مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:41
وہاں پہنچ کر انہوں نے مسجد کی چھت سے ایک پرانی سی لاٹھی اتاری جس کی کھال بھی ڈھیلی ہو کر ادھڑنے لگی تھی۔ چھال کو اتارتے جا رہے تھے اور کچھ قرآنی آیات پڑھتے جا رہے تھے۔ کچھ دیر بعد چھال کا گچھا سا بنا کر تیرے باپ کے ہاتھ میں پکڑاتے بولے؛”سن بئی جوانا۔ چھال دا لیپ بنا لے تے روزانہ فجر تے مغرب دی نماز بعد اے آیت چالی(40) وار پڑھ کے لیپ ادی دونوں اکھاں تے لانا ایے۔ اکتالیویں دھاڑے انشا اللہ نظر واپس آ جاسی۔“ آیت یہ تھی۔ ”ا للہ نور السموات والارض“۔ تم نے ہی پڑھنا ہے اور ناغہ نہیں ہونا چاہیے۔“ ان کی بیگم نے میرے والدین کو کھانا کھلایا اور رات گئے ہم واپس شور کوٹ پہنچے تھے۔ پھر اگلے 40 دن ابا جی تھے، مصلیٰ(جائے نماز) تھی اور وہ وظیفہ۔ روزانہ میری دونوں آنکھوں پر لیپ لگایا جاتا۔ وقت گزرتا جا رہا تھا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ میرے والدین کے تجسس بھی بڑھتا جا رہا ہو گا۔ ان کے لیے وہ 40 دن کی مدت کئی سالوں جتنی لمبی ہو گی۔چالسویں دن انہیں میری آواز سنائی دی جس کا انہیں کئی دنوں سے انتظار تھا۔”ابا جی! میں دیکھ سکتا ہوں۔“ مجھے معلوم نہیں میری آواز سن کر ان کی کیا کیفیت ہو ئی ہو گی۔ عین ممکن ہے انہیں میری بات پر یقین نہ ہوا ہو۔ مجھے یاد ہے ابا جی نے میری آنکھ پر ہاتھ رکھا اور اپنے دوسرے ہاتھ کی انگلیاں دکھا کر بار بار پوچھتے؛”بتاؤ یہ کتنی انگلیاں ہیں بیٹا۔“ ہر بار میرا جواب درست تھا۔ میرے والدین کے لیے یہ انتہائی مسرت اور شکر کا وقت ہو گا۔ صدقات دئیے گئے ہوں گے۔کئی دنوں کے کرب کے بعد وہ لمبے سجدہ شکر میں گر گئے ہوں گے۔ اگلے روز ہم باوا جی کے پاس تھے۔ انہیں اس معجزے کا بتایا۔ وہ بولے؛”سب میرے اللہ کا کرم ہے۔ سب اللہ کا کرم ہے۔“ میری بائیں آنکھ میں ترچھا پن سا آ گیا تھا۔ جو آج بھی ہے لیکن صرف تیز دھوپ میں ہی نمایاں ہو تا ہے۔ باوا جی بولے؛ اب اس کا آپریشن ہو گا۔“ یہ سن کر میں رونے لگا تو وہ بولے ”اپریشن اس کا نہیں میرا ہو گا اور یہ اپریشن نشتر میڈیکل کالج کے آئی سرجن پروفیسر ڈاکٹر شفیع کریں گے۔“
نشتر ہسپتال ملتان میں؛
میرے والدین مجھے نشتر ہسپتال ملتان لے گئے۔ ہسپتال کا آپریشن تھیٹر مجھے آج بھی یاد ہے آپریشن ٹیبل پر لٹا یا گیا میرے چہرے پر لائیٹس پڑ رہی تھیں۔ میں رونے لگا اور کہا؛”میں نے آپریشن۔۔۔۔“اور ڈاکٹر نے میری ناک پر کلوفارم والارومال رکھ دیا اور پھرمجھے کوئی ہوش نہ رہا۔
میری نظر بحال ہو چکی تھی لیکن میری بائیں آنکھ جس کو حادثہ پیش آیا تھا اس میں نظر آج بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ میرے والدین کی خوشیاں لوٹ آئی تھیں اور میرا سارا خاندان باواجی کا مرید ہو چکا تھا۔ امی جی کو انہوں نے بیٹی بنا لیا۔باوا جی سے میری والدہ کی محبت ویسی ہی تھی جیسی کسی بیٹی کی باپ سے ہوتی ہے۔ وہ باوا جی سے لڑ بھی پڑتی تھیں۔ امی جی انہیں ملنے جاتیں اور وہ حجرے میں ہوتے تو ان کی آواز سن کر باہر آ جاتے تھے۔ایک دفعہ ابا جی کی نوکری نہیں تھی۔ یہ1971ء کے اوائل کی بات ہے۔ہم اپنے نانا کے گھر گوجرانوالہ میں رہتے تھے جن کا انتقال کچھ عرصہ قبل ہوا تھا۔امی جی نے دکھی مگر سخت لہجے میں ان سے کہا”باواجی! حمید کی نوکری نہیں، بڑا مشکل وقت ہے۔ دعا کریں اللہ کوئی سبب بنا دے۔“ میری امی کی آواز سن کر مسکرائے اور بولے؛”پتر! حمید کونوکری مل گئی ہے۔“ وہ بولیں؛”صبح میں آپ کے پاس جب آ رہی تھی تو کوئی نوکری وکری نہیں تھی۔“ بہرحال یہ وہی وقت تھا جب والد کو ایک کمپنی کی طرف سے تقرر نامہ موصول ہوا۔ اللہ کے دوستوں کی اپنی ہی دنیاہے جو وہ دیکھ سکتے ہیں ہم اس کا سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔اللہ سے انس، محبت اور اعتقاد کا اندازہ ہم دنیا دار کہاں لگا سکتے ہیں۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔