مظفر محمد علی اور سعید اظہر (2)
مظفر جب مختلف عارضوں میں پھنس کر زیادہ بیمار ہوا تو میں ادھر امریکہ میں تھا۔ اس سے براہ راست بات کرنے کا موقع بھی کم ملتا اور اس کا اتنا حوصلہ بھی نہیں تھا۔ ایسے میں ہمارے مشترکہ دوست سعید اظہر نے رضاکارانہ طور پر مجھے رپورٹ کرنے کی ذمہ داری سنبھال لی۔ ہر ہفتے دو تین دفعہ تفصیلی بریفنگ مل جاتی۔ میں نے اپنی زندگی میں سعید اظہر سے زیادہ حوصلہ دینے والا، امید پرست (Optimist) زندہ دل اور رونقیں بکھیرنے والا دوست نہیں دیکھا۔ وہ طبی مسائل اور میڈیکل رپورٹس کا خلاصہ اس طرح بیان کرتا کہ بیماری قابو میں ہے، صحت بہتر ہو رہی ہے اور بہت جلد مظفر صحت یاب ہو کر گھر آ جائے گا۔ حقیقت مختلف تھی مظفر خود تو ایسا ہی چاہتا تھا لیکن نیچر کسی اور طرف ہی لے گئی جہاں کی پھر خبر نہیں ملتی۔
بہت بعد میں عباس اطہر (شاہ جی) کسی سنگین مہلک بیماری کا شکار ہوئے اور آہستہ آہستہ اس سفر پر چل نکلے جہاں سے زندگی سے ناطہ جلد ٹوٹ جاتا ہے۔ سعید اظہر شاہ جی سے بہت زیادہ پیار کرنے والے بے تکلف دوستوں میں شامل تھے۔ میری ان سے اتنی بے تکلفی نہیں تھی حالانکہ وہ عمر میں مجھ سے اتنے زیادہ بڑے نہیں تھے۔ تعلقات میں ان کا احترام ہمیشہ غالب رہا لیکن سعید اظہر ان سے میری محبت سے پوری طرح آگاہ تھا۔ اس کا اظہار میں نے شاہ جی کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اپنے آنسو نما لفظوں سے بھرپور تفصیلی کالم میں کیا تھا۔ جب شاہ جی بات کرنے سے بھی قاصر ہو گئے تو سعید اظہر نے مجھ پر یہ احسان کیا کہ وہ وقتاً فوقتاً انہیں اظہر زمان کی تڑپ سے آگاہ کرتے رہتے۔ سعید اظہر مجھے منظر کشی کرتے ہوئے بتاتا کہ شاہ جی کی آنکھوں کی چمک سے صاف معلوم ہو رہا تھا کہ انہیں تمہارا پیغام اپنی پوری شدت کے ساتھ موصول ہو گیا ہے۔
سعید اظہر سے شاید پہلی مرتبہ میرا واسطہ روز نامہ ”کوہستان“ میں پڑا بعد میں جن لوگوں سے دوستی ہوئی وہ سعید اظہر کے قریب تھے۔ اس طرح اس سے جان پہچان بڑھ گئی۔ پھر آہستہ آہستہ ان سے دوستی کیسے ہو گئی، پتہ ہی نہیں چلا۔ ویسے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ کوئی بندہ سعید اظہر سے ایک دفعہ ملے تو ان کا بعد میں دوست نہ بنے۔ سعید اظہر کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اس پر جو لکھا گیا اور کن کن لوگوں نے اس پر اپنا غم بیان کیا تو اندازہ ہوا کہ اس کی محبت اور تعلقات کا دائرہ کتنا وسیع تھا۔ اس طرح کے پاپولر لوگوں کے ساتھ یہ ہوتا ہے کہ ہر کوئی سمجھتا ہے کہ اس جیسی دوستی کسی اور سے نہیں ہے۔
میں بھی اس خوش فہمی یا غلط فہمی کا شکار لوگوں میں شامل تھا اور میرے پاس بھی اس کی کچھ ٹھوس وجوہات تھیں۔ مظفر محمد علی کے ٹمپل روڈ والے دفتر میں میں نے جتنی مرتبہ لنچ کیا زیادہ عرصہ سعید اظہر اس میں شریک ہوئے کہ اس دفتر کے ایک کمرے میں انہوں نے اپنے ذاتی پڑھائی لکھائی اور کاروبائری معاملات کے لئے ایک ٹیبل لگا رکھا تھا۔ جب سے میں روز نامہ ”پاکستان“ سے منسلک ہوا تو لاہور پہنچ کر میرا ٹھکانہ قدرت اللہ چودھری کا دفتر ہوتا۔ سعید اظہر کو خبر ملتی تو اسی ”میٹنگ پوائنٹ“ پر ملاقات ہوتی۔ یہاں سے ہم عموماً کسی جگہ ڈنر کرنے کے لئے نکل جاتے جس میں بعض اوقات اور دوست بھی شامل ہو جاتے۔
لیکن بہت عرصہ پہلے جب میں شادی کے دور میں لاہور میں رہتا تھا تو سعید اظہر نے میرے لئے ایک ڈنر کی میزبانی کی تھی جس کا قصہ میں بہت مرتبہ سنا چکا ہوں۔ مال روڈ پر پرانے پریس کلب میں شام کا اہتمام کرنے والے اکثر دوستوں کا بجٹ شارٹ ہو جاتا تھا جن میں ٹی وی کے نیوز ریڈر سہیل ظفر، خالد چودھری اور سعید اظہر بھی شامل تھے۔ ایسے میں ”چندہ“ دینے والوں میں مَیں شامل تھا۔ ہم لوگ عموماً لنچ اور ڈنر پریس کلب ہی میں کرتے تھے۔ ایک شام سعید اظہر نے کمال فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے دعوت دی کہ وہ مجھے باہر سے ڈنر کرائیں گے۔ میں نے سوچا کہ طویل عرصے سے ”چندہ“ وصول کرنے کے بعد شاید ان کو دھیان آ گیا ہے کہ اس کا بدلہ چکا دیا جائے۔ میں نے کہا کہ ضرور ڈنر کرانا ہے تو ادھر کلب میں کھانے کا بل ادا کر دو۔
لیکن وہ مصر رہے کہ نہیں ڈنر باہر ہی ہوگا۔ ہم سیڑھیاں اتر کر ریگل چوک کے ایک کونے میں توے پر قیمہ بیچنے والے کے پاس پہنچے۔ انہوں نے آرڈر دیا آٹھ آنے کی دو پلیٹیں لگاؤ دو نانوں کے ساتھ ہم نے کھا لیا تو اس نے دکاندار سے کہا کہ چار چار آنے کا قیمہ اور ڈال دو۔ دکاندار نے چار چار آنے کا قیمہ بھی اتنا ہی ڈالا جتنا آٹھ آٹھ آنے کا دیا تھا۔ میں حیران ہو کر سب کچھ دیکھ رہا تھا لیکن انہوں نے انگلی کے اشارے سے مجھے خاموش رہنے کو کہا۔ ہم نے آدھا آدھا نان اور منگوا کر اسے بھی کھا لیا۔ ہم مکمل سیر ہو گئے۔ اتنا لذیذ کھانا میں نے کم ہی کھایا ہوگا۔ دونوں کا سالن ڈیڑھ روپے اور نان ملا کر ڈنر کا کل بل تین روپے تھا۔ انہوں نے پانچ روپے کا نوٹ دے کر دو روپے واپس لئے اور اپنی آنکھوں میں اپنی مخصوص شرارت بھری چمک کے ساتھ مجھے اٹھنے کا اشارہ کر کے واپس پریس کلب لے آئے۔ یہ ڈنر میں آج تک نہیں بھولا۔
میں نے امریکن سنٹر میں اپنے انفارمیشن ایڈوائزر کے جاب کو پورے خلوص دیانت داری اور اصول و ضوابط کے مطابق نبھانے کی کوشش کی۔ البتہ میں نے اپنے مخصوص اختیارات کو کبھی کبھی ضابطے کے اندر رہتے ہوئے ”دوست نوازی“ کے لئے بھی استعمال کیا سعید اظہر اور مظفر محمد علی کو میں نے دو مختلف پروگراموں میں امریکہ جانے کے لئے انٹرنیشنل وزیٹر کے طور پر منتخب کیا۔ ”دوست نوازی“ تو میں نے ہلکے پھلکے انداز میں قرار دیا کہ میرے تقریباً تمام نامزد افراد میرے قریبی دوست ہی ہوتے تھے۔ لیکن سعید اظہر اور مظفر محمد علی سمیت باقی دوست اپنے پروگراموں کے لئے طے شدہ Criteria پر پوری سختی سے پورا اترتے تھے۔ میں ان نامزدگیوں کا دفاع کرے ہوئے اعلیٰ حکام سے ہمیشہ یہ کہتا تھا کہ میرے نامزد افراد میرا دوست ہونے کی وجہ سے ڈس کوالیفائی نہیں ہو سکتے اگر وہ ضروری شرائط پوری کرتے ہیں۔
میں کئی برسوں سے سال میں ایک دو مرتبہ اپنے لاہور کو دیکھنے آتا ہوں۔ اس میں مسلسل فرق آ رہا ہے۔ اس کے منظر سے میری ذات سے وابستہ نصراللہ غلزئی، سید عباس اطہر، منو بھائی، رخسانہ نور اور مظفر محمد علی اوجھل ہو چکے تھے اور یقین نہیں آتا کہ اب آؤں گا تو مجھے سعید اظہر کا پیغام نہیں ملے گا کہ کس ہوٹل میں کب ڈنر کے لئے جانا ہے۔؟(ختم شد)