نواز شریف، پولینڈ کی قرارداد اور مہاجر کوٹہ (5)
سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ 1957-58ء میں کراچی یونیورسٹی نے سندھی میں امتحان دینے پر پابندی لگا دی۔ اس پر سندھیوں نے زور دار احتجاج کیا اور سندھی ہاری کمیٹی کے حیدر بخش جتوئی نے کہا کہ یہ سندھی طلبہ کے لئے ایک پیغام ہے کہ اگر وہ سندھی زبان سے تعلق رکھنا چاہتے ہیں تو سندھ جائیں، کراچی میں ان کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ 1954ء میں سندھ کو ون یونٹ میں شامل کر دیا گیا جس کا فائدہ بھی اُردو بولنے والوں کو ہوا۔ 1957ء میں سندھ میں تحریک اُٹھی کہ اگر سندھی کو کم از کم سندھ کی سرکاری زبان نہ بنایا گیا تو سندھی ملازمتوں کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے۔ اس تحریک کی قیادت سندھی ادبی سنگت کے ہاتھ میں تھی۔ 1958ء میں مارشل لاء لگ گیا جس نے مزید تباہی مچا دی۔ 1959ء میں ایجوکیشن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بنگالی اور اُردو کو قومی زبانیں قرار دیتے ہوئے مغربی پاکستان میں چھٹی جماعت سے اُردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کی سفارش کی۔ مغربی پاکستان کے دیگر تمام صوبوں میں تو اُردو پہلی جماعت سے ہی ذریعہ تعلیم تھی، البتہ سندھ میں چھٹی جماعت کے بعد بھی ذریعہ تعلیم سندھی ہی تھا۔ جہاں کمیشن کی سفارش کے مطابق 1963ء سے چھٹی جماعت کے بعد اُردو کو ذریعہ تعلیم رائج کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا گیا۔ کمیشن کے ارکان مرکزیت کے قائل تھے اور ان کا خیال تھا کہ اس سے سندھیوں میں قومیت پرستی کے رجحان کو روکا جا سکے گا، جبکہ اس کا الٹا اثر ہوا۔ سندھ میں اس معاملے پر بڑے احتجاج ہوئے جس پر ایوب خان نے سندھی کو اس کے حال پر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ بہر حال یہ تمام عوامل اُردو کی حوصلہ افزائی اور سندھی کی حوصلہ شکنی کا باعث بنے۔
سندھیوں کے احتجاج کے نتیجے میں سندھی بطور ذریعہ تعلیم تو جاری رہنے دی گئی، لیکن چوتھی سے بارہویں جماعت تک اُردو کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھائے جانے کے احکامات جاری کر دیئے گئے جس پر سندھیوں نے اسے امتیازی سلوک قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اُردو میڈیم سکولوں میں بھی اسی طرح سندھی کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے۔سندھ کے شہروں میں چونکہ اکثریت اُردو بولنے والوں کی ہو گئی تھی، اس لئے یہاں سندھی میڈیم سکول رفتہ رفتہ بند ہونا شروع ہو گئے ، جبکہ کراچی میں تو ایک بھی باقی نہیں رہا جس کی وجہ سے سندھی بھی اپنے بچوں کو اُردو میڈیم سکولوں میں بھیجنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ایوب خاں کی حکومت اور ون یونٹ کے خاتمے پر سندھیوں نے سکھ کا سانس لیا۔ ان کو امید ہوئی کہ اب سندھی زبان کو دوبارہ وہی اہمیت حاصل ہو جائے گی جو ون یونٹ سے پہلے تھی، لیکن یحییٰ خاں کے دور میں وزیر تعلیم ایئر مارشل نور خان نے قومی زبانوں اُردو اور بنگالی پر زور دیتے ہوئے علاقائی زبانوں کے بارے میں، جن میں سندھی بھی شامل تھی، ایوب خاں سے بھی سخت تر پالیسی اختیار کی۔ 1972ء میں یحییٰ خاں کی عملداری ختم ہونے اور پیپلزپارٹی کی حکومت آنے پر سندھیوں کے دبے ہوئے جذبات کو راستہ مل گیا اور انہوں نے سندھی زبان کو تقویت دینے کے لئے اپنے طور پر کارروائیاں شروع کر دیں، جس میں سب سے پہلا قدم بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن حیدر آباد کا فیصلہ تھا، جس کے مطابق اُردو بولنے والوں کے لئے سندھی زبان میں امتحان اسی سال سے لازمی قرار دے دیا گیا تھا۔ اس پر اُردو بولنے والوں نے احتجاج کیا اور ہنگامے شروع ہو گئے جو حیدر آباد کے علاوہ میر پور خاص ، نواب شاہ اور کراچی تک پھیل گئے۔
اس سلسلے میں دوسرا قدم سندھ اسمبلی میں منظور کیا گیا قانون تھا جس کے تحت چوتھی سے بارہویں کلاس تک اُردو اور سندھی دونوں زبانوں کو لازمی مضمون قرار دیتے ہوئے اس بات کی اجازت دی گئی تھی کہ سندھی دفتروں، عدالتوں اور قانون سازی میں استعمال کی جا سکتی تھی۔ اس پر ایک بار پھر ہنگامے شروع ہو گئے۔ ان کارروائیوں سے اُردو بولنے والوں نے محسوس کیا کہ مشرقی پاکستان کے بہاریوں کی طرح انہیں بھی اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا جائے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور سندھ کے وزیر اعلیٰ ممتازعلی بھٹو نے اُردو بولنے والوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ان اقدامات کا مقصد سندھی زبان کو، جسے مارشل لاء اور ون یونٹ نے نقصان پہنچایا ہے، تحفظ فراہم کرنے کے سوا کچھ اور نہیں، لیکن تب تک اُردو بولنے والوں نے،جو سندھیوں سے ہم آہنگی کے لئے تیار نہیں تھے، سندھ کو دو زبان والے صوبے میں تقسیم کر دیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ سندھی اس حقیقت کو قبول کر لیں، لیکن سندھیوں کے لئے اس کا مطلب سندھ کے دو ٹکڑے کرنا تھا۔
خونریز فسادات کے بعد حکومت اور اُردو بولنے والوں کے درمیان سمجھوتا طے پا گیا جس کے تحت انہیں سندھی سیکھنے کے لئے بارہ سال کی مہلت مل گئی، لیکن کوئی حکومت صرف سندھی کو سرکاری زبان بنانے کی ہمت نہ کر سکی۔ اس کا مطلب یہ ہواکہ شہروں کے مہاجر سندھی سیکھے بغیر آگے نکل گئے، جبکہ سندھیوں کو اس وجہ سے اُردو سیکھنے کا پابند ہونا پڑا کہ وہ اقتدار سے محروم نہ رہ جائیں۔ سندھیوں کے لئے اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنا کس قدر آسان رہا ہے اس کا اندازہ پاکستان بننے کے 34 سال بعد بھی سندھ کے مختلف بورڈز کے اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق کراچی بورڈ میں 98 فیصد کا ذریعہ تعلیم اگر اُردو تھا تو سکھر بورڈ میں 79 فیصد اور حیدر آباد بورڈ میں 45 فیصد طلبہ کا ذریعہ تعلیم سندھی تھا۔ یہ تھی ذریعہ تعلیم کے حوالے سے صورت حال۔ جہاں تک ملازمتوں کا تعلق ہے تو کوٹہ سسٹم کے نفاذ کے انیس سال بعد بھی 1992ء میں روزنامہ ’’دی نیوز انٹرنیشنل‘‘ کراچی کے میگزین میں شائع رپورٹ کے مطابق سندھ میں بے روزگاری سے تنگ نوجوانوں میں خود کشی کی لہر آئی ہوئی تھی اور رپورٹ شائع ہونے تک نوکری نہ ملنے کے باعث نوجوان خودکشی کر رہے تھے۔
یہ وہ نوجوان تھے جو یا تو کوٹہ سسٹم کے نفاذ کے وقت 1973ء میں پیدا ہوئے ہوں گے یا ان کی عمریں اس وقت دس سال تک ہوں گی۔ سندھ کی تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے افراد یہ بھی جانتے ہوں گے کہ ڈیڑھ پونے دو سو سال پہلے تک سندھ کا دارالحکومت حیدر آباد تھا، جسے انگریزوں نے فتح کرنے کے بعد کراچی منتقل کر دیا، کیونکہ انہیں وہاں گرمی لگتی تھی۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ حیدر آباد ایک بار پھر سندھی زبان کا مرکز بن گیا ہے، جہاں سے سندھی زبان میں دس اخبارات شائع ہوتے ہیں۔ سندھی زبان میں چار نیوز چینلوں سمیت دس ٹی وی چینل بھی ہیں۔ اس کے علاوہ سندھی کتابوں کی اشاعت کا بڑا کاروبار ہے، جس میں درسی کتب کے علاوہ بچوں کی کتابوں سے لے کر تصوف، فلسفے اور تاریخ کی کتابیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سندھی ذریعہ تعلیم سے استفادہ کرنے والوں کے لئے تعلیمی و دیگر ادارے بھی ملازمت کے مواقع فراہم کرتے ہیں، لیکن یہ مواقع کتنے بھی ہوں، ظاہر ہے کہ محدود نوعیت کے ہی رہیں گے۔ خاص طور پر اُردو جاننے والوں کے مقابلے میں، جنہیں ہر لحاظ سے فوقیت حاصل ہے۔ تقابل کے لئے کراچی کو ہی لے لیں جو اعلیٰ درجے کے لاتعداد تعلیمی مراکز کا حامل ہونے کے علاوہ تجارتی و صنعتی لحاظ سے عالمی شہرت کا حامل شہر بن چکا ہے اور تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کے لئے ملازمت کے وسیع مواقع فراہم کرتا ہے، جبکہ بیرون ملک اعلیٰ درجے کی تکنیکی ملازمتوں کے مواقع اس کے علاوہ ہیں۔
جہاں تک ایم کیو ایم کا تعلق ہے، اس کے حوالے سے کوٹہ سسٹم تو محض ایک جذباتی سیاسی نعرہ قرار دیا جا سکتا ہے، ورنہ ایم کیو ایم تو اسی وقت وجود میں آ گئی تھی، جب مشرقی پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں مقیم اُردو بولنے والے، جو پاکستان پر فدا تھے، راتوں رات پاکستانی شہریت سے محروم کر دیئے گئے۔ حب الوطنی سے قطع نظر یہ ایک ایسا انوکھا واقعہ تھا جس کی دنیا کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے مشرقی پاکستان میں کی گئی فوجی کارروائی اور اس کے بعد ہندوستان سے جنگ میں مسلح افواج پاکستان کا پورا پورا ساتھ دیا جس کی انہیں بعد میں اسی نوعیت کی انتہائی تکلیف دہ اور کربناک سزا بھگتنا پڑی جو انہوں نے 1947ء میں پاکستان بننے پر بہار کے فسادات میں بھگتی تھی، لیکن پاکستان نے انہیں قابل افسوس سیاسی مصلحتوں کی بنا پر پاکستانی تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور ان کے بچے آج بھی بنگلہ دیش کے محصورین کیمپ میں ریڈ کراس کی مدد سے ذلت آمیز زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ایم کیو ایم اس وقت وجود میں آ گئی تھی، جب پاکستانی ہونے کا درس دیئے جانے والے بچوں نے بڑے ہو کر اپنے اردگرد پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن، پنجابی سٹوڈنٹس فیڈریشن اور بلوچ اور سندھی سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام سے تنظیموں کو مختلف فائدے اٹھاتے ہوئے دیکھا تو ان کے ذہن میں بھی سوال پیدا ہوا کہ وہ کون ہیں؟
اس سوال کا اٹھنا اِس لئے بھی قدرتی تھا کہ انہیں تو قائداعظمؒ کا یہی سبق پڑھایا گیا تھا کہ ہم میں نہ اب کوئی سندھی ہے، نہ بنگالی ہے، نہ بلوچ ہے، نہ پنجابی اور پٹھان ہم سب پاکستانی ہیں۔ اُردو بولنے والے نوجوانوں کی فرسٹریشن کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ1964ء میں اور اس کے بعد بڑے عرصے تک ان کے بزرگ جب پاکستان آئے تھے تو یہاں تعلیم یافتہ افراد کی کمی تھی، چنانچہ اگرچہ وہ تعداد میں آبادی کا سات فیصد تھے،لیکن انہیں پاکستان میں ہر جگہ ہر محکمے میں سو فیصد ملازمتیں مل گئیں،لیکن جب ان کے بچے جوان ہوئے تو پاکستان اور خاص طور پر پنجاب میں بھی جہاں متعدد تعلیمی مراکز تھے، نئی نسل تیار ہو کر اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے تیار تھی۔چنانچہ ملازمتوں کے سلسلے میں اصل کشمکش تو اسلام آباد میں اس وقت شروع ہوئی جب اُردو بولنے والی بیورو کریسی نے اپنے اوپر پنجاب میں برادری کی طاقت کا دباؤ محسوس کرنا شروع کیا۔اُردو بولنے والے بیورو کریٹ میرٹ پر یقین رکھتے تھے اور کسی سفارش وغیرہ کے قائل نہ تھے، جس پر خود اپنی برادری میں ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھے جاتے تھے، جبکہ پنجاب میں برادری کی بنیاد پر ایک دوسرے کی مدد کرنا اور حدود پھلانگ کر آگے نکل جانے کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، چنانچہ اُردو بولنے والوں کی کشمکش پنجابی بیورو کریسی سے شروع ہوئی۔ سندھی بیورو کریسی سے نہیں،کیونکہ اس کا تب تک کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ ان حالات میں مہاجر سوچ کا پہلا حلقہ اسلام آباد میں ہی وجود میں آیا۔اگر ایسا نہ ہوتا کراچی میں نشتر پارک میں ایم کیو ایم کے پہلے جلسے میں پہلا نعرہ کوٹہ سسٹم کے خلاف لگتا۔ پنجاب کے خلاف یہ کہہ کر نہ لگتا کہ وہ دیکھو پنجاب انٹرنیشنل ائر لائنز کا جہاز جا رہا ہے۔ کراچی نشتر پارک میں یہ جلسہ اپریل 1986ء میں لاہور میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے اس جلسے کے بعد ہوا تھا، جس میں انہوں نے اسلام آباد کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ انہیں دوسرا جلسہ کراچی میں کرنا تھا، جس کے بعد پورے پاکستان میں اُن کے نام کا ڈنکا بجنا تھا،لیکن اس سے پہلے ہی مرحوم و مغفور ضیاء الحق ضاحب ایم کیو ایم کو میدان میں لے آئے تاکہ پیپلز پارٹی کا زور توڑا جا سکے، اس کے بعد کیا ہوا یہ کہانی تو سب کو معلوم ہے،لہٰذا یہ کہنا کہ ایم کیو ایم کوٹا سسٹم کی وجہ سے بنی اصل وجہ سے دھیان ہٹانے کی بھونڈی کوشش ہے جو ممکن ہے لاعلمی اور نادانی میں کی گئی ہو۔ چودھری صاحب ویسے اس قسم کی حرکتوں کی وجہ سے پہلے ہی کافی بدنام ہیں۔(ختم شد)