صحت کے شعبے کی ترقی و اصلاحات
پنجاب آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور پنجاب کا ہیلتھ انفراسٹرکچر بھی سب سے بڑا ہے ۔ پنجاب ایک واحد صوبہ ہے جہاں عوام کو علاج معالجے کی جدید ترین سہولیات پبلک سیکٹر کے ہسپتالوں میں دستیاب ہیں ۔ وزیر اعلیٰ محمد شہباز شریف نے صحت کے شعبے کی ترقی کے لئے جو اصلاحات متعارف کرائی ہیں ان کی مثال صوبے کی تاریخ میں پہلے نہیں ملتی ان اصلاحات کے نتیجے میں ناصرف عوام کو بہترین طبی سہولیات میسر آرہی ہیں بلکہ ہسپتالوں کے انتظامی معاملات میں پائی جانے والی خرابیاں بھی دور ہوتی جارہی ہیں ۔وزیر اعلیٰ نے ہسپتالوں کی مانیٹرنگ کا ایک ایسا میکنیزم تشکیل دے دیا ہے جس میں منتخب عوامی نمائندوں کے ساتھ اعلیٰ سرکاری افسران کو بھی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اور وزیر اعلیٰ محمد شہباز شریف ذاتی طور پر بھی ہسپتا لوں کے اچانک دورے کرکے صورت حا ل کا جائزہ لیتے رہتے ہیں جس سے صورت حال میں نمایاں بہتری آرہی ہے ۔ صحت کے شعبے میں کئے گئے ترقیاتی اقدامات کے بارے تمام سٹیک ہو لڈرز کو آگاہ کرنے اور انہیں اعتماد میں لینے کے لئے محمد شہباز شریف نے گزشتہ روز ایوان وزیر اعلیٰ میں ڈاکٹرز کنونشن منعقد کیا اور صحت کے شعبہ کی ترقی ، ہیلتھ کئیر سسٹم کو مزید بہتر بنانے ، ہسپتالوں میں ڈسپلن قائم کرنے ، ادویات کی فراہمی ،صفائی ، ڈاکٹرز سمیت تمام سٹاف کی حاضری یقینی بنانے اور انتظامی معاملات کے بارے شرکاء سے چار گھنٹے مشاورت کی ۔کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے کہا کہ صوبے کے ہیلتھ کیئر سسٹم کو بہتر سے بہتر بنانا میرا مشن ہے اور اس مشن کی تکمیل کے لئے میں آخری حد تک جاؤں گا ۔ ہیلتھ کیئر سسٹم کا محور مریض کی بہترین دیکھ بھال ہے اور رمضان المبارک کے ان آخری ایام میں ہیلتھ کیئر سسٹم کو مثالی بنانے کے لئے ہر طرح کے وسائل دینے کو تیار ہوں۔دکھی انسانیت کی خدمت ایک عبادت ہے اور ہم نے ملکر پاکستان خصوصا پنجاب کو ان معاشروں میں شامل کرنا ہے جہاں مریضوں کی دیکھ بھال ہی مقدم ہوتی ہے ۔ اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے نئے جذبے اور عزم کے ساتھ کام کرنا ہو گا کیونکہ ڈاکٹرز انتہائی مقدس پیشہ سے وابستہ ہیں ۔ہیلتھ کیئر سسٹم کی بہتری کے لئے گورننس کے چیلنجز سے نمٹنے کے ساتھ ڈاکٹروں کو بھی اپنا مثالی کردار ادا کرنا ہے ۔ وزیر اعلی نے ڈاکٹر ز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹروں اور ڈینٹسٹ کو پیشنٹ کیئر الاؤنس دینے کا اعلان کیا۔وزیر اعلی نے کہا کہ گریڈ 17 اور 18 کے ڈاکٹروں کو دس ہزار روپے جبکہ گریڈ 19 اور 20 کے ڈاکٹروں کو 5 ہزار الاؤنس ملے گا اور اس الاؤنس کی مد میں پنجاب حکومت تین ارب روپے سے زائد سالانہ اضافی اخراجات برداشت کرے گی تا ہم مریضوں کو ہسپتالوں میں بہترین طبی سہولتوں کی فراہمی کے لئے اس طرح کے مزید وسائل دینے کے لئے بھی تیار ہوں تا ہم ڈاکٹروں کو بھی اب مریضوں کے بہترین علاج معالجے کویقینی بنانا ہو ں گا ۔ وزیر اعلی نے اس موقع پر پنجاب ہیلتھ کیئر کونسل کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ کونسل کا چیئرمین میں خود ہوں گااور اس کونسل میں ڈاکٹرز ، پروفیسرز اور ماہرین شامل ہوں گے ۔ کونسل کا باقاعدگی سے اجلاس ہو گا اور مشاورت سے فیصلے کئے جائیں گے ۔وزیر اعلی نے کہا کہ بہترین کارکردگی پر ایم ایس ، ڈاکٹر، نرس اور پیرا میڈکس سٹاف کو ماہانہ ایواارڈز دیئے جائیں گے اور ایم ایس ، ڈاکٹر، نرس اور پیرا میڈیکل سٹاف آف دی منتھ کا ایوارڈ کا فیصلہ میرٹ پر کیا جائے گا۔صوبے ، ڈویژن اورضلع کی سطح پر ایم ایس ، ڈاکٹر، نرس اور پیرا میڈکس سٹاف کو تعریفی خطوط کے ساتھ نقد انعام بھی دیں گے ۔ اسی طرح صوبے کے بہترین ایم ایس ، ڈاکٹر اور نرس کو ہر سال پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈز بھی ملیں گے اور ہر سال 14 اگست اور 23 مارچ کو پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ صدر پاکستان دیں گے ۔انہوں نے کہا کہ میری کوشش ہو گی پرائیڈ آف پرفارمنس کا ایوارڈ اسی برس دیا جائے تا ہم اس حوالے سے نامزدگیاں جا چکی ہیں اگر اس برس پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ ز نہ دیئے جا سکے تو اس کا اجراء اگلے برس سے ہو گا۔انہوں نے کہا کہ ہیلتھ کیئر سسٹم کو بہتر بنانے کے لئے سزا اور جزا کا نظام انتہائی ضروری ہے لہذا جہاں اچھی کارکردگی پر انعام ملے گا وہاں پر خراب کارکردگی پر احتساب ہو گا اور سزا بھی ملے گی۔انہوں نے کہا کہ تمام ایوارڈز صرف اور صرف میرٹ پر دیئے جائیں گے اور اس مقصد کے لئے اگر 50 کروڑ روپے بھی مختص کرنا پڑے تو میں کرگزروں گا۔ شہباز شریف نے کہا کہ دکھی انسانیت کو بہترین ہیلتھ کیئر سسٹم دینا میرا مشن ہے اور میں آپ کے تعاون سے صوبے کا ہیلتھ کیئر سسٹم کو مثالی بناؤں گا۔انہوں نے کہا کہ صوبے کے تمام ہسپتالوں میں حاضری یقینی بنانے کے لئے بائیو میٹرک سسٹم لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس ضمن میں ڈاکٹروں کی جانب سے ڈاکٹروں کے تعاون کی یقین دہانی قابل تعریف ہے ۔ مریض کی خدمت ڈاکٹروں اورنرسوں کا فرض بھی اور ذمہ داری بھی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس ذمہ داری کو نبھا کر آپ اپنے پیشے کے ساتھ انصاف کر سکتے ہیں ۔ بائیو میٹرک سسٹم کی تنصیب کے ضمن میں کوئی مزاحمت برداشت نہیں کروں گا ۔ شہباز شریف نے کہا کہ مریضوں کو بہترین طبی سہولتوں کی فراہمی کے لئے جمود کو توڑنا ہو گا ۔مریضوں کو ہسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولت نہ ملنا ایک مجرمانہ غفلت ہے جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا ۔انہوں نے کہا کہ ہسپتالوں کے معاملات کو درست کرنے کیلئے آپ کی مشاورت سے مشکل سے مشکل فیصلے کروں گا۔ڈاکٹرز ، نرسز اور پیرا میڈیکل سٹاف دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے کمرکس لیں تو میں ان پر وسائل نچھاور کردوں گا۔ وزیر اعلی نے ڈاکٹروں اور دیگر عملے کو دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے نئے عمرانی معاہدے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ اس ضمن میں،میں آپ کے ساتھ ہر طرح کے تعاون کے لئے تیار ہوں لیکن مجھے آپ گارنٹی دیں کہ آپ دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے اپنے حلف کی پاسداری کریں گے اور کوئی سیاست نہیں ہو گی۔انہوں نے ڈاکٹر ز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ملکر ہیلتھ کیئر سسٹم کو ٹھیک کرنا ہے اور اس کے لئے میں آپ کو بلینک چیک بھی دینے کو تیار ہوں لیکن آپ کو صوبے میں صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لئے ہرممکن اقدامات کرنا ہوں گے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہسپتالوں میں ایم ایس صاحبان کا کردار اہم ہے ۔ ایم ایس ذاتی دلچسپی سے ہسپتال کو بہتر بنا سکتا ہے ۔ ہسپتالوں میں ادویات کی بروقت فراہمی کا نظام بہتر بنانا ہے ۔ ہم نے ہسپتالوں کے ایم ایس کو انتظامی و مالی خود مختاری دینے کا فیصلہ کیا ہے اور آئندہ ایم ایس کو فنڈز فراہم کئے جائیں گے اور اسے عملے کے خلاف کارروائی کا اختیار بھی دیا ہے ۔ اس نئے نظام سے ہسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولتوں میں بہتری آئے گی اور کسی کو بیوروکریسی کی طرف نہیں دیکھنا پڑے گا۔اگر ہم آج ہیلتھ کیئر سسٹم کو ٹھیک کرنے کا عزم صمیم کر لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ دکھی انسانیت کی صحیح معنوں میں خدمت کی نہ جا سکے اگر ہم نے معاملات کو آج درست نہ کیا تو خلق خدا اپنا حق لینے خود باہر نکل آئے گی اور یہ حق چھین لے گی۔ہیلتھ کیئر سسٹم کو بہتربنائے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا اور توانا معاشرہ ہی آگے بڑھتا ہے ۔وزیر اعلی نے کہا کہ جہاں ڈکٹروں کے لئے رہائشی کالونیاں موجود نہیں وہاں رہائش کا بندوبست کیا جائے گا یا ڈاکٹروں کو رہائشی الاؤنس دیں گے ۔انہوں نے کہا کہ میری اپیل ہے کہ شعبہ طب پیشہ پیغمبری ہے لہذا مسیحاؤں کے لیڈر پیدا کئے جائیں نہ کہ لیبر لیڈر۔ کیونکہ دکھی انسانیت اپنے علاج کے لئے آپ کی طرف دیکھ رہی ہے ۔آپ کی مشاورت کے ساتھ صوبے کے ہیلتھ کیئر سسٹم کو بہترین بنائیں گے ۔ وزیر اعلی نے کہا کہ مریضوں کو علاج معالجے کا حق دینے کے لئے آخری حد تک جاؤں گا ۔ کنونشن کے دوران ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرامیڈیکل سٹاف نے ہیلتھ کیئر سسٹم کو بہتربنانے کے حوالے سے تجاویز بھی دیں۔ کنونشن میں وزیر اعلی نے صوبے کے ہیلتھ کیئر سسٹم کو بہتربنانے کے حوالے سے شعبہ طب کی اہمیت اور ڈاکٹروں کے کردار اورذمہ داری پر انتہائی مدلل انداز میں روشنی ڈالی ۔ کنونشن میں موجود سینئر ڈاکٹرز اور پروفیسرز نے وزیر اعلی کے خطاب کو ایک مدبر کا خطاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلی نے جس انداز سے اس شعبے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے وہ لائق تحسین ہے اور ہم مستقبل میں وزیر اعلی شہباز شریف کی ٹیم کے طور پر کام کریں گے اور ا ن کے ویژن پر پورا اترنے کی کوشش کریں گے ۔ کنونشن کے دوران افطار اور نماز مغرب کا وقفہ کیا گیا جس کے بعد کارروائی کا دوبارہ آغاز ہوا۔ڈاکٹروں ، نرسوں اور پیرا میڈیکل سٹاف نے ہیلتھ کیئر سسٹم کو بہتر بنانے کے لئے تجاویز دیں ۔ وزیر اعلی نے تمام تجاویز کو نوٹ کیا اور اپنے اختتامی خطاب میں ہیلتھ کیئر سسٹم کی بہتری کے لئے کئی اہم اعلانات کئے۔ کنونشن میں موجود ڈاکٹروں نے وزیر اعلی کے اعلانات کو ہیلتھ کیئر سسٹم کو بہتربنانے کے حوالے سے انتہائی مثبت قرار دیا۔
محکمہ صحت میں وسیع افرادی قوت اور طویل انفراسٹرکچر کی وجہ سے حکومت نے محکمہ صحت کو 2015ء کی آخری سہہ ماہی میں دو محکموں میں تقسیم کر دیا ۔ ایک کا نام سپیشلائزڈ ہیلتھ کئیر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن جبکہ دوسرا پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کئیر ڈیپارٹمنٹ کہلاتا ہے ۔ محکمہ صحت نے گزشتہ دو سال کے دوران جنرل کیڈر کے ڈاکٹروں کے چار درجاتی سروس سٹرکچر کو ریوائز کیا اور جنرل کیڈر زڈاکٹر کی پو سٹوں میں نمایاں اضافہ کیا گیا ۔ جنرل کیڈر مرد ڈاکٹرز کی آسامیاں گریڈ 17میں 4526سے بڑھا کر 7388کر دی گئیں ، گریڈ 18میں 3077سے بڑھا کر 8020، گریڈ 19میں 1357سے بڑھا کر 3867کی گئیں جبکہ گریڈ 20میں 91سے بڑھا کر 587پو سٹیں کی گئیں ۔ اسی طرح جنرل کیڈر خواتین ڈاکٹرز کی گریڈ 17میں 1827سیٹوں سے بڑھا کر 2399کر دی گئی گریڈ 18میں 1242میں اضافہ کر کے 2703پو سٹیں کی گئیں اسی طرح گریڈ 19میں خواتین جنرل کیڈر ڈاکٹر ز کی پوسٹیں 548سے بڑھا کر 1204اور گریڈ 20میں 37سے بڑھا کر173کر دی گئیں جو صوبے کی تاریخ میں سب سے بڑا اضافہ ہے ۔ اسی طرح گزشتہ دوسال کے دوران جنرل کیڈر گریڈ 17کے 1877مرد وخواتین ڈاکٹرز کو گریڈ 18میں ترقی دی گئی ۔علاوہ ازیں جنرل کیڈر گریڈ 18کے 111ڈاکٹرز کو گریڈ 19میں ترقی دی گئی اور قابلیت کے حامل گریڈ 17کے 708ڈاکٹروں کو بطور کنسلٹنٹ گریڈ 18میں تعنیات کیا گیا علاوہ ازیں 300 APMOs /APWMOs کو گریڈ 20میں ترقی دی گئی ۔
ڈسٹرکٹ و تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں سپیشلسٹ ڈاکٹر کی کمی کو پورا کرنے کے لئے وزیر اعلیٰ پنجاب نے خصوصی پے پیکج متعارف کروایا جس کے تحت DHQہسپتال میں کام کرنے والے سپیشلسٹ کو فاصلے کے اعتبار سے 20ہزارروپے سے لیکر 1لاکھ روپے تک اور تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں کام کرنے والے سپیشلسٹ کو 65ہزار روپے سے لیکر 150000روپے تک ماہانہ اضافی تنخواہ دی جارہی ہے جس کا سالانہ خرچ 1415.280ملین روپے ہے ۔ اسی طرح ڈاکٹرز کے ہیلتھ پروفیشنل الاؤنس میں بھی نمایاں اضافہ کیا گیا ۔ ڈاکٹروں کے نان پریکٹسنگ الاؤنس کی مد میں حکومت تقریباً 600ملین سالانہ خرچ کر رہی ہے ۔ اسی طرح DHQ،THQ،RHCاور BHUمیں فرائض سر انجام دینے والے گریڈ 17کے ڈاکٹرز کوتقریباً 19000اورگریڈ 19کے ڈاکٹر کو 13000روپے تک اضافی الاؤنس دیا جارہا ہے۔ہاؤس آفیسرز کا ماہانہ وظیفہ 24000 سے بڑھا کر 31020 روپے اور پی جی ٹرینی کو 42500 سے بڑھا کر 55900 روپے ماہانہ کیا گیا ہے۔
وزیر اعلی پنجاب نے دونوں محکموں کے ترقیاتی بجٹ میں 2016-17 کیلئے 43فیصد سے زیادہ اضافہ کیا ہے گزشتہ سال دونوں محکمے اکٹھے تھے تو محکمہ کا ترقیاتی بجٹ تقریبا30ارب روپے تھا جو اب بڑھ کر مجموعی طور پر 43ارب87کروڑ روپے ہو گیا ہے اس میں سیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن کیلئے24ارب50کروڑ روپے جبکہ پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ کیئر 18ارب روپے رکھے ہیں ۔نئے مالی سال میں حکومت صحت کے شعبہ میں مجموعی طور پر 207ارب روپے خرچ کرے گی جبکہ 2015-16کے بجٹ میں صحت کا کل بجٹ (صوبائی اور ضلعی) 166.13ارب روپے تھا ۔
میو ہسپتال کے سرجیکل ٹاور کو 2016-17میں مکمل کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جس کیلئے 785.820ملین روپے رکھے گئے ہیں یہ منصوبہ انشاء اللہ نئے مالی سال میں مکمل کر لیا جائے گا جس سے میو ہسپتال میں آنے والے مریضوں کو سہولیات میں نمایاں اضافہ ہو گا ۔شیخ زید میڈیکل کالج رحیم یار خان کے منصوبے کی تکمیل کیلئے بھی 256ملین روپے مختص کئے گئے ہیں ۔مری میں 100بستروں پر مشتمل ماں بچہ کے ہسپتال کیلئے 250ملین روپے مختص کئے گئے ہیں ۔حکومت نے سرکاری ہسپتالوں میں غریب مریضوں کو ادویات کی مفت فراہمی کیلئے 13.604ارب کی خطیر رقم مختص کی ہے اور گردے کے مریضوں کو ڈائلاسسز کی سہولیات کی فراہمی کیلئے 60کروڑ روپے اور نئے موبائل یونٹ خریدنے کیلئے ایک ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ۔مزید براں ہسپتالوں کے بستروں ،چادری اور ایکسرے ۔۔۔کی خریداری کیلئے بھی 2ارب سے زائد رقم مختص کی گئی ہے ۔مشینری اور طبی آلات کی مرمت وغیر ہ کیلئے540.941ملین زائد رقم مہیا کی جائے گی ۔ہسپتالوں کی عمارتوں کی ریپئرنگ کیلئے231ملین روپے فراہم کئے جائیں گئے ۔بیماریوں کی روک تھام کیلئے صاف پانی کا عمل دخل ہے ۔اگر عوام کو پینے کا صاف پانی مہیا ہو جائے تو درجنوں بیماریوں کا خاتمہ ممکن ہے خصوصی چھوٹے بچوں کو بہت سے موذی امراض سے بچایا جا سکتا ہے ۔حکومت نے اس ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے عوام کو صاف پانی کی فراہمی کیلئے 30ارب روپے کی سکمیں شروع کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے ۔سپشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ سکینڈری ہیلتھ کیئر کے ملازمین کو تنخواہیں اور الاؤنس کی مد میں 40ارب روپے خرچ ہوں گے ۔محکمہ صحت کے دونوں ونگز کے زیر انتظام آنے واے میڈیکل کالجز ،بڑے اور چھوٹے ہسپتالوں اور طبی مراکز اور بیماریوں سے روک تھام کے شعبہ جات میں بڑی پیمانے پر اصلاحات کا عمل پہلے سے ہی شروع ہو چکا ہے حکومت نے صحت کے شعبہ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بھر پور استعمال کی منصوبہ بندی کر لی ہے اور سرکاری ہسپتالوں میں مرحلہ وار بائیو میٹرک حاضری کے ساتھ ساتھ ادویات اور دیگر اشیاء کی انونٹری ،سٹاک کی جانچ پڑتال اور ہر قسم کے سٹاک کا ڈیٹا بیس انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کرنا شروع کر دیا ہے جس سے تمام معاملات شفاف اور میرٹ کے مطابق چلانے میں مدد ملے گی اور ادویات میں خوردبرد کی شکایات کا بھی ازالہ ہو گا ۔
حکومت نے محکمہ سپیشلائزڈہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں جو اصلاحات شروع کی ہیں اس میں ایک نمایاں کام پوسٹ گریجوایٹ ٹرینی ڈاکٹرز کی آن لائن انڈ کشن کے لئے پوری دنیا میں مروجہ پی جی انڈکشن پالیسی کی طرز پر ’’ پنجاب ریزیڈنسی پروگرام‘‘ متعارف کروایا جارہا ہے۔نئی پالیسی انتہائی شفاف اور میرٹ پر مبنی ہے جس میں پنجاب سیکرٹریٹ کا کسی بھی طرح کا عمل دخل نہیں ہو گا ۔ درخواست جمع کروانے سے لے کر تعیناتی کے آرڈر جاری ہونے تک کسی بھی مرحلہ پر کسی بھی ڈاکٹر کو سیکرٹریٹ تو دور کسی یونیورسٹی میں بھی جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ تمام تر نظام خود کار اور آئی ٹی پرمشتمل ہوگا اور فائنل میرٹ بنانے سے پہلے جمع کرائے گئے تمام کاغذات کی پیشگی تصدیق کروائی جائے گی اور تمام لسٹیں اور میرٹ تک ہر درخواست گزار کی رسائی ہوگی اور کسی بھی وقت کسی خلاف ورزی یا گڑ بڑ کے خلاف اپیل کی جاسکے گی ۔ تما م میڈیکل کالجز کے سربراہان پورے عمل کی براہ راست مانیٹرنگ کریں گے اور تعیناتی کے آرڈر بھی متعلقہ ہسپتال /ادارے کا سربراہ ہی جاری کرے گا اور وظیفہ کی ادائیگی کے آرڈر بھی ٹیچنگ ہسپتال کا سربراہ ہی جاری کرے گا ۔ اس بات سے سبھی آگاہ ہیں کہ PGانڈکشن میں میرٹ کی خلاف ورزیوں کی مسلسل شکایات آتی رہی ہیں اور اقربا پروری پسند وناپسند کی بنا پر PGRکا انتخاب ہوتا تھا کرپشن کے الزامات بھی لگتے تھے یہاں تک کہ ڈاکٹروں کی بہت مقبول تنطیم پر بھی بعض حلقے اس حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے تھے ۔ پرانی پالیسی کے تحت میرٹ پر تعیناتی ممکن نہیں رہی تھی ۔نئی انڈکشن پالیسی میں نہ تو فیلو شپ پروگرام کی سیٹیں کم کی جائیں گی اور نہ ہی یونیورسٹی اور PGMIسے منسلک ہسپتالوں میں فیلو شپ پروگرام کی انڈکشن بند کی جائے گی اور نہ ہی کسی بھی طرح کا کوئی تناسب مختص کیا جائے گا۔ اداروں میں موجود سہولتوں اور منظور شدہ پروگراموں میں داخلہ جاری رہے گا ۔ سیکرٹریٹ کا کسی بھی طرح کا کوئی کردار نہیں ہوگا بلکہ متعلقہ پرنسپل /سربراہ ادارہ پوری طرح با اختیا ر ہوگا اور تمام آرڈر اسی ہسپتال سے جاری ہونگے ۔ PRPکے تحت ٹریننگ کے بہتر اور یکساں مواقع مہیا کئے جائیں گے ،ٹریننگ کے معیار اور دستیاب سہولتوں اور اساتذہ کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے PGشپ کی سیٹوں میں بتدریج اضافہ کیا جائے گا اور اسی سال 1290نئی سیٹیں تخلیق کی گئی ہیں جبکہ مزید سیٹوں کااضافہ زیر غور ہے ۔ اس سیشن میں 800سے زائد PGٹرینی کو رکھا جائے گا ۔Sub-speciality میں سیٹوں کا اضافہ کیا گیا ہے اور پہلی مرتبہ ہسپتالوں کی ضرورت اور سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی مخصوص شعبوں میں کمی کو مد نظر رکھتے ہوئے تاریخ میں پہلی دفعہ PGشپ کی سیٹوں کی یکساں تقیسم کی گئی ہے اور دو سالہ ٹریننگ کے حامل ڈاکٹرزکو ترجیحی بنیادوں پر داخلہ ملے گا ۔ مقامی کالج کے فارغ التحصیل ڈاکٹرز کو دس فیصد اضافی نمبر ملیں گے جبکہ سرکاری کالج کے گریجوایٹس کو چھ فیصد اضافی نمبرز ملیں گے۔ محکمہ صحتedition Acrاداروں جیسے CPSP، PMDCاور یونیورسٹیوں پر پورا اعتماد رکھتا ہے اورنا صرف منظور شدہ پروگراموں میں داخلے ہونگے بلکہ چھوٹے شہروں کے ہسپتالوں کو بھی مساوی PGٹرینی داخل کرنے کا موقع ملے گا ۔ ایک فارم آن لائن بھرنے کے بعد تمام ہسپتالوں کے میرٹ کے مطابق داخلہ ملے گا کسی بھی امیدوار کو جگہ جگہ دھکے نہیں کھانا پڑیں گے ۔ محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر نے ڈاکٹرز تنظیموں سے باضابطہ طور پر رابطہ کیا گیا اور تحریری طور پر ان کا موقف بھی مانگا گیا لیکن کسی بھی تنظیم نے تحریری طور پر اپنے تحفظات سے آگاہ نہیں کیا تاہم ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے نمائندہ وفود نے سیکرٹری سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر نجم احمد شاہ اور مشیر صحت خواجہ سلمان رفیق سے متعدد بار طویل نشستیں کیں جس میں وائی ڈے کے نمائندوں کو
نئی انڈکشن پالیسی کے ایک ایک پوائنٹ کے بارے تفصیلی طور پر آگاہ کیا گیا اور ان کے تحفظات دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی جبکہ ہسپتالوں کے سربراہان نے مشرکہ طور پر PRPکو منظور کیا ۔ انڈکشن پالیسی کا میرٹ فارمولہ آن لائن درخواست میں موجود ہو گا اور خود کار طریقے سے میرٹ کا تعین ہو جائے گا ۔ ایک سال BHU/RHCمیں سروس کے دس فیصد نمبر جبکہ دوسال کے پندرہ فیصد نمبر ہو نگے ۔ہر ہسپتال اور ادارے کامیرٹ فارم میں دی گئی لیڈ کے مطابق الگ سے ترتیب دیا جائے گا ۔نئی پالیسی کے بارے میں CPSPسے کئی میٹنگز کی گئی ہیں اور ان کو اعتماد میں لیا گیا اور ان کی سفارشات کو مد نظر رکھ کر PRPپروگرام ترتیب دیا جارہا ہے اورCPSPکے عہدیداران نے مکمل حمایت کی ہے ۔
وزیر اعلی محمد شہباز شریف کی جانب سے صوبے میں صحت کے شعبے کی ترقی اور ہیلتھ کیئر سسٹم میں پائی جانے والی خرابیوں کو دور کر کے ایک ایسا نظام وضع کرنے کی نہایت سنجیدہ کوششیں اور اقدامات کئے جارہے ہیں تاکہ صوبے کے 12کروڑ عوام کو علاج کی بہترین سہولیات دستیاب ہوں اور اس حوالے سے عوامی شکایات کاازالہ بھی کیا جاسکے اس ضمن میں ڈاکٹرز کنونشن منعقد کرنا وقت کی اہم ضرورت تھا ۔ کیو نکہ صحت کے شعبہ کے اصل سٹیک ہولڈرز ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکس ہیں انہی لوگوں نے ہسپتالوں کے سسٹم کو چلانا ہے لہذا سسٹم کو بہتر بنانے کے لئے ان سے مشاورت ضروری تھی ۔ جس طرح کنونشن کے شرکاء نے وزیر اعلیٰ محمد شہباز شریف اور حکومتی اقدامات کی حمایت کی ہے اور صورت حال کی بہتری کے لئے مکمل تعاون اور کمٹمنٹ کا اظہار کیا ہے اس سے امید کی جاسکتی ہے کہ اس کنونشن کے نتائج دور رس ہو نگے اور وزیر اعلیٰ جس Passion کے ساتھ صوبے کے ہیلتھ کئیر سسٹم کو ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ لانے کے لئے جو جدوجہد کر رہے ہیں اس مشن میں وہ ضرور کامیاب ہوں گے ۔