خاندانی جھگڑے اور مسائل
اخلاقیات، ہمدردی اور خوف خدا جس معاشرے سے ہجرت کر جائیں وہ معاشرہ خواہ کتنا ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہو ،اس کے پاس اقتصادی،دفاعی یا افرادی قوت جتنی بھی وافر کیوں نہ ہو وہ معاشرہ نہ صرف اپنا وجود ختم کر بیٹھتا ہے بلکہ آنے والی کئی نسلیں صدیوں تک اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے سے قاصر رہتی ہیں۔معاشرے کا وجود صرف مال و دولت کی فراوانی پر استوار نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیئے اپنوں کا احساس ،دکھ سکھ میں سانجھ ،دوسروں کو آگے بڑھنے کے مواقعوں کی فراہمی،اور انسانیت کی قدر ایسے عوامل تازگی اور تقویت فراہم کرتے ہیں۔اسلام نے خاندانی نظام کی مضبوطی اور رشتے داروں سے انس اور لگاؤ کا درس اور عزیز و اقرباءکی مدد سب سے پہلے کرنے کا حکم دیا ہے،رشتوں میں ماں باپ،بہن بھائی، میاں بیوی ،اولاد اور دیگر عزیزوں کے حقوق و فرائض تفصیل سے بیان کیئے ہیں۔
1947 میں قائم ہونے والا معاشرہ جس کی بنیاد ہی اسلامی معاشرے پر رکھی گئی 71 سال بعد بھی اخلاقیات، ہمدردی اور خوف خدا کو عملی طور پر اپنانے سے محروم رہا۔ہمارے معاشرے میں اس وقت ایسی فنی خرابی پیدا ہو چکی ہے کہ اس نے ہماری نئی نسل کو ذہنی طور پر مفلوج کر دیا ہے آج کا نوجوان خود فریبی کے جال میں نہ صرف پھنس چکا ہے بلکہ اس سے باہر نکلنے کی کوشش کرنے سے بھی قاصر ہے۔عزیز و اقارب جن کی اہمیت اسلام نے بیان کی ہے وہ اپنی ذات کو فوقیت دینے کی خاطر ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کے لیئے ایسے حالات پیدا کر دیتے ہیں کہ انسان کی تمام زندگی ان گنجلوں کو سدھارنے میں بیت جاتی ہے جن کا سوائے زندگی کے خاتمے کے اور کوئی حل سوجھائی نہیں دیتا۔اگر کوئی زندہ ضمیر ان خرابیوں کا تدارک کرنے کی کوشش کرے بھی تو اس کے گرد جمع افراد یہ کہہ کر اسے دور رہنے کی تجویز دیتے ہیں کہ آپ اپنی ذات کی فکر کرو اپنے بچوں کو دیکھو،کیوں پرائی آگ میں چھلانگ لگاتے ہو ، جن کا آپ احساس کر رہے ہو وہی کل کو آپ کے خلاف ہوں گے لہذا جس کو جو سمجھ آتا ہے اسے کرنے دو۔وہ بیچارا اپنی زندہ ضمیری کو اپنی آنکھوں کے سامنے تڑپتا دیکھ کر بھی بے بسی کی تصویر بن جاتا ہے۔بزرگوں کا قدیم قول ہے کہ زن ، زر اور زمین ،سب رشتوں کو برباد کر دیتے ہیں ۔ہمارے معاشرے میں ان جھگڑوں کی جھلک ہر طرف دکھائی دیتی ہے۔نوجوان ایک دوسرے کو پسند اور نا پسند کی بنیاد پر گھروں میں ایسا طوفان برپا کرتے ہیں کہ خاندانی نظام کی بنیاد یں ہل کر رہ جاتی ہیں۔علاقے میں اپنا مقام رکھنے والے بزرگ اولاد کی اس حرکت سے کمتری کی ایسی سطح کو چھونے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ تمام عزیز و اقارب انہیں اچھوت تصور کرنے لگتے ہیں۔
مال و دولت کی حرص انسانوں میں ایسی تقسیم پیدا کر دیتی ہے کہ بھائی بھائی کا جانی دشمن بن جاتا ہے ، اگر کسی کو اللہ کچھ عطا کر دے تو سب اس کھوج میں لگ پڑتے ہیں کہ یہ مال اس کے پاس آیا کہاں سے اور اسے برباد کرنے کے لیئے تمام حدیں پار کر لی جاتی ہیں یہاں تک کہ جو رشتے اسے انتہائی محبوب ہوتے ہیں ان کو اپنے جال میں بھانس کر تباہی و بربادی کا سامان اکٹھا کیا جاتا ہے۔رشتوں ناطوں میں ایسے ایسے تماشے لگائے جاتے ہیں کہ زندہ شخص سب رشتے داروں کے سامنے دو وقت کی روٹی سے عاجز ہوتا ہے مگر اس کے مرنے کے بعد دولتمند رشتے دار اپنا شملہ اونچا دکھانے کے لیئے اس کے نام پر انواع کے کھانے تقسیم کرتے ہیں اور اس کے نام پر لوگوں کو حج اور عمرہ کروانے میں سکون محسوس کرتے ہیں،حالانکہ مرنے والے کی بیوی اور بچے ان کے سامنے کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔اقوام متحدہ کی جاری کردہ رپوٹ کے مطابق پاکستان میں ہر تیسرا شہری ذ ہنی تناؤ کی بیماری کا شکار ہے ۔اس بیماری کا شکار10 سال کے بچے سے لیکر 70 سال کے بزرگ افراد ہیں۔بظاہر اس کا شکار افراد تندرست و توانا دکھائی دیتے ہیں مگر آہستہ آہستہ یہ بیماری کینسر کی ماند انسان کو ذہنی اور جسمانی طور پر مفلوج کر دیتی ہے۔ دس سال کا بچہ جب اپنے ارگرد کسی چیز کو دوسرے بچے کے پاس دیکھتا ہے تو اسے حاصل کرنے کے لیئے اپنی خواہش کو ضد اور پھر نہ ملنے پر مایوسی میں تبدیل کر لیتا ہے،یہ مایوسی اس کی عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔دوسری بڑی وجہ شادی ہے جس میں انتخاب سے لیکر اخراجات تک کے تمام مراحل مایوسی اور بگاڑ کا سبب بنتے ہیں اور خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔شریکے اور رشتہ داریوں کی رسہ کشی نے ہمارے معاشرے کی اکثریت آبادی کو دکھاوے کی ایسی لت ڈالی ہے کہ دن رات کمانے والے افراد بھی فاقہ کشی پر مجبور ہوجاتے ہیں۔خوشی ہو یا غمی اپنی ناک کٹنے سے بچانے کے لیئے قرض پہ قرض اٹھانا افراد نے معمول بنا لیا ہے۔ قرضوں کے حوالے سے ایسے افراد کی حالت پاکستان سے ذرا بھی مختلف نہیں انہیں بھی قرض پر سود ادا کرنے کے لیئے ادھار اٹھانا پڑتا ہے۔خواہشات ، دکھاوہ ،مقابلے بازی،ضد اور ہٹ دھرمی نے معاشرے سے اخلاقیات، ہمدردی اور خوف خدا ایسے خیالات کو ناپید کر دیا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر طرف افرا تفری،بے چینی اور بد اخلاقی کا راج ہے۔ اکثر حالات پر حکومتوں کو قصور وار ٹھرایا جاتا ہے مگر ان حالات کا تعلق براہ راست افراد کے اپنے رویوں اور سوچ سے ہے ، حکومتیں جتنی مرضی تبدیل ہو جائیں جب تک معاشرے میں بسنے والے افراد کی سوچ تبدیل نہیں ہو گی اس وقت تک یہ بیمار معاشرہ ٹھیک نہیں ہو سکتا۔معاشرے کی اس بگڑی حالت کو سدھارنے کے لیئے ہر مکتبہ فکر کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ۔اس کا حل افراط زر بڑھانے یامیٹرو ٹرینیں چلانے میں نہیں بلکہ اس کا حل اس نظام میں پوشیدا ہے جو نظام پیغمبر اسلام نے چودہ سو سال پہلے قائم کیا اور خاندانوں، شریکے برادری اور قبائل میں بٹے معاشرے نے انصار اور مہاجرین کو بھائی بھائی بنا دیا ۔ایسا معاشرہ ریاست مدینہ کہلاےا جہاں ،جو اپنے لیئے پسند کرو وہ دوسرے بھائی کے لیئے بھی پسند کرو ، کا پیغام افراد کا نسب العین بن گیا۔اخلاقیات اور خوف خدا کا یہ عالم تھا کہ اپنے حصے کا کھانا دوسرے کو کھلانے والے کی اپنی بھوک ایسے مٹ جاتی جیسے اس نے معمول سے زیادہ کھا لیا ہو۔ایسی ریاست سے حکیم6 ماہ کے بعد یہ کہہ کر رخصت ہو گیا کہ یہاں کوئی بیمار ہی نہیں ہوتا، مگر افسوس کہ ریاست مدینہ کی طرز پر قائم ہونے والی مملکت خدادادکا ہر تیسرا فرد ایسی ذہنی بیماری کا شکار ہے جس کی وجہ خاندانی جھگڑے اور مسائل ہیں۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔