اُس نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ”اوپر والا ضرور دے گا“۔میں نے پوچھا تھا کیا آج تم نے کچھ کھایا، اُس نے ہاں یا ناں میں جواب دینے کی بجائے یہ جواب دیا تو میں سوچنے لگا یہ اوپر والا آسرا نہ ہو تو نجانے کتنے لوگ مر جائیں۔میں اور کالم نگار اظہر مجوکہ ایک شادی میں شرکت کے بعد لوٹ رہے تھے۔ہم نے وہاں نوٹ کیا تھا کہ لوگوں نے اپنی پلیٹیں مٹن،چکن کی مختلف ڈشوں سے بھری تھیں اور پھر تھوڑی سی کھا کر دوبارہ نئی پلیٹیں اُٹھا کر دوسری ڈشیں لا رہے تھے۔ ہمارے سامنے والے میز پر سالن سے بھری ہوئی پلیٹوں کا ایک انبار لگ گیا تھا،کئی پلیٹوں میں تو اتنا زیادہ مٹن تھا کہ شاید کسی غریب کے گھر میں بکر عید پر بھی نہ پکتا ہو۔ میں نے اظہر مجوکہ کی طرف دیکھا۔وہ میرے چہرے کے تاثرات بھانپ گیا۔اُس نے مجھے کہا کچھ کہنے کی ضرورت نہیں،تم کون سے میزبان ہو۔میں نے کہا لیکن یہ اسراف تو زیادتی ہے،کہنے لگا تم کسی کو اِس سے روکو گے تو خواہ مخواہ تمہارے گلے پڑ جائے گا۔خاموشی سے کھاؤ اور گھر جاؤ۔ ابھی ہم یہ بات کر رہے تھے تو ہمارے سامنے سے اُٹھ کر جانے والا جو پہلے بھی مٹن کی ایک بھری پلیٹ چھوڑ گیا تھا،چکن پیسوں اور بڑی چکن قورمہ کی پلیٹیں لے کر وارد ہوا۔اُس نے اپنے سامنے اُن کا بازار سا بجا کر کھانا شروع کیا۔بمشکل چند نوالے لئے ہوں گے کہ اُس کا دِل گویا بھر گیا،مگر نہیں صاحب دِل کہاں بھرا تھا،وہ دوبارہ گیا اور تھوڑی دیر بعد پلاؤ کی پلیٹ بھر لایا۔ اُسے بھی چند منٹ کے بعد چھوڑ کر گجریلا لینے چلا گیا۔میں نے دوسرے قریبی میزوں کی طرف دیکھا تو وہاں بھی یہی منظر تھا۔وہ قیمتی کھانا ضائع ہو رہا تھا،جو غریبوں کے لئے من و سلویٰ کا درجہ رکھتا ہے اس کی ایسے بے قدری کی جا رہی تھی جیسے وہ کھانا نہ ہو کچرا ہو۔اس منظر کو ذہن میں لئے جب ہم دونوں میرج کلب سے نکلے تو ملتان کے علاقے نواب پور روڈ پر سخت سردی میں ایک شخص ہمیں بیٹھا نظر آیا۔اُس کے پاس ایک معمولی سی چادر تھی جو اُس نے سردی سے بچنے کے لئے اُوڑھ رکھی تھی۔میں نے اظہر مجوکہ سے کہا ایک منت گاڑی روکو۔نیچے اُتر کر اُس سے پوچھا وہ سردی میں یہاں کیوں بیٹھا ہے،گھر کیوں نہیں جاتا۔تو اُس نے سیدھا جواب دینے کی بجائے کہا، بابو جی آپ لوگ گھر جائیں بچے آپ کا انتظار کر رہے ہوں گے۔پھر میں نے کہا تم نے کھانا کھایا ہے،اُس نے غیر معمولی عدم توجہی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ”اوپر والا ضرور دے گا“۔میں سمجھ گیا یہ کچھ نہیں بتائے گا۔قریب ہی ایک تندوری ہوٹل تھا۔ ہم وہاں گئے،سالن اور روٹیاں لے کر اُس کے پاس آئے، اُس نے انہیں دیکھتے ہی کہا،”آپ کو اوپر والے نے بھیجا ہے؟“۔میرے بولنے سے پہلے اظہر مجوکہ بولا ہاں یہ اوپر والے نے بھیجا ہے،اُس نے آسمان کی طرف شکر کے انداز میں دونوں ہاتھ بلند کئے، پھر اُس نے ایک ایسا جملہ کہا جس نے میرے بدن میں سنسنی سی دوڑا دی۔کہنے لگا اِس ملک میں اوپر والا نہ ہوتا تو نجانے کتنے لوگ روزانہ بھوک سے مر جاتے۔اُف خدایا،یہ کیا دیکھنے کو مل رہا ہے۔یہ غربت، یہ بے گھری اور دوسری طرف اس قدر اسراف کہ رزق کی بے حرمتی کے مناظر،یہ معاشرہ کس نہج پر پہنچ چکا ہے اور ہم اپنی خوشحال زندگی کی چکا چوند میں کس قدر خود غرض ہو چکے ہیں۔
ایسے واقعات یقینا ہم سب کی نظروں سے گذرتے ہیں، میری بیٹی کی شادی تھی تو مجھے میرج کلب کے مالک نے کہا بارات والے دن آپ نے چوکس رہنا ہے۔ باراتیوں میں بہت غریب غرباء بھی شامل ہو جاتے ہیں، جن کی وجہ سے اکثر حقیقی مہمانوں کو بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں ملتی۔میں نے اُسے کہا یہ ہے تو بہت مشکل کام کہ بارات کے ساتھ آنے والے کسی مہمان کو روکا جائے۔بہرحال کوشش کریں گے،جب بارات آئی تو ڈھول بجنے اور بھنگڑے ڈالنے کے مناظر شروع ہو گئے،جن لوگوں کی ذمہ داری لگائی تھی وہ بھی مصروف ہو گئے۔بارات میرج کلب میں داخل ہو گئی تو یوں لگا کہ جیسے بندے گنتی سے زیادہ آ گئے ہیں۔پھر میں نے نظر دوڑانا شروع کی۔مجھے کئی سہمے اور ڈرے ہوئے چہرے نظر آئے، جن کے حلیے سے بھی لگ رہا تھا وہ بارات کے ساتھ نہیں آئے۔میرج کلب کے منیجر نے کہا آپ نے جتنے افراد کی بکنگ کرائی ہے،اُن سے بیس لوگ زیادہ ہیں ہم نے زائد کرسیاں لگا دی ہیں۔میں نے کہا ٹھیک ہے جو آ گئے ہیں، وہ سب میرے مہمان ہیں اور اللہ کے حکم سے آئے ہیں۔ اُس دن مجھے یہ سوچ کر اتنا سکون ملا کہ وہ بِن بلائے غریب افراد بھی ایسا کھانا کھا گئے جو ہم خوشحال اور بھرے ہوئے پیٹوں والوں کے نزدیک معمول کی شے ہوتا ہے، جسے وہ ضائع بھی کرتے ہیں اور کھاتے بھی نخرے کے ساتھ ہیں۔کچھ فیصلے اوپر والے کے بھی ہوتے ہیں انہیں مان لینا چاہئے، درمیان میں ٹانگ اڑا کر اپنی انانیت اور تکبر کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ معاشرہ اب غربت و امارت کی دو انتہاؤں پر کھڑا ہے۔امارت والے کوئی کسر نہیں چھوڑتے اور غربت والوں کی ضرورت پوری نہیں ہوتی۔کل مجھے ایک سکول میں رات کی چوکیداری کرنے والا ایک شخص ملا۔ وہ میرا بہت پرانا واقف ہے۔اُس نے بتایا اگلے ماہ بیٹی کی شادی ہے، سو بندوں کے کھانے کا انتظام کرنا ہے،جہیز توجیسے تیسے پورا کر دیا ہے اب یہ مرحلہ درپیش ہے۔سو بندوں کا کھانا تو ہم ہر شادی کی تقریب میں ضائع کر دیتے ہیں یہ بے چارہ اس کی فکر میں گھلا جا رہا ہے۔میں نے اس کی طرف مسکرا کے دیکھا اور کہا،”فکر کیوں کرتے ہو، اوپر والا ہے ناں“۔ آپ یقین کریں میرا یہ جملہ سُن کر وہ خوش ہو کر چلا گیا۔
میں سوچتا ہوں غریبوں کے لئے یہ اوپر والا نہ ہوتا تو اُن کی زندگی میں ڈھارس دینے والا کون ہوتا۔بے شک سارا نظام اوپر والا ہی چلا رہا ہے،لیکن اوپر والے نے یہ بھی تو حکم دیا ہے کہ اپنے اردگرد انسانوں کو بھوکا نہ رہنے دو، اُن کی مشکلیں حل کرو، جو مال تمہیں دیا گیا ہے،اُس پر شکر ادا کرنے کا سب سے اعلیٰ طریقہ یہ ہے کہ اُس سے لوگوں کی مدد کرو، اُن کی زندگی میں آسانیاں لاؤ۔ یہاں حکومتوں نے تو صرف ٹیکس لگانے ہیں، عوام کی جیبوں سے پیسے نکلوانے ہیں،مہنگی بجلی، گیس اور پٹرول کے ذریعے اُن کی زندگی میں آنے والی خوشیوں کا راستہ روکنا ہے۔ایسے معاشروں میں متمول افراد کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ غربت بہت ہے مگر اس کا مسئلہ یہ ہے نظر نہیں آتی۔ہمیں سڑکوں پر چمکتی گاڑیوں کی قطاریں دکھائی دیتی ہیں تو خوش ہوتے ہیں ملک خوشحال ہو گیا ہے، کسی شادی کی تقریب یا شاپنگ سنٹر میں جائے، جب پارکنگ کے لئے جگہ نہیں ملتی تو سمجھتے ہیں ملک بہت امیر ہو گیا ہے، لیکن یہ سب محدود اور مصنوعی مناظر ہیں اصل پاکستان وہ ہے جس میں 25 کروڑ عوام بستے ہیں اُن لوگوں کے دُکھ، محرومیاں،غم اور مشکلات ہمارے سامنے نہیں آتیں، حالانکہ وہ سامنے کی حقیقت ہیں ہم نے انہیں اوپر والے پر چھوڑ دیا ہے۔ یہ بھول گئے ہیں کہ اوپر والے نے بھی کوئی حکم دیا ہے۔اس کی حکم عدولی اُس غربت سے کہیں زیادہ خسارے کا سودا ہے،جو ہمارے اردگرد بکھری ہوئی ہے۔
٭٭٭٭٭