شہر کا امن تباہ،لاہور پولیس بے بس
نئے آئی جی پولیس پنجاب شعیب دستگیر اور ان کی لاہور میں تعینات ہونے والی چہیتی ٹیم کے آنے کے بعد صوبائی دارلخلافہ میں امن و امان کی صورتحال انتہائی ابتر ہوگئی ہے بدامنی کی وجہ سے عوام خوف و ہراس کا شکار ہیں حکومت کے سیاسی نعروں کے مطابق” تبدیلی “آ چکی ہے مگر امن و امان کی صورتحال اب تک بہتر نہیں ہو سکی دیکھا گیا ہے کہ جیسے جیسے پنجاب کے نئے آئی جی اور انکی لاہور کی ٹیم نے چارج لینے کے بعد کام شروع کیا ہے پنجاب بالخصوص لاہور میں بدامنی کی لہر تیز ہوگئی ہے۔ لاہور میں امن و امان کا اندازہ آپ کو اس چیز سے بخوبی ہو جائے گا کے تین روز قبل وزیراعظم پاکستان عمران خان کے بھانجے شیر خان کے گھر ڈاکوؤں کے گروہ نے اسلحہ کے زور پر واردات کرڈالی واردات زمان پارک میں ہوئی، جہاں وزیراعظم کا گھرہے اور اس علاقے میں ہر وقت فورس اور گاڑیاں موجود رہتی ہیں ہماری پولیس جہاں ہر وقت ان کے اہلکار ڈیوٹی پر الرٹ بھی ہوں ڈاکوؤں کو نہ روک پائے تو یہ ایک لمحہ فکریہ ہے یہی نہیں اگلے ہی روز رائیونڈ میں ڈاکووں کے ایک گروہ نے سینئر صحافی امتیاز عالم کے گھر واردات کی جہاں 6ڈاکوؤں نے پورے خاندان کو اسلحہ کے زور پر یرغمال بناکر گھر سے 20لاکھ روپے نقدی 30تولے سوناہزاروں روپے مالیت کے ڈالر پاؤنڈ اور ہیرے کی انگو ٹھیاں لو ٹ لیں اسی طرح مناواں میں ایک شہری کے گھر ڈیڑھ کروڑ مالیت کا سو نا اور نقد ی لوٹ لی۔ نیوائیر نائٹ پر بھی لا ہور پولیس مکمل طور پر ناکام دکھائی دی۔شہریوں نے آئی جی پولیس، سی سی پی او اور دیگر افسران کے احکامات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کھل کر ہوائی فائرنگ کی جس سے متعدد زخمی ہونے کے علاوہ مصری شاہ کی ایک 13سالہ ایمان فاطمہ سر میں اندھی گولی لگنے سے جاں بحق جبکہ نوانکوٹ میں ایک شیر خوار بچہ ماں کی گود میں ماتھے پر گولی لگنے سے شدید زخمی ہو ا۔لاہور پولیس و زیراعظم کے بھانجے اور سینئر صحافی کی واردات میں ڈاکو پکڑے جائیں یا نہ جائیں نقصان تو ہر صورت پورا کرے گی کیونکہ ایسی وارداتوں کا نقصان ہم نے ہمیشہ سے پورا ہو تے دیکھا ہے اور فرضی ڈاکوؤں کی پریس کانفرنس کرنا بھی لاہورپولیس کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے۔حقیقت میں ہر تین منٹ بعد کسی نہ کسی شہری کولاہور میں لوٹ لیا جاتا ہے جن کا کسی کو فکر نہیں ہے ان کا کیا بنے گا۔پہلے پی آئی سی سانحہ سے شہر کا امن تباہ اور دو بڑے اداروں میں تصادم سے محکمے کا مورال بھی ڈاؤن ہوا اور حکومت کو بھی لوگوں نے خوب برا بھلا کہا،سانحہ پی آئی سی ایک ماہ گزرنے کو ہے آئی جی پولیس کی جانب سے بنائی جانے والی کمیٹی تاحال رپورٹ تیار نہیں کر سکی، ویسے تووزیراعظم پاکستان کو پہلے روز ہی پولیس کی نااہلی کا بتا دیا گیا تھا،چہیتوں کو بچانے کے لیے آئی جی پولس اور چیف سیکرٹری نے موقف اختیار کیا کہ اس پر انکوائری کمیٹی بنادی گئی ہے جو دو ہفتے میں ذمہ داروں کا تعین کرے گی ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب ارباب اختیار کو واقعہ کے ذمہ داروں کا علم ہواتھا اسی وقت انھیں فارغ کر کے فائل میں مس فٹ قرار دے کر صوبہ بدر قرار دیا جاتا اس اقدام سے حکومت کے سیاسی قد کاٹھ میں اضاٖفہ بھی ہوتا اور بیوروکریسی کو بھی بڑا واضح پیغام ملتاکہ اب جو بھی خرابی کر ے گا سیدھا گھر جائے گا۔آپ کسی بھی پولیس آفیسر سے بات کر کے دیکھ لیں کوئی بھی زوالفقار حمید کے اچھاایڈمنسٹریٹر ہونے کی تصدیق نہیں کرے گا انھیں ایک اچھا تفتیشی اور انکوائری افسر تو قرار دیا جاسکتا ہے اچھا ایڈ منسٹریٹر نہیں۔ یہ بطور آرپی او سر گودھا، گوجرانوالہ اور آر پی او شیخوپورہ بھی ناکام ہو چکے ہیں۔ سابق وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دوران سی سی پی اوچوہدری شفیق گجر کو ہٹاکر اس وقت بھی انھیں اپنا خاص الخاص سمجھتے ہوئے سی سی پی او تعینات کیا مگر یہ ناکام اور نااہل ثابت ہوئے البتہ ان کی تعیناتی بطور ایس ایس پی انوسٹی گیشن، ڈی آئی جی انوسٹی گیشن بڑی کامیاب رہی ہے۔ آئی جی پولیس کی جانب سے بنائی جانے والی کمیٹی اب کمیٹی کمیٹی کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہے تمام افسران کے بیان آنے کے باوجود تاحال رپورٹ سامنے نہ لانا یہ واقعہ کے ذمہ داروں سے بھی بڑی سنگین غفلت اور پیشہ ورانہ امور کی بد دیانتی ہے لگتا ہے ْقصور وراوں کو بچاکربے گناہوں کو قر بانی کا بکرا بنا یا جائے گا جو کہ ظلم عظیم ہو گا۔ ننکانہ میں سکھ لڑکی کی شادی کے بعدوہاں پیدا ہونیوالی صورت حال اور رحیم یار خاں میں توہین رسالت کے مقدمے میں ناقص تفتیش کا بھی وزیر اعظم کونوٹس لیتے ہوئے زمہ دار پولیس افسروں کے خلاف کا رروائی کر نی چاہیے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے پہلی غلطی وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کو بے اختیار اور دوسری بڑی غلطی سابق حکمرانوں کے چہیتے افسروں کوپنجاب میں تعینات کرکے کی ہے جس کا خمیازہ انھیں الیکشن میں یقینابھگتنا پڑے گا۔ وزیر اعظم کی منطور نظر ٹیم نے فیلڈ میں کام کے ماہر افسروں کو کھڈے لائن لگارکھا ہے جس سے فورس میں بددلی پھیلی ہے اور انھوں نے بھی موجودہ حالات میں خاموش رہنے کو تر جیح دی ہے کیونکہ یہ سیٹ اپ زیادہ دیر چلتا نظر نہیں آرہا۔حالات اور وقت کا تقا ضا ہے کہ وزیر اعظم کو وزیر اعلی پنجاب کو جلد ہی با اختیار کر نا پڑے گا اور یہ ہی بیورو کریسی انھیں جوب دہ بھی ہو گی ورنہ جنوبی پنجاب کی وہ ٹیم جن کی بدولت عثمان بزدار یہاں تک پہنے ہیں وہ عمران خان کے ہاتھ سے نکل جا ئے گی۔چیف سیکرٹری کا سن لیں انہوں نے پولیس سمیت اپنے تمام سیکرٹریوں کو مراسلہ جاری کیا کہ وہ عوام کے لیے اپنے دفاتر میں دو گھنٹے بیٹھیں گے جس کی باقاعدہ تشہیر کی جائے گی اور ان اوقات میں کوئی میٹنگ یا اجلاس نہیں رکھا جائے گا لیکن اس پر کسی نے عملدرآمد نہیں کیا اس سے ظاہر ہو تا ہے کہ پنجاب کی بیوروکریسی وزیراعظم پاکستانکے ایجنڈے کو سیریس لینے کو تیار نہیں ہے۔