قصہ اٹھارویں ترمیم کا!

قصہ اٹھارویں ترمیم کا!
قصہ اٹھارویں ترمیم کا!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تقریب تو شوکت اشفاق کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں منعقد کی گئی تھی، تاہم مخدوم جاوید ہاشمی، سید فخر امام، مولانا حامد سعید کاظمی ا ور حبیب اللہ شاکر کی وجہ سے اس میں موجودہ سیاسی حالات اور جمہوریت کو درپیش چیلنجوں پر دھواں دھار گفتگو بھی ہوئی۔ خاص طور پر آج کل جو اٹھارویں ترمیم کا ذکر چل رہا ہے تو اس کے تناظر میں سید فخر امام اور مخدوم جاوید ہاشمی نے اپنے ذاتی تجربات بیان کئے اور اس بات سے اتفاق کیا کہ اٹھارویں ترمیم کرتے وقت پارلیمانی روایات کا خیال نہیں رکھا گیا اور پلک جھپکتے ہی یہ ترمیم منظور کر لی گئی۔

سید فخر امام نے 1985ء کا ذکر کیا ،جب وہ قومی اسمبلی کے اسپیکر تھے، آٹھویں ترمیم کا مرحلہ درپیش تھا، کیونکہ جنرل ضیاء الحق وردی اتارنا چاہتے تھے اور یہ بھی چاہتے تھے کہ انہوں نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد بطور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جو فیصلے کئے ہیں ،انہیں قانونی حیثیت مل جائے۔ اس مقصد کے لئے یہ آئینی ترمیم تیار کی گئی تھی۔ سید فخر امام نے بتایا کہ انہوں نے اس ترمیم پر 57 دن بحث کرائی۔

اس کے ایک ایک لفظ اور نقطے پر غور کیا گیا، حالانکہ جنرل ضیاء الحق کی خواہش تھی کہ یہ ترمیم جلد منظور ہو جائے، لیکن پارلیمانی روایات کے عین مطابق اس پر مکمل بحث کرائی گئی، حالانکہ اس وقت اسمبلیاں آزاد نہیں تھیں بلکہ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے سائے تلے کام کر رہی تھیں۔ جب اس کے ہرجزو اور شق پر بحث مکمل ہو گئی اور سب کچھ کھل کر سامنے آ گیا تو پھر رائے شماری کرائی گئی۔ اس ترمیم کے منظورہو نے کے بعد ضیاء الحق نے وردی تو نہیں اتاری، البتہ اس حقیقت کو مان لیا کہ حکمرانی صرف آئین کی چھتری تلے ہی کی جا سکتی ہے۔
سید فخر امام نے یہ مثال دینے کے بعد اس کا موازنہ اٹھارویں ترمیم سے کیا جس پر ایک دن بھی بحث نہ ہوئی اور اسے منظور کرا لیا گیا۔ اس وقت چونکہ آج جیسی پوزیشن نہیں تھی اور دو پارٹیاں ہی اسمبلی میں موجود تھیں، اس لئے ان کے درمیان اتفاق رائے ہوا تو یہ ترمیم فوراً منظور کر لی گئی، حالانکہ یہ معاملہ اتفاق رائے کا نہیں، پارلیمانی روایات کا تھا۔ جن کے مطابق آئین میں کوئی بھی ترمیم مکمل بحث اور خواندگی کے بغیر نہیں کی جا سکتی۔

انہوں نے کہا آج یہی سوال سپریم کورٹ نے اٹھایا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کرتے وقت پارلیمان گونگی کیوں بن گئی۔ اس نے اپنا فرض کیوں ادا نہیں کیا؟ ایسی ترمیم جس میں پارلیمان کی اجتماعی رائے شامل نہ ہو کیا آئین کا حصہ بن سکتی ہے؟۔۔۔سید فخر امام کے بعد جاوید ہاشمی کی باری آئی تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اٹھارویں ترمیم کے خلاف تھے۔ انہوں نے دونوں سیاسی جماعتوں مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کی مخالفت مول لی، مگر اس ترمیم کے حق میں ووٹ نہ دیا۔ بقول ان کے انہیں ڈرایا گیا کہ میاں نوازشریف ناراض ہو جائیں گے، لیکن انہوں نے اس کی پرواہ نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اٹھارویں ترمیم کے اس لئے خلاف تھے کہ اس میں ارکان اسمبلی کے ضمیر اور اس کی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس میں یہ تک کہا گیا تھا کہ کوئی رکن اسمبلی اپنی جماعت کی پالیسی کے خلاف بات نہیں کر سکتا۔

اس کا مطلب یہ تھا کہ ارکان اسمبلی گونگے بہرے بن جائیں اور اپنی رائے تک نہ دے سکیں؟ ایسی پابند جمہوریت بھلا ملک و قوم کو کیا دے سکتی ہے۔ اس لئے وہ اس ترمیم کے خلاف تھے۔
ان کی بھی یہی رائے تھی کہ اس ترمیم کو ایوان میں بحث کے لئے پیش کیا جائے ، جبکہ اس کے برعکس اسے عجلت میں منظور کرا لیا گیا جس کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں کہ اس کی وجہ سے ملک میں انتشار پھیل گیا ہے۔ پیپلزپارٹی خاص طور پر اسے ملکی سلامتی سے جوڑ رہی ہے اور یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ اٹھارویں ترمیم ختم کی گئی تو وفاق کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔

اگر اسے منظور کرانے سے پہلے پارلیمانی روایات کے مطابق اس پر سیر حاصل بحث کرائی جاتی تو آج اس کے نقائص سامنے نہ آتے اور نہ ہی معاملہ سپریم کورٹ میں جاتا۔ان دونوں سینئر سیاسی رہنماؤں کے خیالات سننے کے بعد یہ بات تو طے ہو گئی کہ اٹھارویں ترمیم کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اسے سیاسی مقاصد کے لئے آئین میں شامل کیا گیا۔ اس کا مقصد ہرگز وفاق کو مضبوط کرنا نہیں تھا۔

یہ مقصد ہوتا تو اس میں یہ سقم نہ رکھا جاتا کہ ارکانِ پارلیمینٹ اپنی رائے ہی نہ دے سکے۔ اگر اس پر بھی آٹھویں ترمیم کی طرح 57 دن بحث ہوتی تو سارے عوامل کھل کر سامنے آ جاتے پھر چور دروازے سے ترمیم کرانے کا تاثر جنم نہ لیتا۔

آج بھی پیپلزپارٹی کے پاس سب سے مضبوط دلیل یہ ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو سیاسی و مالی خود مختاری ملی اور وہ مضبوط ہوئے، لیکن اس کے بدلے میں وفاق پر کیا بیتی اس کا ذکر نہیں کیا جا رہا۔
ایک وفاقی پارلیمانی ملک میں وفاق کی مضبوطی زیادہ اہمیت رکھتی ہے، یہاں معاملہ الٹ نظر آ رہا ہے۔ وفاق کمزور اور صوبے مضبوط ہو رہے ہیں ۔پھر صوبوں نے مالی فوائد ملنے کے بعد ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ سندھ میں اربوں روپے کی خرد برد کے شواہد سامنے آ چکے ہیں۔ موجودہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے بطور وزیر خزانہ سرکاری وسائل کو پرائیویٹ اداروں کو منتقل کیا اور سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے اس کی منظوری دی، جس پر اب تحقیقات ہو رہی ہیں آج سپریم کورٹ میں یہ بحث جاری ہے کہ وفاقی حکومت کو اٹھارویں ترمیم کے نام پر صوبوں نے جو ایک غیر متعلق طاقت سمجھ لیا ہے کیا یہ اٹھارویں ترمیم کی منشاء تھی؟ اس پہلو پر آخر غور و فکر کیوں نہیں کیا گیا کہ صوبوں کو بے بہا خود مختاری دینے کے بعد وفاق اگر کمزور ہو گیا تو اس کا تدارک کیسے ہو سکے گا؟ کیا یہ بات مناسب ہے کہ صوبے وفاق کو آنکھیں دکھائیں اور وفاقی حکومت کے ہر حکم کو صوبوں کے معاملات میں مداخلت قرار دیں۔ مخدوم جاوید ہاشمی جب تقریب میں یہ کہہ رہے تھے کہ ملک کی 71 سالہ تاریخ میں کم از کم چالیس سال تک پاکستان آئین کے بغیر چلتا رہا ہے تو ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ آئین اب جس حالت میں بھی ہے ،ملک کی سلامتی کے لئے ضروری ہے، یہ آئین صرف بھٹو نے اکیلے منظور نہیں کرایا تھا، بلکہ انہوں نے اپوزیشن کے ساتھ مسلسل مذاکرات کر کے آئین کے تمام مخالفین کو اس آئین پر راضی کرنے کے بعد اس کی منظوری لی تھی اس لئے اب اس آئین کے متبادل ہمارے پاس وفاق کو متحد رکھنے کے لئے اور کوئی طاقت نہیں۔

اٹھارویں ترمیم چونکہ حقیقی اتفاق رائے پیدا کرنے کی بجائے فوری جوڑ توڑ کے ذریعے منظور کرائی گئی تھی اس لئے آئین اسے ہضم کرنے کو تیار نہیں ۔کئی حوالوں سے یہ ترمیم آئین کی بنیادی روح کے خلاف نظر آتی ہے۔
سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جب یہ کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ اسے پارلیمینٹ کو واپس بھیج دے ۔جہاں پھر اس پر بحث ہو تو بنچ کے رکن جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اب یہ پارلیمینٹ میں واپس نہیں جائے گی، اس کا فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی ،کیونکہ آئین کی تشریح کرنا سپریم کورٹ کا اختیار ہے۔۔۔بات تو درست ہے۔

اگر عدالت اسے واپس پارلیمینٹ میں بھیجے تو اس کا مطلب ہے یہ ترمیم پہلے غلط انداز میں منظور کی گئی اس کے بعد تو اس کے باقی رہنے کا جواز ہی نہیں رہتا ۔دوسرا جو پارلیمینٹ اپنے طور پر یہ فیصلہ نہیں کر سکی کہ اسے ترمیم کرتے وقت کن پہلوؤں اور پارلیمانی اقدار کو پیش نظر رکھنا ہے، وہ اب کیا کرے گی؟ اب یہ خبریں آ رہی ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اٹھارویں ترمیم میں تبدیلی کے لئے تیار ہو گئی ہے اور حکومت سے تعاون کرنا چاہتی ہے۔ پیپلزپارٹی چونکہ اب صرف سندھ تک محدود ہو چکی ہے اور اس کے سارے مفادات سندھ میں سکڑ کر رہ گئے ہیں، اس لئے وہ ہر قیمت پر اٹھارویں ترمیم کو جوں کا توں برقرار رکھنا چاہتی ہے وفاقی حکومت اگر چاہے بھی کہ سندھ میں ترقیاتی کام ہوں لوگوں کو علاج معالجے اور صاف پانی کی سہولتیں میسر آئیں تو وہ صوبائی حکومت کی اجازت کے بغیر کچھ بھی نہیں کر سکتی۔ آج بھی سندھ حکومت کے وزراء یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ گورنر عمران اسماعیل اپنی حدود میں رہیں، کیونکہ ان کی تنخواہ اور مراعات سندھ حکومت پورے کرتی ہے۔

ایسی باتیں پہلے کبھی سنی تھیں، نہ دیکھی گئیں۔ صوبوں کی وجہ سے وفاق مضبوط ہونا چاہئے نہ کہ صوبے مضبوط اور وفاق کمزور ہو جائے۔ جیسا کہ جاوید ہاشمی نے ملتان کی تقریب میں کہا ہے، آئین پاکستان کی سلامتی اور مضبوطی کی علامت ہے۔ اس کی یہ روح برقرار رہنی چاہئے۔ اس روح کو اگر کوئی ترمیم، کوئی عمل یا کوئی رویہ زد پہنچاتا ہے تو اس کی اصلاح یا پھر بیخ کنی کی جانی چاہئے۔

مزید :

رائے -کالم -