سرکاری فیس لیکر فرار ہونیوالے رجسٹری محرر کا کوئی سراغ نہ مل سکا
لاہور (عامر بٹ سے) محکمہ ریونیو کے شعبہ رجسٹریشن برانچ اقبال ٹاؤن اور نشتر ٹاؤن سے 50 کروڑ سے زائد سرکاری فیس لیکر فرار ہونے والے رجسٹری محرر کا تاحال کوئی سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ انٹی کرپشن میں اس ضمن میں درج کئے جانے والے 2 مقدمات بھی کاغذی کارروائی مکمل کرتے ہوئے ردی سے بھر دئیے گئے ان کیسوں کے مدعی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ کلکٹر نے آج تک محکمہ انٹی کرپشن سے تحقیقات میں تاخیر اور ناکامی کی وجوہات جاننے کی کوشش نہ کی، بنک سٹاف، انسپکشن آڈٹ ٹیمیں، ریونیو سٹاف سمیت دیگر ذمہ دار پنجاب حکومت کے 50 کروڑ روپے کا صفایا کر گئے چیف سیکرٹری صاحبان، سنیئر ممبر صاحبان، اور ڈی سی او صاحبان کی تمام میٹینگیں اور کوششیں بھی دھری کی دھری رہ گئی محکمہ انٹی کرپشن کی جانب سے بھی ان کیسیز میں بھاری رشوت وصولی کی اطلاعات گردش کرتے ہوئے سنائی دے رہی ہیں تاہم کوئی بھی آفیسر اس کیس کو سنجیدگی سے حل کرنے میں مخلص نظر نہیں آ رہا ہے روزنامہ پاکستان کو ملنے والی معلومات کے مطابق ڈیڑھ سال قبل علامہ اقبال ٹاؤن اور نشتر ٹاؤن کی رجسٹریشن برانچوں سے کروڑوں روپے کی سرکاری فیس اور اہم نوعیت کا سرکاری ریکارڈ لے کر روپوش ہونے والے رجسٹری محرروں اور سب رجسٹراروں کو محکمہ اینٹی کرپشن تاحال گرفتار کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا ہے دوسری جانب یہ بات کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ محکمہ انٹی کرپشن کے انوسٹی گیشن افسران ان ملزمان کو گرفتار کرنے یا ان کا سراغ لگانے کی بجائے مختلف تاخیری حربوں سے نہ صرف اعلیٰ سطح کے ان مقدمات کو زیر التواء کرنے میں مصروف ہیں بلکہ ان کو اس ضمن بھرپور تحفظ فراہم کرنے کی کوششیں بھی کر رہے ہیں روزنامہ پاکستان کی انوسٹی گیشن رپورٹ کے مطابق ان گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران محکمہ انٹی کرپشن کے انوسٹی گیشن افسران خزانہ برانچ کے کسی بھی اہلکار پر ان کی جانب سے کی جانے والی بے ضابطگیوں کی نہ تو نشاندہی کر سکے ہیں اور نہ ہی کسی اہلکار پر اس کیس میں برابر کی ذمہ داری عائد کر سکے ہیں ذرائع کے مطابق خزانہ برانچ کے ٹرثری آفسیرز ذاکر حسین سمیت وہ تمام اہلکار اس گھناؤنے کام میں برابر کے شریک ہیں جن کی وجہ سے رجسٹری محرر اور سب رجسٹرار عرصہ دراز سے نہ صرف فیسوں کو آسانی سے ہڑپ کرنے میں مصروف رہے بلکہ خزانہ برانچ کے ٹرثری افسران کی جانب سے بھجوائے جانے والے تمام کاموں کی کلیئرنس رپورٹ حکام کو بھجواتے رہے ذرائع نے مزید انکشاف کیا ہے کہ خزانہ برانچ سے ریکارڈ لے کر بھاگنے والے اورنگ زیب وٹو نامی شخص کو باقاعدہ پاننگ کے تحت بھگایا گیا ہے جس میں خزانہ برانچ کے تمام اہلکار برابر کے شریک ہیں مگر انٹی کرپشن کے انوسٹی گیشن افسران نے ان کو مسلسل نظر انداز کرنے پر زور دے رکھا ہے اس طرح ہر سال رجسٹریشن برانچ کا آڈٹ کرنے والے سٹیمپ انسپکٹروں کو بھی ابھی تک شامل تفتیش نہیں کیا گیا ہے جن کی وجہ سے رجسٹری محرروں اور سب رجسٹراروں کو کلیئرنس رپورٹ کے ان کے دو نمبر کے تمام کاموں پر آسانی سے پردہ ڈال دیا جاتا رہا یہی وجہ ہے کہ آج یہ تاثر بھی عام ہوتا جا رہا ہے کہ محکمہ انٹی کرپشن کے انوسٹی گیشن افسران ان سے خفیہ ملاقاتیں کر چکے ہیں اور ان کو اس کیس سے دور رکھنے کی باقاعدہ ففیس بھی وصول ہو چکی ہے اس کے علاوہ بنک کی جعلی سٹیمپیں بھی استعمال کی گئی اور ان ضمن میں بنک کے عملے کو بھی آج تک شامل تفتیش نہیں کی جا سکا جس سے محکمہ انٹی کرپشن میں ہونے والی تحقیقات کے اصل حقائق بھی منظر عام پر آ چکے ہیں قابل ذکر بات یہ ہے کہ سرکاری فیس لے کر بھاگنے والے سب رجسٹراروں اور رجسٹری محرروں کی ایگزیکٹو اتھارٹی کو بھی اس کیس میں شامل نہیں کیا گیا ہے جس کے باعث اس کیس کے حوالے سے ریونیو سے وابستہ افراد چہ مگوئیاں کرنے میں ابھی تک مصروف ہیں مزید انکشاف ہوا ہے کہ ان رجسٹری محرروں اور سب رجسٹراروں کے کار خاص ملازمین آج بھی انہی برانچوں میں تعینات ہیں اور ان کو لمحہ بہ لمحہ ہر طرح کی رپورٹیں فراہم کرنے کا کام سر انجام دے رہے ہیں اور محکمہ انٹی کرپشن کے انوسٹی گیشن افسران کو ان ملازمین کے حوالے سے بھی تمام تر اطلاعات مل جانے کے باوجود ان کو شامل تفتیش نہ کرنے کے سبب آج تک کوئی نہیں جان سکا ریونیو ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ انٹی کرپشن کے انوسٹی گیشن افسران جان بوجھ کر اس کیس کو پائیہ تکمیل نہیں پہنچا رہے ہیں مختلف تاخیری حربوں سے اس کیس کو الیکشن کے بعد آنے والی گورنمنٹ کے سپرد کرنے کی تیاری کر رہے ہیں عوام الناس کی ایک قابل ذکر تعداد نے وزیر اعلیٰ پنجاب، چیف سیکرٹری پنجاب اور ڈی جی انٹی کرپشن پنجاب سے فوری طور پر اس کیس کی تفتیش کسی اچھے اور قابل افسر کے پاس لگوانے کی اپیل کی ہے تا کہ وہ سرعام گھومنے والے ان کرپٹ سرکاری ملازمین کو گرفتار کر سکیں جو کہ محکمہ انٹی کرپشن کے انوسٹی گیشن افسران کی نظروں سے اوجھل ہو چکے ہیں