عوامی احتجاج اور مظاہرے: نتیجہ کیا نکلے گا؟

عوامی احتجاج اور مظاہرے: نتیجہ کیا نکلے گا؟
عوامی احتجاج اور مظاہرے: نتیجہ کیا نکلے گا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 موسم شدید نہیں شدید تر ہے گرمی، شدید گرمی، حدت کی لہر اور اب حبس کا موسم شروع ہو چکا ہے۔ یہ موسم کبھی بھی پسندیدہ نہیں رہا لیکن پچھلے گزرے وقتوں میں پنکھوں کی ہوا، ایسے موسم میں نعمت ثابت ہوتی تھی دیہاتوں میں گھنے پیٹروں کی چھاؤں سکون کا باعث بنتی تھی اب شہری عذاب کا شکار ہیں۔ ہم نے شہروں میں اور ان کے اردگرد ہریالی کا خاتمہ کر دیا ہے۔ کنکریٹ اور سیمنٹ سریا ہمارے ماحول پر عفریت بن کر چھا چکا ہے۔ درجہ حرارت کم بھی ہو جائے، زمین جذب شدہ حرارت کو جب چھوڑتی ہے تو شہریوں کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں، اب تو معاملات بھی کسی اور نہج پر چل نکلے ہیں، پہلے لوڈشیڈنگ کو عذاب کہا جاتا تھا شہری احتجاج کرتے تھے ویسے احتجاج تو اب بھی جاری ہیں۔ مہنگائی کے خلاف، بجٹ کے مندرجات کے خلاف،بجٹ کی عوام کش پالیسیوں کے خلاف قوم سراپا احتجاج ہے۔ موسم کی شدت اپنے جوبن پر ہے، برسات شروع ہو چکی ہے حبس، گرمی، فضائی آلودگی اور ایسے ہی منفی عوامل نے مل جل کر فضا کو مسموم بنا رکھا ہے، سیاسی جماعتیں عوامی مشکلات کو زبان دینے کے لئے میدان میں آنے کا اعلان کر چکی ہیں۔ جماعت اسلامی نے غیر معینہ مدت تک تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے اسلام آباد میں اکٹھے ہو کر دھرنا دیا جائے گا۔ پیپلزپارٹی 5جولائی 1977، جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے خلاف نوحہ کناں ہے۔ پی ٹی آئی مہنگائی کے ساتھ اپنے قائد کی رہائی کے لئے احتجاجی جلسہ کررہی ہے۔ پٹرولیم ایسوسی ایشن والے دھرے ٹیکسوں کے نفاذ کے خلاف ہڑتال پر ہیں۔ پورے ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی سپلائی خلل پذیر ہو چکی ہے۔ معاملات پہلے بھی بگاڑ کا شکار تھے لیکن اب بگاڑ ناقابل برداشت حدوں تک جا پہنچاہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط و ہدایات کے مطابق بجٹ تشکیل دے کر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی کاوشیں کی ہیں۔ وہ ایسا کرنے میں کامیاب دکھائی دیتی ہے کیونکہ آئی ایم ایف نے اس بجٹ کو درست قرار دے دیا ہے اس طرح حکومت کو اگلا پروگرام ملنے کی حقیقی امید پیدا ہو گئی ہے اس بجٹ میں 3500ارب روپے کا اضافی ریونیو اکٹھا کیا جائے گا۔ پچھلے مالی سال کی ٹیکس وصولوں سے 3.5ٹریلین روپے کے اضافی ٹیکس وصول کئے جائیں گے۔ کسی حقیقی معاشی سرگرمی کے بغیر کسی صنعتی و تعمیراتی پروگرام کی تشکیل و ترویج کے بغیر ٹیکسوں کی وصولیوں کے اہداف میں اس قدر اضافہ حقیقی نظر نہیں آتا یہی وجہ ہے کہ قوم سراپا احتجاج ہے۔

بات ہو رہی تھی موسم کی نیرنگیوں کی۔ حدت کی لہر کی،حبس کی اور پنکھے کی ہوا کی، لوڈشیڈنگ پر احتجاج کی، بجٹ نافذ العمل قرار پا چکا ہے۔ بجلی کا جو یونٹ پہلے 7.74کا تھا وہ 23.73روپے کا ہو گیا ہے۔200یونٹ کے استعمال تک پہلے جو یونٹ 10.06روپے کا تھا وہ اب 39.07روپے کا ہو گیا ہے۔201-300یونٹ تک کی جو قیمت پہلے 27.14روپے تھی وہ اب 34.26روپے ہو گئی ہے اسی طرح ہر سلیب کی قیمت بڑھ چکی ہے اب تو لوڈشیڈنگ ایک نعمت نظر آئے گی۔ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ جس قدر زیادہ ہوگا اسی قدر ذہنی سکون ملے گا۔ پسینہ جتنا چاہے زیادہ بہے،حبس کی وجہ سے چاہے دل ڈوبتا چلا جائے لیکن شہریوں کو ذہنی سکون میسر ہوگا کہ چلو بجلی کے بل میں تو اضافہ نہیں ہو رہا ہے۔

توانائی کے شعبے کا گردشی قرضہ سوہانِ جسم و جاں بن  چکا ہے۔ گزشتہ روز ایوانِ بالا میں فرنس آئل پر چلنے والے پاور پلانٹس بارے رپورٹ پیش کی گئی جس کے مطابق 11پاور پلانٹس فرنس آئل کے ذریعے بجلی پیدا کرتے ہیں جن کے مطابق فی یونٹ پیداواری لاگت35.76روپے تا 43.86روپے بنتی ہے ان پاور پلانٹس کے ساتھ معاہدے 2035ء اور 2036ء تک ہیں۔ گویا 2036ء تک عوام عذاب میں ہی مبتلا رہیں گے مہذب قومیں ایسی مسائل سے نمٹنے کی منصوبہ سازی کرتی ہیں۔ حکمران عوام کو اعتماد میں لیتے ہیں سخت اقدامات کئے جاتے ہیں مستقبل میں بہتری کے لئے حکمران سخت قدم بھی اٹھاتے ہیں۔ عوام ایسے اقدامات کو قبول بھی کرتے ہیں اس امید پر کہ آنے والے دنوں میں بہتری ہو گی لیکن ہمارے ہاں حکمرانوں کا اپنا مستقبل بھی نہیں ہوتا، اس لئے وہ مستقبل کے حوالے سے پالیسیاں بنانے کا سوچتے ہی نہیں ہیں۔ بجٹ 2024-25ء میں کوئی حکمت عملی یا پالیسی نظر نہیں آ رہی، صرف اور صرف ٹیکس وصولیاں، ٹیکس وصولیاں ہیں۔ وزیرخزانہ نے کھلے الفاظ میں بجٹ کے سخت ہونے کا اعتراف کیا ہے لیکن انہوں نے اس کی کوئی توضیح پیش نہیں کی۔ حکومت کی کوئی سمت نظر نہیں آ رہی، بجٹ بغیر کسی پالیسی اور حکمت عملی کے نافذ العمل ہوچکا ہے۔ مہنگائی کی لہر اٹھ چکی ہے،دھیرے دھیرے یہ سونامی بننے جا رہی ہے۔ جولائی کے مہینے کے بجلی کے بل جب اگست میں عوام کو ادا کرنا پڑیں گے تو انہیں لگ پتہ جائے گا۔ ابھی جو احتجاج ہلکی اور دھیمی سروں میں ہو رہا ہے۔ ممکن  ہے وہ بلند آہنگ اختیار کرلے، ویسے سردست جو حالات نظر آ رہے ہیں کہ تمام یا زیادہ تر سیاسی قائدین، نہ صرف رائج نظام مملکت کا حصہ اور اس سے فائدہ اٹھانے والے ہیں بلکہ عالمی نظام زر کا حصہ ہیں ان کے مفادات پاکستان کے استحصالی نظام سے جڑے ہوئے ہیں ان کے بچے مغربی دنیا کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ان کے پاس غیر ملکی شہریت ہے ان کی وہاں جائیدادیں ہیں۔ اچھے برے وقت کے ٹھکانے ہیں اس لئے شاید یہ ممکن ہی نہ ہو سکے کہ وہ اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں یا عوامی احتجاج کو حقیقی رنگ دے سکیں۔ کینیا میں بجٹ کے خلاف ہونے والے عوامی مظاہروں کی قیادت کسی سیاسی جماعت یا اس کے قائد نے نہیں کی تھی بلکہ عوامی رائے عامہ کی تشکیل میں سوشل میڈیا نے بنیادی کردار ادا کیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہی حکومت کے خلاف عوامی تحریک چلی جس نے پُرتشدد تحریک کا روپ دھار لیا۔ حکمرانوں کو ظالمانہ بجٹ واپس لینا پڑا۔ یہاں بھی شاید اسی کایا کلپ ہو جائے۔

مزید :

رائے -کالم -