے آکر پاکستان کی چھوٹی اور بڑی صنعت کو چالو کیا ۔

مشرقی پنجاب کا مسلمان کِسان جو روائتی طورپر محنتی تھا، اُس نے پاکستان کے بیراجوں اورتھلوں کی زمینوں کو آباد کیا۔

تقسیمِ ہند سے قبل کا عام مسلمان جو دینی اور دنیاوی تعلیم سے پہلے ہی محروم تھا،اُس کی مزید جہالت کا سامان فرنگی محلی عُلماء اورکئی مسجدوں کے مولویوں نے فتویٰ دے کر کیا کہ انگریز زبان اور اُ ن کا دیا ہوا تعلیمی نظام حرام ہے۔ مسلمانوں کو ویسے بھی علم حاصل کرنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ مولویوں کے فتوؤں نے مزید بیڑہ غرق کر دیا۔ جدید تعلیم حاصل کرنے میں ہم ہندو سے 50 سال پیچھے رہ گئے۔
اگر سر سید احمد خاں اوراُن جیسے دوسرے صاحبِ درد اکابر نہ ہوتے تو پاکستان ہی نہ بنتا۔ موجودہ پاکستان کے خطّے کو جو افرادی قوت آزادی کے بعد ملی وہ ہنر اور علم سے کوری تھی، سوائے مرکزی پنجاب کے 4 ضلعوں کے۔ اس علاقے کا کسان بھی مجہول اور قسمت پرست تھا، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی زرعی پیداوار ملک کے اِبتدائی 6 سالوں میں شدید کمی کا شکار رہی۔ وہ تو بھلا ہومشرقی پنجاب کے مہاجر زمینداروں اور کِسانوں کاکہ اُنہوں نے اپنی روائتی محنت سے پاکستان کو گندم میں خود کفیل کر دیا۔پاکستان بننے کے پانچ ، چھ سال بعد تک بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کا پڑھا لکھا اورمتمول طبقہ بڑی تعداد میں پاکستان ہجرت کر کے آتا رہا۔ اس ہجرت کی وجوہات کئی تھیں۔

اوّلاًیہ کہ تقسیمِ ہند پر جو ہندو مسلم فسادات کی ہولی کھیلی گئی، اُس نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت، تعصب اور عدم بھروسے کی مستقل بنیاد رکھ دی۔ مسلمانوں کا بالائی طبقہ ، جس نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اُن کا اور اُن کے بچوں کا مستقبل بھارتی ہندوکے تعصب کا شکار رہے گا، وہ آہستہ آہستہ پاکستان منتقل ہو گئے۔

میرے مسلمان کلاس فیلوز جو بھارت میں ہی رہ گئے تھے، اُن کی مالی اور سماجی حالت قابلِ ذکر نہیں تھی۔ دِلّی کے پڑھے لکھے مسلمانوں کو زیادہ تر ملازمتیں ہمدرد دواخانے، مسلم اوقاف یا اُردو اخباروں کے ہاں مل جاتی تھیں۔ بہت ہی کم تعداد کو ریلوے ، پولیس ، بلدیاتی کارپوریشنز، محکمہ بجلی اور عدالتوں میں ادنیٰ سرکاری نوکری ملتی تھی۔

بمشکل مسلمانوں کی 3 فیصد سے بھی کم تعداد مقابلے کا امتحان پاس کر کے اعلیٰ ملازمتوں میں لی جاتی تھی۔ یہ بھی اس لئے کہ بھارت باہر کے ملکوں میں اپنے سیکولرازم کی نمائش کر سکے۔
اعلیٰ سروس میں جانے والے مسلمان نوجوان بھارت کے سیاسی خانوادوں سے تعلق رکھتے تھے۔ جب تک کانگرس نواز مسلمان زندہ تھے، اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان مختلف محکمہ جات میں محض ا شک شوئی کے لئے اچھی پوزیشن میں لے لئے جاتے رہے، لیکن اُن مسلمان کانگریسی اکابرین کے وفات پا جانے کے بعد بھارتی مسلمان مزید کچرا بنتے چلے گئے۔

آزادی کی جد و جہد میں حصہ لینے والے کانگریسی مسلمانوں کے مر جانے کے بعد اور مسلمانوں کی اشرافیہ کلاس کے بھارت سے ہجرت کر جانے کے بعد، ہند کے مسلمان کوئی جاندار لیڈر شپ پیدا نہ کر سکے۔ آج کل بھارت میں جو مسلمان سیاسی لیڈر تھوڑے بہت نظر آتے ہیں وہ اپنے آپ کو سیکولر اور مکمل نیشنلسٹ پیش کر کے آتے ہیں۔

کبھی کبھی وہ مسلمانوں کے کاز کے لئے دو، چار الفاظ لوک سبھا میں بول بھی دیتے ہیں، لیکن وہ بھارتی مسلمانوں کی بہبود کے لئے کچھ نہیں کر سکتے۔بینک آف عمان(اب مشرق بینک)کی 17 سالہ ملازمت کے دوران مجھے بھارت جانے کے سینکڑوں مواقع ملے۔

میرے بینک کی ہندوستان میں Real Estate کے شعبے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری تھی۔ بالکل اسی طرح جس طرح پاکستان میں میرے بینک نے لاہور میں ویلنشیا اوراِزمیر ہاؤسنگ سوسائٹیز کی شکل میں بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لئے سرمایہ کاری کی تھی۔ میَں بینک کے رئیل اسٹیٹ کے شعبے کا سربراہ ہونے کے ناطے بھارت میں ہاؤسنگ کی پیش رفت دیکھنے جاتا تھا۔

بھارتی ہندو دو لت کو دیوی سمجھتے ہیں اور اُس دیوی کے چمتکار بھارت میں میرے ذریعے ہو رہے تھے، اس لئے دبئی کے ہندوستانی سفارت خانے نے مجھ پاکستانی کو ہندوستان کا Multiple اور مکمل آزاد ویزا دیا ہوا تھا۔

میَں ہندوستان کے کسی بھی شہر میں بغیر پولیس رپورٹ کے جا سکتا تھا ۔سوائے کشمیر کے۔ اِس قسم کا ویزا غالباً کسی بھی پاکستانی کو نہیں مِلا ہو گا۔ میرے اتنے کثرت سے بھارتی Visits نے پاکستان کی بڑی ایجنسیز کو بھی میری پوچھ گچھ پر مجبور کر دیا۔اِن اِداروں کی تسلی ہوجا نے کے بعد مجھے لاہور ائیر پورٹ پر دوبارہ کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔
بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کی حالتِ زار دیکھنے اور اُن مسلمانوں سے ملنے کے بے شمار موقعے ملے۔

بھارت کے جنوبی اور مشرقی ساحلی علاقے(کیرالہ، کرناٹک ،تیلگو اور تامِل ناڈ) کے مسلمان اقلیت میں ہونے کے باوجود ، پڑھے لکھے ہیں، شمال کے مسلمانوں کے مقابلے میں خوشحال ہیں، مذہبی آزادی بھی رکھتے ہیں اور ہندو، مسلم روائتی فسادات سے بھی محفوظ ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ تاریخی طور پر جنوبی ہندوستان کے اونچی ذاتوں کے ہندو عرب تاجروں کے اِخلاق و کِردار اور تجارتی دیانت کے نتیجے میں مسلمان ہوئے تھے ۔یہاں کے یہ مسلمان موپلے کہلاتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔

بنگلور کا رئیل اسٹیٹ کا تمام کاروبار مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ ساؤتھ کا ہندو، گائے کا پجاری نہیں ہے ،بلکہ گائے کا گوشت خوب کھاتا ہے۔جنوبی ہندوستان کے مسلمان زیادہ ترشافعی فقہہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ مزار پرستی اورتعویز گنڈوں سے بالکل مُبّرا ہیں۔

توہم پرست نہیں ہیں ،ہم پاکستانیوں کی طرح قسمت پر شاکر نہیں ہیں۔ محنت پر یقین رکھتے ہیں۔ ہندوستان کی آئی،ٹی اِنڈسٹری میں بھی اِن کا خاصا بڑا حصہ ہے۔ یہاں کے مسلمان 90فیصد تعلیم یافتہ ہیں اور قطعاً متعصب نہیں ہیں، جبکہ ہندوستان کے شمالی صوبے یو۔پی، مدھیہ پردیش، راجستھان، مہاراشٹرا اور دہلی کے 90فیصد مسلمان اہلِ حرفہ ہیں، بہت کم پڑھے لکھے ہیں،جو پڑھ لکھ گئے ہیں وہ چھوٹی موٹی پرائیویٹ یا سرکاری اِداروں میں ملازمتیں کرتے ہیں۔ شمالی ہندوستان کے مسلمان زیادہ تر اعلیٰ درجے کے ہنر مندہیں۔

جے پور کے مسلمان ہیرے کی تراش میں بلجیم کے Diamond Cutters یہودی خاندانوں کو بہت پیچھے چھوڑگئے ہیں، اسی لئے اب تمام دنیا میں Indian Cut ہیرا اور یاقوت زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ دیہاتی مسلمانوں کی قابلِ کاشت زمینیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ہندوؤں اورسِکھوں کی اراضی ٹھیکے پر لے کر کاشت کرتے ہیں۔ بھارتی پنجاب کے 90فیصد سِکھ نوجوان بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ زیادہ ترکینیڈا ،جبکہ پنجاب میں اُن نوجوان سِکھوں کی زمینوں پر باہر سے لائے ہوئے بہاری مسلمان کام کرتے ہیں۔

اُن کی حالت بالکل اُن کالے افریقیوں کی ہے جو 250 سال پہلے افریقہ سے غلام بنا امریکیوں کی زمینوں پر کام کرنے کے لئے لائے گئے تھے۔ یہ بہاری مسلمان ایک قسم کی Bonded لیبر ہیں۔ مجھے حیرانی بھی ہے اور افسو س بھی کہ ہمارے پاکستانی، ہندوستان یاترا کرنے جاتے ہیں،تاجروں،صحافیوں اورمزاروں کے عقیدت مندوں کی حیثیت سے، لیکن اُنہوں نے کبھی ہندوستان کے مسلمانوں کے حالات کو غور سے دیکھنے کی زحمت ہی نہیں کی۔یہ حالتِ زار پاکستان بننے سے پہلے بھی یوں ہی تھی، لیکن پاکستان بننے کے بعد تو بھارتی مسلمانوں کی مظلومی کی اِنتہا ہو گئی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -