رؤف طاہر، جو اک شعلہ مستعجل ثابت ہوا
عزیزم یٰسین شاہد نے جی این این کے آفس سے فون پر اطلاع دی: ”آپ کو انتہائی افسوسناک خبر دے رہا ہوں، انکل رؤف طاہر انتقال کر گئے ہیں، ابتدا میں یہی پتہ چلا ہے کہ دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا۔ مزید تفصیل معلوم ہوئی تو عرض کر دوں گا“۔ میرے ساتھ برادرم رؤف طاہر کا مسلسل رابطہ رہتا تھا، کبھی ان کی علالت کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلا تھا۔ یہ خبر اس قدر اچانک اور تکلیف دہ تھی کہ بیان نہیں کر سکتا۔ ٹی وی آن کر کے مختلف چینلوں پر سانحہ کی تفصیلات کے لئے ہاتھ پاؤں مارتا رہا، مگر بے کار۔ مرحوم کے ذاتی فون نمبر پر فون کیا تو ان کا بیٹا آصف مل گیا،ہچکی بندھی ہوئی تھی، بات نہیں کر پا رہا تھا۔ مَیں نے کہا ”بیٹے ایک خبر سنی ہے کیا یہ درست ہے“؟…… ہاں جی! درست ہے انکل“…… مَیں نے کہا بہت صدمہ پہنچا ہے بیٹے ابھی تو تمہاری امی کا صدمہ نہیں بھلایا جا رہا تھا کہ یہ المناک اطلاع آ گئی۔ آصف بولا (آنسوؤں اور ہچکیوں میں الفاظ پوری طرح میری سمجھ میں نہیں آ سکے) کہہ رہا تھا امی کے دم واپسیں کا کچھ وقت تو مل گیا تھا انکل جی! ابو نے تو کوئی وقت ہی نہیں دیا۔ اتنی جلد رخصت ہو گئے اور امی سے جا ملے کہ …………
امجد اسلام امجد کا شعر قلب و جگر کی دنیا تہہ و بالا کر رہا تھا:
دل کے دریا کو کسی روز اتر جانا ہے
اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے
برادرم مجیب الرحمن شامی اپنے رفیق کار جناب جامی کے ساتھ اپنے مستقل پروگرام میں ٹی وی پر نظر نواز ہوئے، کہہ رہے تھے رؤف طاہر کی اچانک موت سے لگتا ہے میرا دل یا میرا جگر کہیں گر گیا ہے۔
جب مَیں بھائی رؤف طاہر کے بارے میں آصف سے بات کر چکا تو یاد آیا جس طرح آج آصف جانکاہ صدمے سے دو چار ہے کچھ عرصہ پہلے مَیں بھی اپنے والد صاحب کی وفات پر غم میں ڈوبا ہوا تھا۔ جنگ پبلی کیشنز کے انچارج مظفر محمد علی مرحوم نے میرے ساتھ والد گرامی کے بارے میں تعزیت کرتے ہوئے کہا تھا، قربان بھائی! میرے والد بھی فوت ہو چکے ہیں، ان کی وفات پر ایک دوست نے اس شعر کی شکل میں اظہار تعزیت کیا تھا:
سارے جہاں کی دھوپ میرے گھر میں آ گئی
سایہ تھا جس درخت کا مجھ پہ وہ گر پڑا
مَیں آج یہی شعر آپ کی نذر کرتا ہوں۔رؤف طاہر صحافت میں رپورٹنگ کے حوالے سے خاص ملکہ رکھتے تھے۔ کالم نگاری میں بھی منفرد اسلوب کے حامل تھے،جب مَیں نے جناب مجیب الرحمن شامی کے ہفت ر وزہ زندگی میں ان کے ساتھ کام کیا تو اندازہ ہوا کہ وہ ایڈیٹنگ کے ساتھ ساتھ انتظام و انصرام میں بھی یکتا تھے۔ مَیں ”زندگی“ سے وابستگی کے لئے جناب شامی سے ملا تو تو انہوں نے مختصر سی گفتگو میں ضروری ہدایات سے نوازنے کے بعد کہا: ”مزید گفتگو رؤف طاہر سے کر لینا وہ Properly آپ کو سمجھا دیں گے۔“ لفظ Properly دلیل ہے اس بات کی کہ شامی صاحب رؤف طاہر کی صلاحیتوں سے بخوبی آگاہ تھے۔ مرحوم کے دل موہ لینے والی صفات ہی تو تھیں کہ آج جناب شامی غیر معمولیطور پر دل گرفتہ دیکھے گئے ہیں۔
آخری دنوں میں برادرم رؤف طاہر کو کالم نگاری کے جو مواقع میسر آئے، ان میں زیادہ تر تعزیت نامے تھے۔ محترم ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی، برادرم سعود ساحر بطور خاص ان کا موضوع رہے، میری بیٹی عفت بتول (سابق اسسٹنٹ ایڈیٹر اردو ڈائجسٹ) نے ڈاکٹر صاحب مرحوم کے بارے میں اپنی یادداشتیں لکھیں تو مجھے بتایا: ”افسوس مَیں ڈاکٹر صاحب پر اپنے تاثرات بیان کرنے میں انصاف سے کام نہیں لے سکی…… مَیں نے جواباً کہا: ”فکر نہ کرو برادرم رؤف طاہر نے ”ہمارے ڈاکٹر صاحب“ کے عنوان کے تحت اپنے کالم میں حق ادا کر دیا ہے۔ اس کے بعد جب برادرم سعود ساحر کی وفات کا سانحہ ہوا تو مَیں نے رؤف طاہر سے (فون پر) اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا: ”رؤف بھائی! شاہ جی (سعود ساحر مرحوم) پر لکھنا چاہتا ہوں، مگر حق ادا نہیں کر سکوں گا۔ براہ کرم آپ لکھ دیں۔ رؤف صاحب نے کہا: ”آج کے ”دنیا“ میں دیکھ لینا“۔ دیکھا تو ”ہمارے شاہ جی“ کے عنوان سے کالم دیکھ کر دل کو جو اطمینان ملا، بیان نہیں کر سکتا۔
رؤف طاہر انتہائی ہمدرد اور دوست نواز انسان تھے۔ مقابلتاً کم مایہ احباب ان کے روبرو اعانت کے تقاضا میں ذرہ بھر قباحت محسوس نہیں کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے سعودی عرب میں اپنے قیام کے دوران وہ اپنے اعزا و اقربا بالخصوص اپنی بہنوں کی مالی اعانت میں گرانقدر جذبہء اخوت سے کام لیا کرتے تھے۔
روزنامہ”دنیا“ میں ان کا آخری کالم ”وفا کا نام زندہ ہے، مَیں بھی زندہ ہوں“ کے عنوان سے شائع ہوا جس میں انہوں نے مسلم لیگی حضرات کی گرفتاریوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے: ”نوابزادہ صاحب شعر پڑھا کرتے تھے:
رہیں نہ رند یہ واعظ کے بس کی بات نہیں
تمام شہر ہے دو چار، دس کی بات نہیں
مزید لکھتے ہیں: ”وفاداری پر مصطفی زیدی یاد آئے۔
وفا کا نام بھی زندہ ہے، مَیں بھی زندہ ہوں
تو اپنا حال سنا، مجھ کو بے وفا میرے
مگر رؤف طاہر جو مجھ سے بے وفائی کر گیا ہے، اس کا رونا کس سے رویا جائے؟