حضرت مولاناپیر محمد حسین پسروری نقشبندیؒ

حضرت مولاناپیر محمد حسین پسروری نقشبندیؒ
حضرت مولاناپیر محمد حسین پسروری نقشبندیؒ
کیپشن: m younas

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 مولانا محمدحسین پسروری نقشبندیؒ کی ولادت باسعادت ضلع سیالکوٹ کی تحصیل پسرور میں نہایت ہی قابل فخر اور علم و دانش سے مالا مال گھرانے میں 1870میں ہوئی۔آپؒ کے والد گرامی آپ کی پیدائش سے اٹھارہ روز پہلے رحلت فرماچکے تھے ،جبکہ تقریباً سال بھر کی عمر مبارک میں والدہ ماجدہ بھی جہاں فانی سے رخصت ہوگئیں ،پھرآپؒ کے بڑے بھائی حضرت مولانا نور احمد پسروری ثم امرتسریؒ نے اپنی آغوش میں لیا اور مولانا پسروریؒ کی تعلیم و تربیت کے معاملات اپنے ذمہ لے لئے ، مولانا نور احمد پسروری برصغیر کے نامور اور جید عالم دین اور کئی کتابوں کے مصنف و مترجم ہیں۔ آپؒ کے تلامذہ اور شاگردوں میں سید محمد حسین شاہ جماعتی علی پوریؒ ،امیر شریعت سید عطااللہ شاہ بخاریؒ، مفتی محمد حسنؒ بانی جامعہ اشرفیہ اچھرہ لاہور ،حکیم فقیر محمد چشتی نظامی امرتسریؒ ،والدحکیم محمد موسیٰ امرتسریؒ اور دیگر کئی نامور عالم دین شامل ہیں۔
مولانا محمد حسین پسروریؒنے اپنے بڑے بھائی مولانا نور احمد امرتسری سے ابتدائی دینی تعلیم حاصل کی اور تمام علوم دینیہ ، قرآن و حدیث، تفسیر ،فقہ ،فتویٰ اور طب، منطق و علم کلام میں خصوصی دسترس حاصل کی۔ آپؒ نے پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور سے عربی فاضل کیا، اس کے بعد آپؒ نے دینی تعلیم و تبلیغ کا اہتمام کیا اور پسرور کی شاہی مسجد کے خطیب اور مدرسِ قرآن و حدیث کے فرائض انجام دیئے۔” انجمن تبلیغ اسلام پسرور“ قائم کی اس انجمن کے خصوصی اہداف میں آریہ سماج والے اور مرزائی شامل تھے، اس کے علاوہ آپؒ انجمن تبلیغ اسلام ”چونڈہ کے سالانہ جلسوں میںبھی شامل ہوتے ۔ آپؒ اپنے ساتھ مشہور اہل حدیث عالم دین مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی کو بھی لے جاتے ۔ آپؒ اتحاد بین المسلمین کے بڑے داعی تھے اور تمام مسالک کے ساتھ محبت اور رواداری سے پیش آتے۔ 1934ءمیں ایک ہندو مشن چونڈہ آیا اور آریہ سماج کے زیر انتظام ایک مسلم ہندو مناظرہ منعقد ہوا جس میں مسلمانوں کی نمائندگی حضرت مولانا محمد حسین پسروریؒ اور مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی نے کی ،جس میں ہندوﺅں کو شکست فاش ہوئی ۔انجمن کے تبلیغی کاموں اور اس کے اثرات کا اندازہ مسٹر گاندھی کے ان الفاظ سے کیا جا سکتا ہے: ”اگر ایسی چند اور انجمنیں وجود میں آگئیں تو ہندوستان میں کوئی بھی ہندو نظر نہیں آئے گا“.... وقائع سیالکوٹ اور روزنامہ پنجائیت 07-10-1934)

 مولانا محمد حسین پسروریؒ کے مرشدپاک حضرت حافظ فتح الدینؒ سلطان العارفین کے لقب سے مشہور اور حضرت خواجہ فقیر محمد چوراہیؒ کے خلیفہ مجاز تھے۔ مولانا پسروریؒ کو اپنے مرشد پاک سے حددرجہ محبت تھی ۔ایک عقیدت مند بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے خود سنا کہ اُن کا روحانی تعلق سلطان العارفین حافظ فتح الدینؒ سے چار سال کی عمر میں ہوگیا تھا اس وقت کے اکثر و بیشتر علماءاور مشائخ و صوفیاءکرام اس بات کا اظہار کرتے تھے کہ بابا جی مولانا پسروریؒ مادرزاد ولی عینی فطری ولی اللہ تھے۔ سلطان العارفین حافظ فتح الدینؒ نے 9شعبان 1314ھ کو وصال فرمایا ، پھر حضرات مکرم پیر سید جماعت علی شاہ امیر ملت، اور پیر سید جماعت علی شاہ لاثانیؒ اور دیگر بزرگان دین کی موجودگی میں حضرت فقیر محمد چوراہیؒ نے بابا جی مولانا پسروریؒ کی دستار بندی کی ، ساتھ ہی خرقہ خلافت سے نوازا اور امیر آستانہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ رنگپور شریف (سیالکوٹ) ہونے کا اعلان فرمایا۔
1922ءیا1924ءکے درمیان مولانا پسروریؒ کو حج و زیارات کے سفر میں ایسی سعادت نصیب ہوئی کہ زمانہ رشک کرتا ہے۔ بابا جی مولانا پسروری ؒ حج و زیارات کے لئے تشریف لے گئے تو اُن دنوں جنگ عظیم اول کی وجہ سے حالات خراب تھے اور روضہ رسول ﷺ پر خدام کی تعداد خاطر خواہ نہیں تھی، یوں نگرانی والے سپاہیوں اور خادموں کی کمی اورعدم موجودگی اللہ تعالیٰ کی خاص الخاص رحمت ثابت ہوئی اور حالات کچھ اس قسم کے پیدا ہوگئے کہ روضہ اطہر کے متولی خود حضور مولانا پسروریؒ سے پوچھنے آئے کہ آپؒ کی کیا خواہش ہے؟ سرکار دو عالم ﷺ کی بارگاہ میں حاضری اور روضہ انور کے اندر گویا مکمل تنہائی میں،سبحان اللہ۔ ایک روایت کے مطابق مولانا پسروریؒ کو نبی کریم ﷺ کے روضہ اطہر کے اندر مسلسل سات دن اور سات راتیں گزارنے کا موقع ملا ، دوسری روایت کے مطابق تین دن اور تین راتیں مکمل تنہائی میں گزارنے کا موقع ملا ۔ اللہ اکبر سبحان اللہ ، یہ وہ مقام ہے جس کی طرف خواجہ فقیر محمد چوراہیؒ نے مولانا پسروریؒ کوجامی عصر کہہ کر یاد کیا۔ اس سے مولانا پسروریؒ کے مقام محبوبیت اور عشق رسول ﷺ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔

اس واقعہ کا ذکر امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ علی پوریؒ نے اپنے والد گرامی کے سالانہ عرس کے موقع پر بھی کیا کہ ہمارے درمیان ایک ایسی شخصیت موجود ہیں جن کو پہلے ہی حج میں وہ سعادت نصیب ہوئی جو 14حج کرنے کے بعد بھی میرے حصے میں نہیں آئی۔ یہ سن کر حاضرین محفل حیرت زدہ رہ گئے کہ وہ کون خوش نصیب شخصیت ہیں کہ جن کے متعلق غوث دوراں یہ بات ارشاد فرما رہے ہیں ۔ تب پیر صاحبؒ نے یہ راز عیاں کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ میرے پاس ہی بیٹھے ہوئے ہیں ، جس نے جنتی کو دیکھنا ہے ، انہیں دیکھ لے ۔ یہ کہتے ہوئے امیر ملت سید جماعت علی شاہ کا اشارہ مولانا محمد حسین پسروریؒ کی طرف تھا ، پھر انہوں نے اس فضیلت کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ کس طرح بابا جی مولانا پسروریؒ کو روضہ اطہر (علی صاحبہا صلوٰة سلاما) کے اندر مسلسل تین دن تین راتیں گزارنے اور آقاو مولا علیہ الصلوة والسلام کی طرف سے خاص لطف و نظر کرم کا شرف حاصل ہوا ۔ یہ وہ خاص سعادت بھی نصیب ہوئی اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم ﷺ کے صدقے خاص انعام واکرام سے نوازا ۔اس کے علاوہ بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپؒ کے دست اقدس پر بہت سی کشف و کرامات ظاہر فرمائیں۔
حضرت مولانا محمد حسین پسروری کے پوتے صاحبزادہ عبدالحمید آفندی اورصاحبزادہ نورالحق دامت برکاتہم العالیہ (سجادہ نشین) فرماتے ہیں کہ حضرت مولانا پسروریؒ سچے عاشق رسول تھے۔ آپ کی عبادت و ریاضت بھی عین سنت نبوی ﷺ کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی، بلکہ اس قدر متابعت حاصل تھی کہ اگر اگر کسی نے احادیث مبارکہ کی کتب میں آپ ﷺ کی عبادات اور سنن مبارکہ کے متعلق نہ بھی پڑھا ہوتو وہ صرف حضور مولانا پسروریؒ کو دیکھ لیتا اور ان کے طرز زندگی کا مطالعہ کر لیتا تو اسے بہت ساری سنن مبارکہ کا پتہ چل جاتا ۔ آپؒ کے چہرہ مبارک پر ہروقت ہلکے سے تبسم کی کیفیت رہتی۔ آپؒ نے تمام عمر سنت مبارکہ کے مطابق ہی لباس زیب تن کیا۔ سر مبارک پر اکثر عمامہ شریف باندھتے، لیکن عمامہ شریف کے علاوہ ٹوپی بھی استعمال فرماتے لباس سادہ پسند فرماتے اور غذا میں بھی سادگی پسند فرماتے ۔تقریباً 24گھنٹوں میں صرف ایک وقت کا کھانا تناول فرماتے جو کبھی ظہر کے بعد اور کبھی مغرب کے بعد ہوتا ۔میٹھا زیادہ پسند نہیں فرماتے تھے ،لیکن کبھی کبھار میٹھے میں سویاں پسند فرماتے ،بعینہ یہی معمول آپؒ کے مرشد پاک خواجہ خواجگان فقیر محمد چوراہیؒ کا بھی تھا۔ آپؒ کا طریقہ کار یہ تھا کہ آپ عقیدت مندوں کو وظائف کی کثرت نہیں بتایا کرتے تھے ۔ صرف دینی مسائل سمجھاتے ، دین کے ضروری نکات واضح کرتے اور فرائض کو درست اور صحیح انداز میں ادا کرنے کی ترغیب دیتے۔ قرآن پاک کو درست پڑھنے اور یاد کرنے کی تلقین کرتے اور محبت رسول ﷺ تو آپؒ کی صحبت کا ایک لازمی جزو تھا۔
آپؒ صرف 2روز کی مختصر علالت کے بعد 10شوال المکرم 1370ھ بمطابق15جولائی 1951ءبروز اتوار عصر اس دارفناءسے داربقاءاپنے رب ذوالجلال کی طرف رحلت فرماگئے۔ (اناللہ وانا الیہ راجعون) اس خبر کے پھیلتے ہی سیالکوٹ شہر کے تمام کاروباری مراکز بند ہوگئے۔ آپؒ کو غسل حافظ غلام رسول صاحب نے دیا اور نماز جنازہ حسب وصیت (خلیفہ امیر ملت علی پوری) نے ادا کی۔ اس موقع پر چشم فلک نے نالہ وشیون اور گریہ زاری کے عجیب مناظر دیکھے، کیونکہ آپؒ لاتعداد لوگوں کے روحانی باپ تھے۔ نماز جنازہ میں شاملین کی تعداد کم و بیش 20ہزار تھی ۔ آپؒ کو اپنے مرشد پاک سلطان العارفین حافظ فتح الدینؒ کے پہلو میںجگہ عطا ہوئی۔ اس موقع پر آگرہ بھارت سے ممتاز عالم دین پروفیسر مولانا حامد حسن قادریؒ (خلیفہ امیر ملت علی پوری) نے منظوم فارسی تغریت نامہ ارسال کیا۔

مزید :

کالم -