وہ وقت جب دہلی میں قحط سالی پڑگئی، صبح سے شام تک بارش کیلئے دعائیں کام نہ آسکیں لیکن اونٹ پر سوار ایک خاتون کا پلو پکڑ کر مانگی گئی دعا فوری منظور ہوگئی، یہ دراصل کون تھیں؟
ایک مرتبہ دہلی میں قحط سالی ہوئی تو سارے لوگ پریشان ہوگئے اور بارش کی دعا مانگنے لگ گئے، ایک دن تمام لوگ اور علمائے کرام میدان میں نماز استسقا ادا کرنے کے بعد خدا سے بارش کی دعا مانگنے لگے۔ یہ عمل صبح سے شام تک چلتا رہا، لیکن بارش نہیں ہوئی، اسی وقت ایک مسافر نوجوان وہاں آگیا۔ اس کے ساتھ ایک پردہ نشین عورت بھی اونٹ پر سوار تھی۔ جب اس نوجوان نے یہ سارا ماجرا سنا تو کہنے لگا کہ میں بارش کی دعا مانگنا چاہتا ہوں، سب خوشی سے راضی ہوگئے تو وہ اونٹنی کے قریب گیا اور رب کے دربار میں دعا کرنے لگا، اس کے ہاتھ نیچے رکھنے سے پہلے ہی بارش ہونے لگی، یہ دیکھ کر سارے علمائے کرام کہنے لگے کہ آپ تو مستجاب الدعوات ہیں۔
روزنامہ امت کے مطابق اس نوجوان نے کہا حقیقت یہ ہے کہ: یہ جاو اونٹنی پر سوار ہے، وہ میری ماں ہے اور ایک چادر ہاتھ میں پکڑ کر کہا: یہ میری ماں کی چادر ہے اور میں نے اپنی ماں کی چادر پکڑ کر اس طرح دعا کی ہے کہ: اے پروردگار یہ میری ماں کی چادر ہے، اس نے کبھی اپنے سر سے دوپٹہ نہیں ہٹایا اور نہ کسی غیر مرد کو اپنا سر دکھایا اور ساری زندگی اپنی عزت کی حفاظت کرتی رہی۔ خدایا! اس کی پاکدامنی کا واسطہ دیتا ہوں تو اپنے بندوں پر بارش برسا دے تو خدا نے میرے ہاتھ نیچے رکھنے سے پہلے ہی بارش برسادی۔
عمران بن حطان خارجی فرقے کا مشہور فصیح و بلیغ شاعر گزار ہے۔ اس کی ذہانت و ذکاوت کے بہت واقعات مشہور ہیں۔ علامہ زمخشریؒ نے نقل کیا ہے کہ وہ بے انتہا سیاہ فام اور بدصورت تھا اور جتنا وہ بدصورت تھا اس کی بیوی اتنی ہی خوبصورت تھی۔ ایک دن وہ بہت دیر تک اس کے چہرے کو دیکھتی رہی اور پھر اچانک اس نے کہا ”خدا کا شکر!“
عمران نے پوچھا : ”کیا بات ہے؟ تم نے کس بات پر خدا کا شکر ادا کیا ہے؟“
بیوی نے کہا: ”میں نے اس بات پر خدا کا شکر ادا کیا ہے کہ ہم دونوں جنتی ہیں۔“
عمران نے پوچھا: ”وہ کیسے؟“
کہنے لگی: ”اس لئے کہ تمہیں مجھ جیسی بیوی ملی، تم نے اس پر شکر ادا کیا اور مجھے تم جیسا شوہر ملا، میں نے اس پر صبر کیا اور خدا نے صابر اور شاکر دونوں کے لیے جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔“ (کشاف، ص572 ج اول قاہرہ 1325ھ)
رپورٹ کے مطابق حضرت عمر بن مرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت امیر معاویہؓ سے کہا کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس شخص کو حق تعالیٰ مسلمانوں کے معاملات سونپے اور وہ ان کی ضروریات اور فقر و احتیاج کی خبر گیری کے بجائے ان سے چھپ کر بیٹھ جائے تو خدا تعالیٰ اس کی ضرورتوں اور فقر و احتیاج کی خبر کے بجائے اس سے چھپ جاتا ہے۔
یہ سن کر حضرت امیر معاویہؓ نے لوگوں کی ضرورت کی خبر گیری کے لیے ایک آدمی مقرر کردیا۔ (مشکوة صفحہ نمبر 322)