سکھوں کے خلاف دوبارہ آپریشن بلیو سٹار کی تیاری
خالصتان ریفرنڈم کے حق میں بھارت کے اندر اور بیرون ملک سکھوں میں بڑھتی ہوئی حمایت سے پریشان بھارتی سرکار”را“ اور دیگر ایجنسیوں کو استعمال کرتے ہوئے سکھوں کے خلاف ایک بارپھر”آپریشن بلیو سٹار“ کو دہرانے کی تیاری کر رہی ہے۔اس ضمن میں سکھوں کی پرامن جدوجہد کو دبانے کے لیے بھارت کی جانب سے فوج کے استعمال کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔بھارتی ادارے کی ہی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کسانوں کی طویل تحریک کی وجہ سے مودی کی ساکھ کو جو نقصان پہنچا ہے وہ اسے مضطرب کئے ہوئے ہے۔ اس لیے مودی انتخابات پر اثرانداز ہونے کے لیے کثیر الجہتی حکمت عملی کے تحت انتقام لینے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے سکھوں کو بدنام کرنا اورعدلیہ کے ذریعے کسانوں کی تحریک کے ممتاز رہنماؤں کے خلاف مقدمات قائم کرنا اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
بھارت کی سیاسی قیادت پہلے ہی بیرون ملک ’سکھز فار جسٹس‘ اور خالصتان کی حامی دیگرتنظیموں کے خلاف مقدمات بنا چکی ہے۔ بھارت خالصتان تحریک کا تعلق پاکستان کے ساتھ جوڑنے کے لیے اپنے بدنام زمانہ ذرائع ابلاغ کو استعمال کر رہا ہے۔ بھارت کی تاریخ اس طرح کے جعلی آپریشنز سے بھری پڑی ہے۔ بھارت خالصتان کے بہانے نئی دہلی کے ساتھ اختلاف رائے رکھنے والوں کے عزم کو توڑنے کے لیے سیکورٹی فورسز کا استعمال کر سکتا ہے۔رپورٹ میں ماہرین کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ بی جے پی بھارتی پنجاب میں انتخابات میں تاخیر کے لیے وہاں امن و امان کا مسئلہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سکھوں کی قیادت میں کسانوں کی پرامن تحریک بھارت میں مظلوم قوموں کے لیے مشعل راہ بن گئی ہے۔ اس کے ردعمل میں مودی کی قیادت والی بی جے پی حکومت خالصتان تحریک کو دبانے کے لیے اندرون اور بیرون ملک سکھوں کے خلاف سازش کر رہی ہے۔
بھارتی حکومت کی جانب سے پاکستان پر گذشتہ کئی برسوں سے یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ پاکستان خالصتان علیحدگی پسند تحریک کو ہوا دے رہا ہے۔ پاکستان پر الزام عائد کرنے والے ہمیشہ یہ سچ جان بوجھ کر فراموش کردیتے ہیں کہ آپریشن بلیوسٹار کے اثرات سکھوں پر ابھی تک ویسے ہی تازہ ہیں وہ نہ اسے بھول سکتے ہیں نہ بھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیونکہ کوئی قوم اپنے ساتھ اس قدر بڑی زیادتی اور ظلم کو بھلانہیں سکتی بالخصوص سکھ قوم ایسا کرہی نہیں سکتی۔ ایسی قوم کے انتقامی جذبات ہی کسی بڑی تحریک کی بنیاد بن جاتے ہیں اسے کسی دوسری قوم یا ادارے کی مدد کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔
شدت پسندی کے خلاف برطانوی حکومت کی کمیشن کی رپورٹ میں واضح طور پرکہا گیا ہے کہ بھارت کے اندر خالصتان تحریک کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ نہیں ہے۔ بھارت نے خالصتان تحریک کو دہشت گرد قرار دیا جس پر سکھ ناراض ہوئے۔ سکھ بھارتی پالیسیوں سے نالاں ہیں۔برطانیہ میں مقیم ہندوؤں اور سکھوں کے درمیان بھی تناؤ موجود ہے۔ اوورسیز سکھ کمیونٹی اپنی شناخت سے متعلق زیادہ حساس ہے۔ وہ خالصتان تحریک کے حوالے سے سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ گولڈن ٹیمپل حملے کے بعد سے خالصتان کے مطالبے میں شدت آئی ہے۔ بھارتی حکومت اور میڈیا کا رویہ بھی سکھ علیحدگی پسندی کو ہوا دے رہا ہے۔سکھوں کی اکثریت اب الگ ملک کا قیام چاہتی ہے۔
آپریشن بلیو سٹار کے نام سے بھارتی فوج کے ہاتھوں سکھوں کے قتل عام کو 36 برس بیت گئے لیکن سکھ قوم کے دل پر لگا زخم آج تک مندمل نہیں ہوسکا۔ 1984 میں جون کے پہلے ہفتے میں بھارتی فوج نے امرتسر میں سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل پر دھاوا بولا۔ 8 دن تک جاری رہنے والے اس قتل عام میں سینکڑوں سکھوں کو دن دیہاڑے قتل کیا گیا جس گردوارے میں سکھ عقائد کے مطابق ننگے سر جانا بھی پاپ (گناہ) ہے وہاں قاتل بھارتی فوجیوں نے جوتوں سمیت گھس کر سکھ عبادتگاہ میں خون کی ندیاں بہا دیں۔ بھارتی فوج نے گرورام داس لنگر کی عمارت پر حملہ کیا۔اگلے دن ہندوستانی فوج کی سات ڈویژن فوج نے امرتسر پہنچ کر شہر کے داخلی اورخارجی راستوں کو بند کیا، پانی، بجلی اور میڈیا کو بھی مکمل بند کردیا گیا۔چار جون کو ہرمندر صاحب کی عمارت پر گولہ باری شروع ہوئی، پانج جون کو بھارتی فوج گولڈن ٹیمپل کی عمارت میں داخل ہوئی اور وہاں موجود سکھوں کا بلا تفریق قتل عام کیا۔ چھ جون کو ٹینکوں کی مدد سے اکال تخت کو مسمار کیا گیا اور اس طرح 7 جون 1984 کو بھارتی فوج نے ہرمندر صاحب کی عمارت پر قبضہ جما لیا۔آپریشن بلیو سٹار کے رد عمل میں اس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو انہی کے سکھ سیکیورٹی گارڈ نے قتل کیا تو پورے بھارت میں سکھ مخالف فسادات پھوٹ پڑے اور لگ بھگ 17 ہزار سکھوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
دنیا بھر میں پھیلے 3کروڑ سکھ آج بھی بھارت سے آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ دنیا بھر میں سکھ تنظیموں نے بھارت کے خلاف احتجاج کیا۔ مودی سرکار نے مظاہروں کے خوف سے گولڈن ٹیمپل کو آنے جانے والے راستے بند کر دئے۔
80ء اور90ء کے عشروں میں بھارتی حکومت کے ظلم و ستم سے تنگ آکر 90 فیصد سکھوں نے دنیا کے مختلف ممالک کا رخ کیاتھا، بعدازاں انھوں نے اپنے گھرانے کے دوسرے لوگوں کو بھی بلا لیا۔ وہ سکھ نوجوان بھی یہاں آگئے جنھیں بھارت میں بے روزگاری کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جارہا تھا۔ چنانچہ وہ اپنی زمینیں اور جائیدادیں فروخت کرکے بیرون ملک مقیم ہوگئے۔ ظاہر ہے کہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ اب بیرون ملک مقیم یہ سکھ پورے جوش وخروش سے ’خالصتان ریفرنڈم‘ کے لئے تحریک چلارہے ہیں۔