روزہ محض مجبوری کا نام نہیں
خواہش تو تھی کہ کھابہ خوران اسلام کے شہر میں افطاریوں کا موسم شروع ہوتے ہی ’غذائی دہشت گردی‘ کی ترکیب میری ہفتہ وار تحریر کا موضوع نہ بنے ۔ لیکن اول تو اس پہ لکھنے کا اشارہ ایک ایسے نوجوان دوست نے دیا جن کی فرمائش کو ٹالا نہیں جا سکتا ۔ دوسرے ہر حساس انسان کی طرح یہ کالم نویس بھی اپنے گردو پیش کا اثر قبول کرتا ہے اور اس کے گرد وپیش میں ایم ایم عالم روڈ شامل ہے جہاں تین سال پہلے ڈسکاﺅنٹ والی افطاری کی نفسانفسی دیکھتے ہی اس پر یہ اصطلاح وارد ہوئی تھی ۔ یہ عظیم الشان سڑک پاکستان کے ایک مایہ ناز ہوا باز سے موسوم ہے ۔ مگر پچھلے تین برسوں میں غذائی افراتفری میں کتنا اضافہ ہوا ؟ یہ اندازہ اس سے لگائیں کہ اب یہاں ریستورانوں کی تعداد ان طیاروں سے کہیں زیادہ ہے جنہیں دو جنگوں میں مار گرانے کا سہرا لوگ روایتی طور پر ایم ایم عالم کے سر باندھتے رہے ۔
ہمارے ماضی کے فوجی ہیرو اور نئے دور کی طعام گاہوں کے درمیان صرف نام کا رشتہ نہیں بلکہ دونوں میں ایک مجاہدانہ اسپرٹ کا تعلق بھی ہے ۔ ایم ایم عالم کا جہادی جذبہ کسے یاد نہیں ؟ اسی طرح ’جانے نہ پائے ‘ کا نعرہ لگا کر دشمن پر ٹوٹ پڑنے کا مظاہرہ دیکھنا چاہیں تو روزوں کے مہینے میں آپ بھی کسی شام اس افطار نگر کا چکر لگا آئیں ۔ ویسے اس مرتبہ یہاں آ کر مجھے غذائی دہشت گردی جیسی کوئی نئی ترکیب تو نہیں سوجھی ۔ مگر اس موضوع پر لکھنے کی فرمائش کرنے والے دوست نے یہ پوچھ کر سوچوں کے دریچے وا کر دئے کہ ملک صاحب ، آپ کی نوعمری میں کیا افطاری ریکری ایشن کا ذریعہ نہیں تھی ۔ ’افطاری کوئی ایشو نہیں تھا ‘ ۔ ’ اس کا مطلب ؟‘ ’مطلب ہے کہ فروٹ چاٹ ، پکوڑوں اور سموسوں کے بغیر روزہ کھل نہیں سکتا ، یہ فتوی ابھی نہیں آیا تھا‘ ۔ رضوان وحید حیران رہ گئے ۔
حیرانی کی آڑ میں ہم عسکری روایت کے مطابق افطار ڈنر کی میز پر اس فتح کا پرچم لہرانے میں مصروف ہو گئے جس کی بشارت بیرونی دروازے پر پرائس پلس ٹیکس کے اعداد کی صورت میں درج تھی ۔ لیکن فکسڈ مینو میں کمپنی کا سراسر نقصان ہے کہ کشمیری النسل ہوتے ہوئے بھی میں ’کھاﺅ ٹائپ‘ آدمی نہیں ۔ خیر ، جس طرح کرنیلی عہدہ سے زیادہ ایک کیفیت کا نام ہے ، اسی طرح میرے آبائی محلے کے بٹ اور بٹنیاں مائینڈ نہ کریں تو کسی کا بٹ ہونا یا نہ ہونا ذات برادری کا سوال نہیں ، نظریہ ء حیات کا مسئلہ ہے ۔ اپنے میزبان کے ڈر سے ، جو خود بھی پریکٹسنگ بٹ صاحب ہیں ، افطاریوں کے موضوع پہ کالم لکھنے کا وعدہ تو کر لیا ، مگر اپنی تحریر میں دل کے البم میں چھپی ان تصویروں کی جھلک دکھانے کی بھی ٹھان لی جن پہ مذہبی خشونت کے موجودہ ماحول میں نظر ڈالنا بھی جان و مال کا گھاٹا ہے ۔
اگر ہم آزادی کے بعد فیض احمد فیض والے ’غم جہاں کا حساب‘ کرنے بیٹھیں تو قومی زندگی کی اکائیاں ایک سے دوسرے اور پھر دوسرے سے تیسرے مارشل لا تک جڑی ہوئی دکھائی دیں گی ۔ اس لحاظ سے رضوان نے ماہ رمضان میں کھانے پینے کی جس ریکری ایشن کی بات چھیڑی ، میری یادوں میں ایوب خان کے انقلاب سے قبل اس کا منظر نامہ گھر کے اندر کسی افطار پارٹی کی بجائے عین دوپہر کے وقت میٹھے انڈے اور سحری کے ری کنڈیشنڈ پراٹھے سے ترتیب پاتا ہے ۔ ڈرامہ کے بڑے کردار ہیں میرے ابا اور دادا ، جو کھانے کے اس عمل میں اس لئے بے تاب ہیں کہ جمعہ کی نماز قریب ہے ، کہیں مسجد جانے میں دیر نہ ہو جائے ۔ اس چھوٹے سے منظر میں جو جو کچھ دیکھا اسے بیان کرتے ہوئے آج کے مسلمان سے ڈر تو لگتا ہے مگر ہیں یہ سب حکیمانہ نکتے ۔
مثال کے طور پر دادا کی چار سالہ لڑکے کو یہ سمجھانے کی مشفقانہ کوشش کہ بچوں کو دن میں ایک بار روزہ کھولنے اور پھر دوبارہ رکھنے کی اجازت ہے ۔ بچے کی ڈری ڈری سی ہچکچاہٹ ، ساتھ ہی اس کی روزہ دار ماں ، دادی اور پھوپھیوں کا تیسری دنیا کے ممالک جیسا رویہ ۔ گویا گھر کے مردوں کا ساتھ بھی دیا جارہا ہے اور یہ کوشش بھی ہے کہ سب کی آنکھوں کا تارہ یہ چھوٹا سا بچہ جسے دین و دنیا کے اصولوں کی سمجھ ہی نہیں ، روزہ رکھنے کے سوال پر مردوں سے الٹ موقف اختیار کرے ۔ کیا پتا دادا کے روزہ نہ رکھنے کی عادت کے پیچھے حقہ نوشی کی عادت ، معمولی کاشتکارانہ بیک گراﺅنڈ یا مغربی پنجاب میں نہروں کی کھدائی سے پہلے کے اس کال قحط کو دخل ہو جس نے ’اللہ بھائی قادرا ، روپئے مانی باجرہ‘ جیسے لوری کو ہماری لوک شاعری کا حصہ بنا دیا ۔ پر کیا ہماری عورتوں کو بھوک نہیں لگتی تھی؟
کنبہ کے نیم خواندہ سربراہ کا روزہ چھوڑنا مگر باجماعت نماز کی پابندی کرنا ایک دلچسپ عادت تھی ۔ ساتھ ہی مسلمانوں کے تمام مسالک کے بارے میں یہ یقین کہ سبھی اچھے ہیں کیونکہ قومی کاموں میں ہمارا ساتھ دیتے ہیں ۔ قومی کام سے مراد ہے تیس کی دہائی کے شروع میں مجلس احرار اسلام کی ’کشمیر چلو‘ موومنٹ جس میں مولانا مظہر علی اظہر ، شیخ حسام الدین اور شورش کاشمیری قائد تحریک سید عطا اللہ شاہ بخاری کے دست و بازو بنے ہوئے تھے ۔ ڈوگرہ راج کے خلاف اس مخلصانہ مگر جذباتی جد و جہد کا تجزیہ کئی الگ الگ زاویوں سے کیا جا چکا ہے ۔ لیکن مجھے تو اس سے غرض ہے کہ عطا اللہ شاہ بخاری کے حکم پر ، جنہیں تحریک کے مرکز سیالکوٹ کے پرانے لوگوں نے بابا ’ڈانگ والا‘ کہا ، میرے دادا اکلوتے بیٹے ، بیٹی کو چھوڑ کر ہزاروں دیگر رضاکاروں کے ساتھ ادھم پور جیل میں جا قید ہوئے تھے ۔
ٹوٹے پھوٹے اور بنتے بگڑتے معاشروں میں کئی ذاتی باتیں اجتماعی رویوں میں تبدیلی کا اشارہ بھی ہوا کرتی ہیں ۔ سو ، لمبی کہانی سنانے کی بجائے صرف یہ کہتا چلوں کہ جس مذہبی تمدن سے اول اول میں آشنا ہوا ، اسے آج کی ٹرمینالوجی میں ایک مکسڈ اکانومی کہنا چاہئیے ۔ نہ روزہ رکھنے والے کا پتا چلتا ، نہ روزہ چھوڑنے والے کا ۔ نماز کے معاملہ پر گھر میں اس پہ کبھی گفتگو نہ ہوئی کہ جمعہ کو راگ راگنیوں کے ماہر مفتی حبیب کی پاپڑاں والی خانقاہ کا رخ کیا جائے یا نالہ ایک کے پار سخت گیر حافظ شریف ٹھیک رہیں گے ۔ ہاں ، دونوں راستوں پر ماہ صیام میں نیلے نیلے پردے تان کر ’مسافروں ، بیماروں اور بے سہارا مسلمانوں‘ کی بشری ضروریات پوری کرنے کا انتظام ضرور کر دیا جاتا ۔ یوں آزاد اور منصوبہ بند معیشتیں یوں ایک ساتھ چلتی رہیں جیسے آجکل بلیک اور وائٹ اکانومی چلتی ہے ۔
اس تمدنی ماڈل پہ زد تیسرے مارشل لا کے عہد میں پڑی تھی جب اصلاحی ذہن رکھنے والے ہمارے اس وقت کے صدر نے سوچا کہ اگر مقصد معاشرہ کو ٹھیک کرنا ہے تو پھر کیوں نہ ہر اقدام انقلابی ہو ۔ چنانچہ ایک شام سرکاری نوٹیفکیشن کے ذریعہ شریعت نافذ کر دی گئی ۔ پھر جیسے ہی یہ سوال اٹھا کہ کہیں نظام مصطفی حقیقت میں نظام مرتضی تو نہیں ، تو قیادت اس حیرانی میں ڈوب گئی کہ ’پھول جب شاخ سے ٹوٹے تو کہاں تک پہنچے‘ ۔ ایران میں آیت اللہ خمینی کا انقلاب ابھی تازہ تھا ۔ اس لئے بندہ ولائت کے تعلیمی دورے سے وطن لوٹا تو علامہ شبیر انصاری فاتح ٹیکسلا کو ماننے والے بے تکلف دوست رضا شاہ ایڈووکیٹ نے پوٹھواری لہجہ میں بڑی ’ے‘ کے ساتھ ’خمین‘ کا لفظ استعمال کرکے اسلام آباد سکریٹیریٹ کے گھیراﺅ کی اولین داستان سنائی ۔ ’ترے دن تے ترے راتاں ڈٹے رہے نیں ۔ پھل تروڑ سٹے نیں ، گھا کپ سٹیا نیں ۔ بڑا بڑا خمین آیا اے جی ‘ ۔
پھر بھی چکر تو اس دن پڑا جب ایک صبح احترام رمضان آرڈیننس نافذ ہوتے ہی پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی اور مشرقی پنجاب کی بولی میں ’ہر پاسے اجاڑے پے گئے‘ ۔ وائی ایم سی اے ہاسٹل سے نکل کر مال سے الٹے ہاتھ نیلا گنبد تک جانا ابھی تک یاد ہے ۔ ادھ کھلے شٹر والے ملک شیک کے خفیہ ٹھکانے پر صرف ایک مہربان چہرہ دکھائی دیا تھا ’ آپ تو کوئی اچھا برانڈ پیتے ہوں گے ، میرے پاس تو ووڈ بائین سگریٹ ہے ‘ ۔ پھر انہوں نے ایک نواحی بیکری کا چھوٹا سا لفافہ میری طرف سرکایا اور کہا کہ چاہیں تو دائیں طرف دو دکانیں چھوڑ کر آپ بھی ایک لفافہ لے آئیں ۔ مجھے اس پیشکش میں اسلامی اخوت کی جھلک دکھائی دی اور ان دنوں انتظامی حکم کے تحت دفتروں میں نمازیں پڑھنے والے وہ افسر مسخرے لگے جنہیں دیکھ کر ابا نے کہا تھا ’ میں نوکری چھوڑ سکتا ہوں ، مگر جنرل ضیا کی نماز کبھی نہیں پڑھوں گا‘ ۔