جھیل پاگونگ اور اس کی اہمیت (1)
ہم میدانی علاقوں میں رہنے والے لوگ ہیں اس لئے کوہستانی علاقوں کو کم جانتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ مری اور سوات تک نکل جاتے ہیں اور وہ بھی موسمِ گرما میں۔ سردیوں میں جب برفباری ہوتی ہے تو ہم یہ منظر بھی دیکھنے کے لئے مری، نتھیا گلی اور ایبٹ آباد کا رخ کرتے ہیں۔ یہ سفر ہمارے لئے سامانِ تفریح فراہم کرتے ہیں۔ لیکن اگر آپ وہاں کے مستقل مقامی باشندوں سے ملاقات کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ان کی زندگی کے شب و روز کتنے مشکل اور صبر آزما ہوتے ہیں۔ دو تین ماہ بہار کے مہینے ہوتے ہیں لیکن سال کے باقی نو ماہ ان کے لئے چیلنج بن جاتے ہیں۔ اور اگر آپ مزید شمال میں چلے جائیں تو گلگت بلتستان کے علاقے اور بھی سخت اور دشوار ہیں۔ میں کئی برس پہلے جب پہلی بار گلگت میں گیا تو اکتوبر کے اولیں ایام تھے لیکن سردی کا عالم یہ تھا کہ میں بیڈ میں رضائی لپیٹ کر بیٹھا اور کمرے میں دو دو راڈز کے الیکٹرک ہیٹرز آن تھے لیکن پھر بھی دانت بج رہے تھے اور اس سے بھی آگے اگر بونجی، سکردو اور استوار کی طرف نکل جائیں تو ایک اور طرح کا تجربہ ہم میدانوں میں رہنے والوں کو دیکھنا پڑتا ہے۔
کشمیر پر ہندوستان کا قبضہ ہے۔ شہنشاہِ جہانگیر نے اگرچہ اسے زمین پر فردوسِ بریں کہا تھا لیکن اس جنت نشاں وادی سے مزید اوپر شمال کی طرف جائیں تو وہ علاقے شروع ہوتے ہیں جو ہمارے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے کہیں زیادہ سرد اور دشوار گزار ہیں۔ آج کل ان پر جنگ کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ 15جون کو انڈین آرمی کے 20سولجرز اور آفیسر چینیوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے اور تب سے آج تک دونوں ممالک (چین اور انڈیا) کے درمیان ملٹری سٹینڈ آف چل رہا ہے۔ راقم السطور پچھلے ماہ اسی تناظر میں اپنے کئی کالموں (اور مضامین) میں اس سٹینڈ آف کی تفاصیل ڈسکس کرتا رہا ہے اور چونکہ اس صورتِ حال کی پرچھائیاں پاکستان پر بھی پڑنے والی ہیں اس لئے نہائت ضروری ہے کہ لداخ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی سُن گُن قارئین کو دی جائے۔ گزشتہ دو کالموں میں اگرچہ یہ بتا چکا ہوں کہ انڈیا اس علاقے میں ایک طویل حربی معرکے کی پلاننگ کر رہا ہے اور اس کے لئے اپنی آرمی اور ائر فورس کے کئی دستے لیح (Leh) میں بھیج چکا ہے۔
اگلے روز (3جولائی) بھارتی وزیراعظم بھی لداخ کے اگلے مورچوں کا دورہ کر چکے ہیں اور 15جون کو اپنے زخمی ہونے والے فوجیوں کی ہمت بڑھانے کے ایک طویل بھاشن میں وہ باتیں کہہ چکے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ صرف مورال بلند کرنے کی تدابیر ہیں۔ میں اس کالم میں مودی صاحب کی لن ترانیوں کا ذکر نہیں کروں گا۔ انڈین ٹروپس کو معلوم ہے کہ ان کا وزیراعظم اپنے خصوصی VVIP ہیلی کاپٹر میں آیا اور 10ڈگری درجہ ء حرارت کی وجہ سے گرم فروالی جیکٹ پہن کر بڑھکیں لگائیں اور اسی ہیلی کاپٹر میں واپس دہلی چلا گیا۔ اس قسم کے عاجل اور جھٹ پٹ دورے محض اشک شوئی کے لئے ہوتے ہیں۔فوجیوں کو معلوم ہے کہ ان کا پردھان منتری اُن دکھوں کا مداوا نہیں کر سکتا جو ان کی تقدیر ہیں۔ کسی ملٹری سٹینڈ آف کے دوران دشمن کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہونا اور کشت و قتال کا منتظر رہنا مورال کی بلندی کی تقریروں سے کہیں آگے والی بات ہے۔ ٹروپس اپنے مودی سے یہ نہیں پوچھ سکتے کہ ان علاقوں (کشمیر، جموں، لداخ) کا آئینی سٹیٹس تبدیل کرنے کا پنگا کیوں لیا گیا، وادیء گلوان اگر متنازعہ تھی تو اس کا تصفیہ کیوں نہ کیا اور جھیل پاگونگ (Pagong Tso) کی 8انگلیوں (Fingers) کا مسئلہ گزشتہ 60برس سے کیوں لٹکایا ہوا ہے!
میں نے کالم کے شروع میں میدانی علاقوں کی آسانیوں اور برفانی قطعاتِ اراضی کی دشواریوں کا ذکر اسی لئے کیا تھا کہ قارئین کو بتا سکوں کہ ہمارے جو پاکستانی ٹروپس ایل او سی، گلگت، سکردو اور چترال جیسے برفانی اور دشوار گزار علاقوں میں صف بند ہیں اور دوسری طرف انڈیا کے بھی جو فوجی لداخ، وادیء گلوان، لیح (Leh)، دولت بیگ اولدی اور جھیل پاگونگ میں ڈیپلائے ہیں ان کو کن شدید موسمی اور زمینی دشواریوں کا سامنا ہے……سطور ذیل میں اس حربی علاقے کا ایک مختصر سا جغرافیائی احوال بیان کرنے کی کوشش کروں گا جو انڈو۔ چائنا سٹینڈ آف کا مرکزی نقطہ ہے اور جسے جھیل پاگونگ کا نام دیا جاتا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ پاکستانی قارئین کو پتہ ہو کہ یہ جھیل کیا ہے، کیوں متنازعہ ہے اور انڈیا اس تنازعہ کو اپنے مخصوص نقطہ ء نظر سے کیوں دیکھتا ہے، اس کا اثر آگے چل کر پاکستان پر کیا پڑ سکتا ہے اور ہم بھارتی مکاریوں اور عیاریوں کا کیا توڑ کر سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
جھیل پاگونگ کوئی چھوٹی موٹی جھیل نہیں۔ ہم پاکستانیوں کے تصور میں جھیل ایک محدود ذخیرۂ آب ہے۔ جھیل سیف الملوک، جھیل ناران، جھیل کیرتھر، حنا لیک وغیرہ کا موازنہ جھیل پاگونگ سے ہرگز نہیں کیا جا سکتا۔ اس جھیل کی لمبائی 135کلومیٹر چوڑائی 5کلو میٹر (زیادہ سے زیادہ)اور گہرائی 100میٹر (328فٹ) ہے۔ یہ جھیل سطح سمندر سے 13900فٹ بلند ہے، اس کا رقبہ 700مربع کلومیٹر ہے، سردیوں میں ساری کی ساری جھیل جم کر سخت برف بن جاتی ہے۔ اس کے ایک طرف انڈیا کا لداخ کا متنازعہ علاقہ ہے اور دوسری طرف چین ہے۔ چینی علاقہ 60% ہے اور بھارتی متنازعہ علاقہ 40% ہے۔ پاگونگ تبتی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے گڑھا……خیال ہے کہ جب یہ سلسلہء کوہ تخلیق ہوا تھا تو یہ گڑھا خالی ہو گا۔ لیکن بعد میں بارشوں اور گلیشیئرز کی برفیں پگھلی ہوں گی تو یہ خالی گڑھا بھر گیا ہو گا اوراس نے ایک بڑی جھیل کا روپ دھار لیا ہو گا۔ اس کے کناروں پر کئی فٹ کیچڑ جم کر اس بات کا سراغ دیتا ہے کہ مرورِ ایام سے یہ جھیل سکڑ رہی ہے۔ موسمِ گرما میں کئی آبی پرندے اس جھیل کا رخ کرتے ہیں۔ ہر سال 5ماہ (مئی تا ستمبر) اس کی برف پگھلتی ہے اور شفاف نیلگوں پانی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔سال کے باقی سات ماہ تک یہ جھیل منجمد رہتی ہے۔
جھیل پاگونگ، انڈیا اور چین کے مابین لائن آف ایکچویل کنٹرول (LAC) پر واقع ہے۔ گرمیوں کے موسم میں اس کی سیاحت کی جا سکتی ہے۔ لیح (Leh)میں انڈیا کا ایک سیاحتی دفتر قائم ہے جو جھیل کی وزٹ پر آنے والوں کے لئے اجازت نامے (پرمٹ) ایشو کرتا ہے۔ لوگ گاڑیوں اور (زیادہ تر) موٹرسائیکلوں پر سوار ہو کر لیح سے اس جھیل تک پہنچتے ہیں لیکن جھیل میں سیکیورٹی کے پیش نظر کشتی رانی کی اجازت نہیں۔
چین کی طرف سے یہ جھیل اس کی ”نیشنل ہائی وے 219“ پر واقع ہے۔ اس ہائی وے سے جھیل کا کم از کم فاصلہ 12کلومیٹر اور زیادہ سے زیادہ 130کلومیٹر ہے۔ جھیل کے ساحلوں پر موسم گرما میں جگہ جگہ ریستوران اور ہوٹل بنے ہوئے ہیں اور سیاح یہاں آکر مختلف اقسام کی مچھلیوں سے تیارہ کردہ کھانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
جیسا کہ بھارت میں عموماً ہوتا ہے، ریستورانوں اور ہوٹلوں میں کاٹھ کباڑ جمع ہو جاتا ہے جو جھیل کے پانی میں پھینک دیا جاتا ہے۔ ہر سال اس جھیل کی آبی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چین نے تو بڑی سختی سے اس آلودگی کے خلاف قوانین بنا کر ان پر عمل کرایا ہے لیکن انڈیا میں ابھی ایسا کچھ نہیں کیا گیا…… جس ملک میں گنگا کو انتہائی آلودگی کا سامنا ہو، وہاں پاگونگ کی آلودگی کے خلاف کون بند باندھ سکتا ہے؟
اس جھیل کے کناروں پر انڈین فلموں کی اکثریت کی عکس بندی بھی کی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ 1998ء میں شروع ہوا تھا۔ فلم کا نام تھا: ”دل سے……“ اور شاہ رخ اور مانیشا کوئرالا پر اس کا پہلا گانا فلمایا گیا تھا۔2009ء میں بننے والی فلم ”تھری ایڈیٹس (3 Idiots) تو بہت سے پاکستانی شائقین نے دیکھی ہو گی۔ اس کا کلائمکس سین بھی پاگونگ کے ساحل پر فلمایا گیا تھا۔ ان فیچر فلموں کے علاوہ بہت سی دستاویزی فلمیں بھی یہاں عکس بند کی جا چکی ہیں جن میں بی بی سی کی ڈاکو منٹریاں مشہور ہیں۔
اب ہم جھیل پاگونگ کی عسکری اہمیت اور اس تنازعہ کا ذکر کرتے ہیں جو مئی 2020ء میں شروع ہوا، 15 جون کو ایک خونریز معرکے سے گزرا اور ابھی کچھ خبر نہیں کہ آنے والے دنوں میں کیا روپ دھارتا ہے۔(جاری ہے)