عالمی امداد باہمی:دوسروں کی مدد کرکے جینا سیکھو
کورونا وائرس اورمختلف قدرتی آفات نے جس طرح روئے زمین پر بسنے والے انسانوں اودیگر جانداروں کو موت کے دہانے پر کھڑا کر رکھا ہے، اس سے اب ایک بات واضح ہوچکی ہے کہ ان قدرتی آفات اور خطرناک بیماریوں کا مقابلہ کرنے اور زندہ رہنے کے لئے تمام انسانوں اورممالک کوایک دوسرے کی ہر طرح سے مدد کرنا ہوگی۔اگر باریک بینی سے مشاہدہ کیا جائے تو اس روئے زمین پر بسنے والا ہر انسان کسی دوسرے کی مدد کا طلب گار اور محتاج ہے۔کوئی بھی شخص یہ دعویٰ نہیں کرسکتاکہ اسے کسی کی کبھی کوئی مدد درکار نہیں۔یہی اصول دنیا بھر کے ممالک پر بھی لاگو ہوتا ہے۔کوئی بھی ملک خواہ وہ ترقی یافتہ ہی کیوں نہ ہو،اسے کسی نہ کسی دوسرے ملک کی مدد اور تعاون کی ضرورت رہتی ہے۔شائد اللہ تعالیٰ نے اسی لئے زمین پر ایسا قدرتی نظام اور ذرائع پیدا کئے ہیں کہ انسان باہمی تعاون اور مدد سے زندگی بسر کریں،اس طرح زندگی کا توازن پیدا ہوتا ہے۔ ایک لمحہ کے لئے سوچیں اگرخدانخواستہ دنیا پر چند ایک انسانوں یا ملکوں کی حاکمیت قائم ہو جاتی تواس حاکمیت اور طاقت کے نشے میں وہ دوسروں کی زندگیوں کے بھی مالک بن بیٹھتے اور دوسروں سے ان کے جینے کا حق بھی چھین لیتے۔اسی لئے حقیقی حاکمیت کی صفت صرف اور صرف قادر مطلق کی ہے جو تمام جہانوں کا مالک ہے۔
ایک دوسرے کی مدد کرکے جینے کی اہمیت اور طریقہ اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے ہی بتا دیا تھا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:ترجمہ:”نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو“ (سورۃ المائدہ) ہمارے پیارے نبی ؐ نے اپنے عمل سے دنیا کوسکھایا بھی اور بتایا بھی کہ دوسروں کی مدد کرنے سے اللہ راضی ہوتا ہے۔وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اب دنیا اسلام کے بتائے ہوئے تمام سنہری اصول ایک ایک کر کے اپنا رہی ہے۔جب دنیا نے اسلام میں بتائے گئے ایک دوسرے کی مدد کرنے کے جذبے کی اہمیت کو سمجھا اورصحیح طرح جان لیا تو دوسروں کو اس بات کی ترغیب دینے کے لئے امداد باہمی کا عالمی دن منایاجانے لگا۔ اسی جذبے کو تقویت دینے کے لئے ہر سال جولائی کے پہلے ہفتے کو امداد باہمی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔اس دن کو منانے کا فیصلہ اقوام متحدہ نے 1992ء میں کیا۔ اس دن کے منانے کا مقصد باہمی تعاون کے حوالے سے نہ صرف عام لوگوں بلکہ حکومتوں کو بھی آگاہی دینا ہے کہ باہمی تعاون و اشتراک کے ذریعے نہ صرف انفرادی، بلکہ اجتماعی اور دنیا بھر کے بیشتر مسائل کا حل ممکن ہے۔ امداد باہمی کاعالمی دن منانے سے لوگوں میں یہ شعور و آگاہی بھی پیدا ہوتی ہے کہ دنیا بھر میں سماجی و اقتصادی ترقی کو تیز کرنے اور اقتصادی بحران پر قابو پانے کے لیے باہمی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور امداد کو فروغ دینا ضروری ہے۔پاکستان میں بھی امداد باہمی کا عالمی دن منایا جاتا ہے، اس حوالے سے پاکستان کے محکمہ ڈاک نے 4 نومبر 1967ء کو امداد باہمی کے عالمی دن کے موقع پر 15پیسے مالیت کا ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا تھا،جس کا ڈیزائن پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کے عبدالرؤف نے تیا رکیا تھا۔ اس ڈاک ٹکٹ پرEach for All, All for Eachکے الفاظ طبع کیے گئے تھے۔
برصغیر میں امداد باہمی کا آغاز 1902ء اس وقت ہوا، جب برصغیر کو ایک شدید قسم کے قحط کا سامنا تھا۔اس وقت کی انگریز سرکار نے اس پر قابو پانے کے لئے ایک کمیشن تشکیل دیا جس میں بہت سی آراء سامنے آئیں۔ ا س وقت چونکہ یورپ میں تحریک امداد باہمی عروج پر تھی، اس وجہ سے کمیشن میں ایک تجویز یہ بھی سامنے آئی کہ پیداوار بڑھانے کے لئے کو آپریٹو سوسائٹی متعارف کروائی جائے۔ اس سلسلے میں 1904ء میں پہلا قانون بنایا گیا، جبکہ 1911ء میں کو آپریٹو سے متعلق باقاعدہ ایک ایکٹ متعارف کروایا گیا جس سے اس عمل کو ایک نئی جہت ملی اور کو آپریٹو کا عمل تیزی سے شروع ہوا۔انٹرنیشنل کوآپریٹو الائنس موجودہ دور کی مختلف تنظیموں میں سے ایک ایسی تنظیم ہے جس کا قیام اگست 1895ء کو عمل میں آیا۔ایک دوسرے کی مدد کرنے کے جذبے کو فروغ دینے کے لئے آج ہم سب کو یہ عہد کرنا ہو گا کہ تحریک امداد باہمی کو پاکستان میں زیادہ فعال اور موثر بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ اللہ کرے پاکستان میں تحریک امداد باہمی کو زیادہ سے زیادہ فروغ حاصل ہو اور اس مقصد کے حصول میں اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے، آمین۔