سینیٹر میکارتھی اور اُن کی کمیٹی

سینیٹر میکارتھی اور اُن کی کمیٹی
 سینیٹر میکارتھی اور اُن کی کمیٹی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ 1950ء کے عشرے کی بات ہے، امریکہ میں اس وقت صدر آئزن ہاور برسر اقتدار تھے۔ اس زمانے میں اچانک ایک افواہ پھیلی یا پھیلائی گئی کہ مختلف محکموں اور شعبوں میں مارکسسٹ گھس آئے ہیں، اگر ان کا سدِباب نہ کیا گیا تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اثرورسوخ میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور جلد یا بدیر ملک میں مارکسسٹ انقلاب آجائے گا اور سرمایہ داری نظام کا بوریا بستر گول ہو جائے گا۔۔۔اب اس خطرے سے کیونکر نپٹا جائے اور کیسے یہ پتہ چلے کہ کس شعبے میں کون مارکسسٹ ہے یا اس نظام سے ہمدردی رکھتا ہے؟ تاکہ اس کے خلاف کارروائی کی جاسکے۔۔۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر صدر آئزن ہاور نے سینیٹر جوزف میکارتھی کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی، جس کا کام لوگوں کے خیالات جان کر یہ طے کرنا تھا کہ ان میں کون مارکسسٹ ہے اور کون نہیں اور جو مارکسسٹ ثابت ہوجائے، اس کے خلاف ضروری کارروائی کرنا اور سزا دینا تھا ، جس میں لمبے عرصے کی قید بھی شامل تھی۔ چونکہ اس کمیٹی نے اس حوالے سے تحقیقات کرنا تھیں، اس لئے پولیس اور ایف بی آئی سمیت تمام سرکاری محکموں کو حکم دے دیا گیا کہ وہ اس کمیٹی سے تعاون کریں۔ تعاون کا مطلب تھا جو حکم وہ دیں، اسے بے چون و چرا بجا لائیں۔ جس شخص کو یہ کمیٹی جس وقت بلائے وہ فوراً حاضر ہو جائے۔ جو حاضر ہونے سے انکار کرے اسے گرفتار کرکے لایا جائے۔ جس محکمے کو جس شخص کے بارے میں معلومات حاصل کرنے ، بلکہ اس کی جاسوسی کے لئے کہا جائے، وہ بلاحیل و حجت اس فرض کو سرانجام دے۔ جوتعاون نہ کرے، اسے حکم عدولی کی اور جو معلومات فراہم کرنے سے انکار کرے، اس کے خلاف تحقیقات اور انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے جرم میں کارروائی کی جائے۔


یوں ان اختیارات سے لیس ہو کر میکارتھی کمیٹی نے کام کا آغاز کردیا اور جس کے خلاف الزام ثابت ہو جاتا، اسے سزادی جانے لگی۔ سب سے پہلے مزدوروں کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والوں کو طلب کیا گیا، پھر انسانی حقوق کے علمبرداروں کو، مصنفوں اور صحافیوں کو ، پھر فلم ڈائریکٹروں کو، پھر اداکاروں کو، اس کے بعد اراکین پارلیمان کو، پھر وزیروں کو۔ مختصراً کمیٹی کو جس شخص کے بارے میں ذراسا بھی شبہ ہوجاتا، اسے بلوالیا جاتا۔مردوں کے ساتھ ساتھ ان کی بیویوں اور بچوں کے بھی انٹرویو کئے جانے لگے۔ پھر ان کے بیانات کا ایک دوسرے سے موازنہ کیا جاتا، تاکہ پتہ چل سکے کہ کس نے کہاں جھوٹ بولا ہے؟ اگر میاں بیوی یا بچوں کے بیانات آپس میں نہ ملتے تو سمجھ لیا جاتا کہ معاملہ مشکوک ہے۔ لوگوں کے فون ٹیپ کئے جانے لگے تاکہ پتہ چل سکے کہ وہ دوسروں سے کیا گفتگو کرتے ہیں؟۔۔۔ صدر آئزن ہاور نے جب اس کمیٹی کی تشکیل کی منظوری دی تھی تو اسے ایک بے ضرر سی چیز خیال کیا گیا تھا، لیکن جس قانون کے تحت یہ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، سینیٹر میکارتھی اس کا سہارا لے کر اپنے اختیارات میں روزبروز اضافہ کرتے چلے گئے ، یوں کمیٹی طاقت ور سے طاقتور ہوتی چلی گئی۔جس شخص کو کمیٹی کی طرف سے طلبی کا نوٹس ملتا، اس کی راتوں کی نیند اُڑجاتی۔


تحقیقات کے دوران اگر بھولے سے اس کے منہ سے ایسا لفظ نکل جاتا، جس کے نتیجے میں کمیٹی کو یہ شبہ ہو جاتاکہ وہ یا تو مارکسسٹ ہے، یا اس نظام سے ہمدردی رکھتا ہے تو پانچ، دس برس کی قید کی سزا کہیں نہیں گئی تھی، چنانچہ بڑے بڑے اس کمیٹی کے سامنے حاضر ہونے کے خیال ہی سے کانپنے لگتے۔ کمیٹی اس قدر طاقتور بن گئی تھی کہ صدر آئزن ہاور، جنہوں نے اس کی تشکیل کا حکم نامہ جاری کیا تھا، اس کمیٹی کے مقابلے میں ان کی حیثیت اور اختیار بھی صفر ہو کر رہ گیا، حتیٰ کہ خود صدر کے دل میں یہ اندیشہ پیدا ہوگیا کہ کسی وقت خود انہیں بھی مارکسسٹ ہونے کے شبے میں طلب کیا جاسکتا ہے اور ان کے خلاف بھی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ دنیا کا طاقت ور ترین سربراہ حکومت اپنی ہی بنائی کمیٹی کے سامنے بے حیثیت ہو کر رہ گیا۔ اگر انہوں نے مسز شیلے کا ناول ’’فرینکسٹاین‘‘ پڑھ رکھا تھا تو اس وقت وہ انہیں ضرور یاد آیا ہوگا۔یہ کمیٹی کئی برس اسی طورپر کام کرتی رہی اور امریکہ میں خوف اور دہشت کی فضا کا راج رہا ۔

کمیٹی کے سربراہ کے نام پر اس سارے عمل کو’’ میکارتھی ازم‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ بہت برس یہ دور اور خوف اور دہشت کی فضا قائم رہی، جس کے بعد بالآخر سینیٹر میکارتھی اور ان کی کمیٹی کے اختیارات کا خاتمہ ہوگیا۔۔۔ سینیٹر میکارتھی اور ان کی کمیٹی کے بارے میں مجھے یہ تحریر لکھنے کا خیال کیوں آیا؟ بس یونہی۔۔۔’’ گاہے گاہے باز خواں این قصہ پارینہ را ‘‘کے طور پر، پاناما لیکس کی جے آئی ٹی کا خیال تو میرے ذہن میں دور دور تک نہیں تھا۔

مزید :

کالم -