انتظامی بیرومیٹر کیا کہتا ہے؟
کسی ملک کی بیوروکریسی ملکی انتظامیہ کی کارکردگی کا اصل بیرومیٹر ہوتی ہے۔ اسی لئے غیر ملکی خبر رساں ایجنسیاں Administrative Pulseکو ماپنے کے لئے بیوروکریسی سے موجود صورت حال پر تفصیلی گفتگو کرکے حالات کے رخ کا تعین کرتی ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ جب سابق وزیر اعظم نواز شریف کو ہٹا کر جنرل پرویز مشرف نے اقتدار میں آنا تھا تو اس وقت بھی ایک معروف غیر ملکی خبر ایجنسی نے ایسا ہی سروے کیا تھا اور جب اسلام آباد کے ایک سنیئر بیوروکریٹ سے سوال پوچھا کہ آخر ملک میں اس قدر Instabilityیعنی عدم استحکام کیوں ہے تو اس بیوروکریٹ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا تھا:This is a managed instabilityاور اسی فقرے پر اس سٹوری کا اختتام ہوگیا تھا۔
اسی معروف غیر ملکی خبر رساں ایجنسی نے موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں بیوروکریسی کی پلس کو ماپنے کی کوشش کی ہے اور اس کے سروے کے مطابق پاکستان میں اینٹی کرپشن مہم سے معیشت متاثر ہونے لگی ہے، بڑے منصوبے رک گئے ہیں جبکہ بیوروکریسی خوف کا شکار ہوگئی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے فروغ پانے والی انسداد بدعنوانی تحریک سے سیاستدانوں کی گرفتاریوں کے سلسلے کیلئے راہ ہموار ہوگئی ہے لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ معیشت متاثر ہورہی ہے جیسا کہ بیورورکریوں کی جانب سے بڑے منصوبے روک دئیے گئے ہیں جنہیں خطرہ ہے کہ انہیں جال میں پھنسا کر گرفتار کرلیا جائے گا۔ عمران خان نے گزشتہ سال اقتدار میں آکر بدعنوانی کے خاتمے کا عزم کیا تھا اور تجربہ کار سیاستدانوں بشمول سابق وزیر اعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف تحقیقات کرانے کی رائے کا اظہار کیا تھا۔ قومی احتساب بیورو (نیب) کی مہم خوفناک سیاسی بحث کا موضوع بن چکی ہے۔ تاجر برادری میں سے بعض کا کہنا ہے کہ انہیں فکر ہے کہ یہ مہم بیمار معیشت کو نقصان پہنچا رہی ہے جس نے ابھی ابھی 6 ارب ڈالرز کا آئی ایم ایف بیل آؤٹ حاصل کیا ہے۔
نیب کی توجہ کا مرکز اب تک نئی حکومت کے سیاسی دشمنوں پر ہے جس سے الزامات کو تحریک ملی ہے۔ یہ ناپسندیدہ افراد کو یک طرفہ ٹھکانے لگانے کا عمل ہے جسے اسٹبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے اور جو عمران خان پر مہربان نظر آتی ہے۔ حکومت سیاسی مخالفین کو ہدف بنانے سے انکار کرتی ہے۔ نیب اوراسٹبلشمنٹ نے رابطہ کرنے پر کوئی ردعمل نہیں دیا اگرچہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ سیاست میں مداخلت کرنے یا نیب پر اثر انداز ہونے کی تردید کرچکی ہے۔
موجودہ حکومت کے کریک ڈاؤن سے سرکاری ملازمین کو پھانس لیا گیا ہے جن کا کہنا ہے کہ احتساب کی تحریک میں انہیں شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ غیرملکی خبر رساں ایجنسی سے گفتگو کرنے والے اعلیٰ عہدوں پر فائز چھ افسران نے سول سروس کی جو تصویر کھینچی وہ تذبذب کا شکار ہے اور فیصلہ سازی رک چکی ہے جبکہ سینئر افسران منصوبوں پر کام کرنے اور فیصلہ سازی سے بچ رہے ہیں جن سے ان پر رشوت کے الزامات لگ سکتے ہیں۔ ایک سینئر وفاقی افسر کا کہنا ہے کہ اگر منصوبہ کام کرگیا تو مجھے گولڈ میڈل نہیں ملے گالیکن اگر منصوبہ ناکام ہوگیا تو مجھے جیل جانا پڑسکتا ہے۔ دوسرے افسر نے بیوروکریسی میں خوف کے ماحول میں انتظامی ’گو سلو‘ (سستی) کی بات کی۔
حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے کہ نیب معیشت پر اثرانداز ہورہا ہے اور ان الزامات کو حزب اختلاف کا پروپیگنڈا قرار دیتی ہے۔ وزیر سائنس فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر عمران خان کا عروج متوسط طبقے کا کرپشن کے خلاف انقلاب ہے، آپ ہم سے یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ ہم کرپشن کے معاملے کو ہلکا لیں گے۔ سابقہ حکومت میں وزیر رہنے والے حزب اختلاف کے ایک سیاستدان کا کہنا ہے کہ جو بھی اس حکومت کے خلاف ہے، اس کے خلاف نیب کا کیس ہے۔ چند معروف تاجروں کے خلاف بھی انکوائریوں کا آغاز ہوگیا ہے۔ پاکستان کی نیو لیکوئیفائیڈ نیچرل گیس (ایل این جی) کا انفرا اسٹرکچر جسے پچھلی انتظامیہ نے تیزی سے کھڑا کیا تھا، انسداد بدعنوانی کے بڑے میدان جنگ کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ کوئی بھی کچھ نہیں کرنا چاہتاکیونکہ وہ نیب سے خوفزدہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بیوروکریٹس مدد کرنے اور بجلی کی کمی کے باوجود قیمت ادا کر رہے ہیں۔ خاقان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس اچھے لوگ تھے جنہوں نے خطرہ مول لیا اور وہ سب آج اذیت جھیل رہے ہیں۔
وزارت توانائی کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ وہ بیوروکریٹس جنہیں ملک سے باہر جانے سے روکا جارہا ہے،اعتماد کھورہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک یا دو سال میں ہمیں توانائی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایک اور سینئر وفاقی افسر کا کہنا تھا کہ اگر مجھے 10 ارب ڈالرز کی ریفائنری کے حوالے سے فیصلہ کرنا پڑے تو میں اس فائل پر چھ ماہ تک بیٹھا رہوں گا اور کسی اور سے فیصلہ کروانے کو ترجیح دوں گا۔ خیبر پختونخوا میں ایک سینئر سرکاری ملازم کا کہنا ہے کہ انہوں نے 2018 سے کسی بڑے منصوبے کو منظور نہیں کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام بیوروکریٹس جانتے ہیں کہ ایک مرتبہ اگر آپ پر نیب کا لیبل لگ جائے تو خواہ آپ معصوم ہوں یا آپ نے واقعی بدعنوانی کی ہو تو آپ کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔